حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ کی فقہی بصیرت اور جدیدمسائل پران کی نظر ۔

 

بہ قلم :

مفتی محمد خالدحسین نیموی قاسمی خالدحسین نیموی قاسمی

 

وہ اوصافِ حمیدہ جوکسی بھی شخص کوانفرادیت عطاکرتےہیں اورابنائےجنس میں اسےممتازبناتےہیں،ان میں فہم وفراست،فکر وتدبرّاور اور ذہانت وفطانت کو خاص مقام حاصل ہے،یہ صفات حسنہ جب علم شریعت سےمربوط ہوتی ہیں اورانسان جب ان صلاحیتوں کااستعمال کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ کی غوّاصی میں کرتاہےتو انسان کوتفقہ فی الدین کامقام حاصل ہوتاہے،

فقاہت اورفقہی بصیرت وہ عظیم نعمت ہے، جواللہ تعالیٰ اپنےان منتخب بندوں کوعطا کرتاہے؛ جن کےساتھ خیرکاارادہ کرتاہے،جیساکہ ارشادنبویﷺہے: من یرداللہ بہ خیرایفقہہ فی الدین۔

اللہ کے ان منتخب بندوں میں فقیہِ ملت حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی علیہ الرحمہ کی شخصیت بھی قابل ذکرہے، فیاض ازل نے آپ کوبھر پور انداز میں فقاہت اور دینی فہم و فراست کی دولت عطا کی تھی،جس کے نتیجے میں آپ کم وبیش نصف صدی تک اپنے فتاویٰ،فقہی مقالات اور فقہی تحریروں کے ذریعہ امت مسلمہ کی رہنمائی کافریضہ انجام دیتے رہے۔

حضرت مفتی ظفیر الدین مفتاحی کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع، متنوع اور ہشت پہل ہے، آپ بیک وقت با حوصلہ مجاہد، بیباک خطیب اور ششتہ، شائشتہ اور شگفتہ تحریروں کے انشاء پرداز بھی تھے. ان حیثیتوں سے بھی آپ نے ممتاز خدمات انجام دی ہیں، لیکن مجموعی طور پر آپ کی پوری زندگی پر فقہ و فتاویٰ کی چھاپ واضح طورپرمحسوس کی جا سکتی ہے،آپ کےفقہی ذوق کےفروغ میں فتویٰ نویسی کااہم رول رہا،آپ نےباضابطہ طورپرفتویٰ نویسی کی ابتداء اس وقت کی جب مشرقی یوپی کےمشہورادارہ مفتا ح العلوم مئو ۱۹۴۴؁ء م۱۳۶۳ھ؁میں وابستہ ہوئے.. فراغت کےبعد آپ کواسی ادارہ میں مدرس مقررکرلیاگیا تھا ،اس ادارہ میں تدریسی خدمات کی انجام دہی کےساتھ آپ کارافتاء بھی انجام دینےلگے،آپ کےاستاذمحترم جلیل القدرمفتی مولانا عبداللطیف صاحب نعمانی کی خاص نگرانی فتویٰ نویسی کےمراحل میں آپ کو حاصل رہی،مولانا نعمانی اورمحدث کبیرمولاناحبیب الرحمن اعظمیؒ کی با فیض صحبت نےآپ کی فکرونظرکوفقہی سانچےمیں ڈھال دیا۔اور تحقیق وتدقیق کا خاص ذوق عطا کیا.

مدرسہ معدن العلوم نگرام لکھنؤکی سہ سالہ تدریس اور دارالعلوم معینیہ سانحہ ضلع بیگو سرائے کی آٹھ سالہ تدریس کے دوران اگرچہ باضابطہ طور پرفتویٰ نویسی کاسلسلہ جاری نہیں رہا،لیکن وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق اس کام کو بھی انجام دیتے رہے،اور ساتھ میں فقہ اور اصول فقہ کی اہم کتابوںمثلاً:ھدایہ،شرحِ وقایہ،قدوری،المنار، نورالانوار،اصول الشاشی وغیرہ کی تدریس کا سلسلہ مستقل جاری رہا،جس سے آپ کی فقہی بصیرت پروان چڑھتی رہی،سانحہ ضلع بیگوسرائے میں تدریس کے درمیان آپ کے گہر بار قلم سے اسلام کا نظام مساجد،اسلام کا نظام عفت وعصمت جیسی معرکۃ الآراء کتابیں منصۂ شہود پر آئیں،ان کتابوں کو علمی دنیا میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی،اور آپ کے علمی وفکری بصیرت کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔یہاں تک کہ ۲/صفر۱۳۷۶ھ مطابق /۹ستمبر۱۹۵۶ء میں آپ کا انتخاب ایشیا کے عظیم علمی مرکز دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ تصنیف وتالیف کے لئے ہو گیا،اس شعبہ سے جماعت اسلامی کے دینی رجحانات جیسی معتدل فکر وخیال کی حامل کتاب منظر عام پر آئی،اسی درمیان مہتمم دارالعلوم دیو بند حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ اور معزز ممبر شوریٰ مولانا منظور نعمانی صاحبؒ ودیگر اکابر کی شدت سے یہ رائے ہوئی کہ دارالعلوم دیوبند پہلے مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانیؒ کے ہزاروں ہزار فتاوے جو ابتک محض رجسٹر کی زینت بنے ہوئے ہیں،انہیں فتاویٰ دارالعلوم کے نام سے بہتر انداز میں مرتب کروایا جائے،اس وقیع علمی کام کے لئے حضرت مہتمم صاحب ودیگر اراکین مجلس شوریٰ کی نظر انتخاب حضرت مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحیؒ پر پڑی اور۸/ذیقعدہ۱۳۷۶ھ؁کو اس اہم ترین فقہی ذخیرہ کی ترتیب کے لئے آپ کو منتخب کرلیاگیا،چنانچہ آپ نے بھر پور محنت اور مکمل تن دہی سے اس کا م کو انجام دینا شروع کیا،اور اس مہارت کے ساتھ انجام دیاکہ ہر ہر صفحہ سے آپ کی فقہی بصیرت کی عکاسی ہوتی ہے،مفتی صاحب نے جن فتاویٰ میں حوالہ درج نہیں تھا،کتب فتاوی سے حوالہ تلاش کرکے اسے درج کیا،ایک ایک مسئلہ کے لئے بعض اوقات متعدد حوالے درج کئے،جن فتووں میں حوالہ تو درج تھا؛ لیکن کتاب کا نام صفحہ نمبر وجلد نمبر موجودنہیں تھااسے بھی آپ نے درج کیا،آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کا حوالہ بھی بقید صفحہ وجلد وباب درج کیا،ناقلین کے عدم توجہ سے بعض حوالہ کی عبارتیں اصل فتوی میں غلط درج ہو گئی تھیں،انہیں اصل کتابوں سے ملا کر صحیح درج کیا،اگر کسی فتوی میں کوئی تاریخی واقعہ مذکور تھا تو تاریخ کی امہات الکتب سے ملاکر اس کا حوالہ درج کیا،ہر فتوی کے لئے مناسب عنوان بھی درج کیا،اس طرح حضرت مفتی عزیزالرحمن عثمانی کے کل بتیس ہزارچھے سو اٹھائیس فتوے کی بہترین ترتیب مفتی ظفیرالدین صاحبؒ کی جانفشانی کے نتیجے میں ۱۳۷۸؁ ھ میں مکمل ہوئی،گویا اتنا بڑافقہی کارنامہ محض دس سال کے عرصے میں تکمیل پذیر ہوا،جب کہ اس دوران دوسرے امور بھی انجام فرماتے رہے۔

تکمیل تر تیب کے بعداور اشاعت سے قبل آپ نے فتاویٰ دارالعلوم کے شروع میں ۶۴/صفحات کا ایک طویل مقدمہ تحریر فرمایا،جس میں فقہ وفتاوی کی تاریخ،افتاء کی اہمیت اور اسکی تاریخ،مفتی کے اوصاف وفرائض،اور فقہ وفتاوی سے متعلق دوسرے ضمنی مسائل پردل پذیر بحث کی گئی ہے۔

اس مقدمہ کی ہرہر سطر سے مفتی صاحب کی فقہی بصیرت کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے،خود مفتی صاحبؒ اپنی خودنوشت”زندگی کاعلمی سفر“میں لکھتے ہیں کہ:اس مقدمہ کو تمام اہل علم نے پسند کیامولانانعمانی ودیگر حضرات نے اسے بہت سراہا،بلکہ ان کی رائے تھی کہ اضافہ کر کے اس کو مستقل کتاب کی شکل دے دی جائے۔

ترتیب فتاوی کے ضمن میں جس قدر فقہی ذخائر کو کھنگالنے کی ضرورت پڑی اس سے آپ کی فقہی بصیرت میں زبردست اضافہ ہوا،اس کا اعتراف دارالعلوم کے ذمہ داروں کو بھی تھا۔چنانچہ ۲۹ /محرم۱۳۷۷ ھ کومہتمم صاحب کاحکم آیاکہ مرتب فتاوی کیساتھ کار افتاء بھی انجام دیں گے،لہٰذاآپ باضابطہ دارالعلوم کے دارالافتاء میں فتوی نویسی کاکام انجام لگے،مفتی صاحب ؒ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں:ابتدائے کار میں بعض مسائل پر رائے کا اختلاف ہوا،مگر اللہ کی مہربانی سے تحقیق کے بعد میری رائے قابل ترجیح ٹھہری اور دوچار دفعہ کے بعد مفتی مہدی حسن صاحبؒ اور نائب مفتی صاحب ؒپورا اعتماد کرنے لگے،میری نگاہ مفتی عزیزالرحمن صاحب کے تمام فتاوے کے مطالعہ کے بعد وسیع تر ہو گئی تھی،ترتیب فتاوی میں ان تمام فتاویٰ کو غور سے پڑھنا میری ذمہ داری تھی۔

دارالعلوم کے دارالافتاء کے سینیر مفتی کی حیثیت سے آپ نے ہزاروں ہزار مسائل کے تشفی بخش اور مدلل ومفصل جوابات تحریر فرمائے۔خاص طور پر نئے مسائل پر آپ کی گہری نظر تھی،نت نئے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے آپ ہمیشہ سرگرداں رہتے تھے،مختلف جہتوں سے اس پر غور کرتے تھے،مقاصد شریعت کو بھی پیش نظر رکھتے تھے،پھر تحقیق وجستجو کے مراحل سے گزرنے کے بعدجب کوئی رائے قائم کرلیتے تھے تو حیرت انگیز طور پر وہ تمام اکابر کا اعتماد حاصل کرلیتی تھی،افسوس کہ ہزاروں ہزار صفحات پر بکھرے ہوئے آپ کے تحریر کیے ہوئے فتاوے اب تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوسکے،ان کی طباعت کی کوشس ہم جیسے سینکڑوں شاگردوں کے لئے علمی فرض ہے،انشااللہ طباعت کے بعد آپ کے فتاوے نئے مسائل کے حل کے لئے سنگ میل ثابت ہونگے،جس طرح آپ کے معاصر مفتیان کرام کے فتاوے مثلاً،فتاویٰ محمودیہ، نظام الفتاویٰ،فتاوی نظامیہ وغیرہ کو اللہ تعالی نے مقبولیت عطافرمائی،توقع کی جا سکتی ہے کہ اس طرح حضرت مفتی صاحبؒ کے فتاوے کو بھی بے نظیر مقبولیت حاصل ہوگی،قابل ذکر ہے کہ دارلافتاء سے انتساب اور دارلعلوم دیوبند میں فتوی نویسی کے حوالے سے حضرت مفتی صاحبؒ فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی اورحضرت مفتی نظام الدین صاحب اعظمیؒ سے بھی سینئر تھے،یہ حضرات مفتی صاحب کے بعد دارالافتاء سے منسلک ہوئے تھے،لیکن چونکہ حضرت مفتی ظفیرالدین صاحب کو دارالعلوم کے اعلی مفاد میں دارالافتاء سے کتب خانہ منتقل کردیا گیااس لئے مذکورہ حضرات کی طرح ان کے کار افتاء میں تسلسل نہ رہ سکا،البتہ انقلاب دارالعلوم کے بعد ۱۹۹۳ء؁ سے ۲۰۰۸ء؁ تک مسلسل سترہ سالوں تک کار افتاء انجام دیتے رہے،اور ہزاروں ہزار مشکل مسائل کی گرہ کشائی فرمائی اور جس مسئلہ پر آپ الجواب صحیح لکھ دیتے تمام مفتیا ن کرام کواس کی صحت کا یقین ہوجاتا۔

اسی دوران جب حالات حاضرہ میں امت کی رہنمائی اور نت نئے مسائل کے حل کے لئے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکاقیام عمل میں آیا تو اس کے بانی جنرل سکریٹری مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒنے خاص طور پر آپ کو اس کا رکن رکین مقررفرمایااور اس کے تمام سمیناروں میں جب تک صحت نے اجازت دی شرکت فرماتے رہے اور اس پلیٹ فارم سے نئے مسائل پر درجنوں مقالات تحریر فرمائے،جو مجلہ فقہ اسلامی میں طبع ہوکر اس کے علمی وقار میں اضافہ کا سبب،امت کی رہنمائی اور نئے علماء ومفتیان کرام کی تربیت کاباعث بنے۔

آپ کی اس تبحر علمی اور تفقہ فی الدین اور امت کے مسائل کے تئیں بے پناہ فکر مندی کی وجہ سے قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒکی وفات کے بعد اسلامک فقہ اکیڈمی کاصدر منتخب کیا گیاجس پر آپ تا حیات فائز رہے،اور آپ کی صدارت میں اکیڈمی کا کاروان علم وفقہ محو سفررہا،اسی طرح آپ آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈکے رکن تاسیسی کی حیثیت سے بورڈ کے خاص علمی مشیر رہے،امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی وبورڈ کے دیگر عہدیداروں کے حسبِ منشا احوال شخصیہ سے متعلق اسلامی قانون کی دفعہ وار ترتیب کی خشت اول رکھنے اور اس کا خاکہ مرتب کرنے کا سہرا بھی آپ ہی کے سرہے،اس سلسلے میں حضرت رحمانی کی گذارش اور مہتمم دارالعلوم دیوبند کی اجازت سے مونگیر کے متعدد اسفار کیے.. اور بسا اوقات لمبا قیام بھی کیا… اس سلسلے میں حضرت رحمانی کے متعدد خطوط مکاتیب رحمانی میں موجود ہیں..اسلامی قانون کا یہ دفعہ وار مجموعہ بعد میں مجموعۂ قوانین اسلامی / اسلامی قانون، متعلق مسلم پرسنل لا کے نام سے شائع ہوا.

جدید مسائل کے حل میں آپ دارالعلوم میں انفرادی شان کے مالک تھے،اس کے اثرات ان طلبہ میں بھی محسوس کئے جاتے تھے جو دارالافتاء میں آپ کی نگرانی میں تمرین فتویٰ نویسی کرتے تھے،دارالافتاء کے طلبہ کی متعدد درسی کتابیں آپ سے منسلک ہوا کرتی تھیں،خاص طور پر درمختار کی تدریس کی خدمت آخر تک انجام دیتے رہے،دوران درس طلبہ کو نئے مسائل کے حل کی اساس بھی بتاتے اور ان میں مضبوط فقہی شعور پیدا کرنے کی کوشس کرتے۔درمختاراور فتاویٰ عالمگیری کا سلیس اردو ترجمہ آپکی فقہی بصیرت کا شاہد عدل ہے۔

خلاصہ یہ کہ حضرت مفتی صاحبؒ اپنی خداداد صلاحیت فقہی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیشہ امت کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہے اور تن تنہا اتناعظیم کارنامہ انجام دیاکہ بسا اوقات اکیڈمیاں انجام نہیں دے پاتی ہیں۔

[email protected]

*صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز

Comments are closed.