ملت سے ہمدردی کے نام پر علماء سے نفرت

از: محمد اللہ قیصر
رات ایک پڑھے لکھے نوجوان سے ملاقات ہوئی، مختلف موضوعات پر بات چیت ہونے لگی، ایسے موقع پر عموما امت کے زوال پر ضرور بحث ہوتی ہے، اور زوال امت پر گفتگو ہو تو کچھ لوگ علماء پر نشانہ سادھنا اپنا ملی فریضہ سمجھتے ہیں، فورا ایک گھسا پٹا ،برسوں پرانا "الزام” داغا گیا، "علماء نے پرنٹنگ پریس کے خلاف فتویٰ دیا” ڈائرکٹ انکار کے بجائے مجھے مناسب لگا کہ وہ فتویٰ طلب کیا جائے، یا اس دور کے کسی بھی معتبر عالم کی کوئی تحریر جو پرنٹنگ مشین کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہو، تلاش بسیار کے بعد (وہ بھی گوگل پر) ، فتویٰ یا کسی عالم دین کی تحریر تو نہیں ملی، البتہ اس دوران ایک مضمون ملا، جو ان کے بقول کیمبرج کی آفیشیل سائٹ پر ہے۔
یہ ان کی دلیل تھی، دینی امور میں غیروں کی لکھی تحریر پر تکیہ کئے بیٹھے تھے، پھر بھی ان کا اصرار تھا کہ میں علماء کے اس ناکردہ گناہ کا اعتراف کروں۔
پرنٹنگ پریس کا واقعہ صرف یہ ہے کہ محققین کی رائے کے مطابق ایسے کسی فتویٰ کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے، ایک فرانسیسی پادری، نے اپنی کتاب میں لکھ دیا، کہ سلطنت عثمانیہ کے آٹھویں خلیفہ سلطان بایزید ثانی(1447ء – 1512ء) کے عہد میں ترکی کے شیخ الاسلام نے "پرنٹنگ پریس” کے خلاف حرمت کا فتویٰ دیا، لہذا سلطان نے اجازت نہیں دی، اس ایک غیر مصدقہ فتویٰ کو، علماء مخالفین، 5 صدیاں گزرنے کے بعد بھی، ڈھو رہے ہیں، اور اب بھی علماء کے خلاف نفرت انگیزی کی ہر مہم میں اسے ضرور دہرایا جاتا ہے۔
اس کے بر خلاف 1588 میں سلطان مراد الثالث( 1546- 1595) کے ذریعہ جاری کئے جانے والے اجازت نامہ کا دستاویزی ثبوت موجود ہے، بعض مغربی مفکرین نے پہلے دعویٰ کی تردید بھی کی ہے، اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی، لیکن مخصوص مقاصد کے تحت پھیلائے گئے جھوٹ کو اتنا دہرایا گیا کہ ملت کے تئیں سچی ہمدردی رکھنے والے بھی قبول کرنے لگے۔
کیا اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ نبی کرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مشرکین و یہود نے مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متنفر کرنے کی کوشش کی، اس کے بعد علماء دین سے نفرت مختلف طریقوں سے پیدا کی گئی، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اور اس نفرت انگیزی کا مقصد واضح ہے کہ دین کا علم رکھنے والوں سے دوری ہوگی تو دین کے علم سے دوری ہوگی، جس کا لازمی نتیجہ دین سے دوری اور دین بیزاری ہے۔
اور اسی مقصد کیلئے طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں،
بالفرض اگر تاریخ میں ایک دو واقعات ایسے ہوبھی گئے تو کیا ضروری ہے کہ آج پانچ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی ان کو بار بار دہراکر یہ باور کرایا جائے کہ تنزلی کی اصل وجہ یہ علماء اور ان کے فتاوی ہیں، کیا پرنٹنگ پریس پر پابندی کی وجہ سے پڑھنے کا مزاج ختم ہوا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پرنٹنگ پریس کی اجازت مل جاتی تو امت ترقیوں کے معراج پر ہوتی، کیا یہ درست نہیں کہ اس زمانہ میں موجود خطاط نو ایجاد پرنٹنگ پریس سے اچھی تحریر میں کتابیں لکھنے کیلئے بڑی تعداد میں، ہر وقت موجود تھے، ہندستان میں شہنشاہ اکبر کے عہد میں پرنٹنگ پریس لگانے کی اجازت یہ کہہ کر نہیں دی گئی، کہ خطاط بے روز گار ہو جائیں گے، پرنٹنگ مشین میں جب عمدگی آئی تو اجازت ملی،اور اسی کا چلن عام ہوگا، اس کے بعد پڑھنے لکھنے سے کیوں بھاگتے رہے،آج کیوں تعلیم میں پچھڑے ہیں؟ آج تو کوئی ممانعت نہیں ہے، یہ الزام کیوں لگایا جاتا ہے کہ علماء یوروپ کی ہر ایجاد پر معترض تھے، کیا اسی وقت ایجاد ہونے والے ” کمپاس” اور "گن پاؤڈر” کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی؟ اس کے علاؤہ سوال یہ ہے کہ علماء کی کتنی باتوں پر عمل کرتے ہیں، علماء تو بداخلاقی، بد کرداری ، عبادات میں تساہلی اور معاصی کے ارتکاب سے بھی روکتے ہیں ، ان سے کیوں نہیں رکتے؟ آج چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ خدا کے واسطے اپنی نسلوں کی تعلیم پر خرچ کرو، کیوں نہیں قبول کرتے؟ اسکول کالج، اور انسٹیٹیوٹ قائم کرنے پر ابھارتے ہیں، تو آج کیوں نہیں ان کی پیروی کرتے؟ حقیقت ہے کہ یہ من گھڑت الزامات اپنی سستی اور کاہلی پر پردہ ڈالنے کا سامان ہیں۔
ماضی کو کریدنے کا مقصد ہوتا ہے مستقبل کی تعمیر میں عمدگی اور کوالیٹی پیدا کرنا، ماضی میں اگر کوئی غلطی ہوئی، اس کے نتائج غلط نکلے تو اس کے اسباب و عوامل پر گفتگو کے بعد اس سے اجتناب کیا جائے، اور مفید اقدامات اور فیصلوں کی افادیت، خصوصیات و امتیازات، ان سے حاصل شدہ نتائج، دور حاضر میں در پیش مسائل کے حل میں ان کی قابلیت و صلاحیت اور ان کے ہر گوشے پر بحث و تمحیص کے بعد، انہیں آج اختیار کرنے کے امکانات اور طریقے تلاش کئے جائیں، اس کے برعکس اگر ماضی کو صرف اسلئے کھنگالا جائے کہ اپنی قوم کے، حکمراں، علماء، یا کسی ایک طبقہ کی تذلیل و توہین کی جائے، عوام میں ان کی خدمات کا استخفاف کرکے ، ان کی حیثیت عرفی کو مجروح کرکے، ایک کنارے دھکیل دیاجائے، تو یہ ذہنیت پوری قوم کیلئے جان لیوا ثابت ہو گی، مستقبل کی تعمیر و ترقی کی خواہش رکھنے والی کوئی قوم ماضی کی کھود کرید اس گھٹیا مقصد کیلئے نہیں کرتی، ہم اپنے ملک میں دیکھ سکتے ہیں دوسرے لوگ اپنے حکمراں، مفکرین، فلاسفہ اور فکری قوت کے حاملین کو دوسروں کے سامنے، خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، بزدلوں کو "ویر” اور جاہلوں کو عالم کہتے نہیں تھکتے، دنیا کو علم کی روشنی سے منور کرنے کا دعویٰ ان کی زبان پر ہر وقت رہتا ہے، یہ رویہ ان کے نوجوانوں میں خود اعتمادی پیدا کرتا ہے، وہ مستقبل کے تئیں پرجوش اور حوصلہ مند ہوتے ہیں۔
ہمارا رویہ نوجوانوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ماضی میں قوم کی سیاسی و فکری باگ ڈور جن ہاتھوں میں تھی وہ "عضو معطل” اور اعلی درجہ کے "مفاد پرست” تھے، وہ اعلی درجہ عیش کوش تھے، ان کا کوئی بھی فیصلہ قوم و ملت کے مفاد سے زیادہ ان کے ذاتی مفادات کی حفاظت کیلئے ہوتا تھا، اور اس کا لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ نوجوان اپنے پیش رو سے بدظن ہوتے ہیں پھر ان میں احساس کمتری اور مایوسی پیدا ہوتی ہے۔
اس طرح کا جھوٹ پھیلانے والے، ضروری نہیں کہ دشمن ہوں، وہ تو کسی بھی جھوٹ کو ہمدردی کے شیرے میں ڈبو کر اچھالتے ہیں، پھر خاموش ہو جاتے ہیں، اپنوں میں وہ لوگ جو ملت کا مرثیہ لکھتے ہوئے، حقیقی اسباب تک نہیں پہونچ سکتے وہ ان افواہوں کو غنیمت سمجھ کر چیختے ہیں کہ یہ ہیں تمہاری پستی کے حقیقی اسباب، مزید یہ کہ تنزلی اور پستی جب حد سے گذرنے لگتی ہے تو متاثرین تنزلی کے حقیقی اسباب و عوامل اور ان کا حل تلاش کرنے کے بجائے آپس میں الجھنے لگتے ہیں، کیوں کہ ان کی ذہنی بے چینی بڑھتی ہے، تو تسکین کیلئے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں، سست اور کاہل انسان کا نفس لوامہ بڑا متحرک ہوتا ہے، کاہلی عمل سے روک دیتی ہے لیکن وقت گذرتے ہی، نفس لوامہ حملہ آور ہوکر کاہلی پر خوب ملامت کرتا ہے، اور ان کی روح کو مجروح کرتا ہے، ان لوگوں کے نزدیک بھی اپنی سستی اور کاہلی کا واحد حل یہی ہے کہ کسی پر بھڑاس نکالیں، اور مولوی سے زیادہ آسان شکار کون ہو سکتا ہے، ان کو مورد الزام ٹھہرا کر ایسے لوگ اپنے نفس لوامہ کو ذرا دیر کیلئے تھپکی دے کر سلادیتے ہیں۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ ماضی کی باتیں دہرا کر الجھنے اور الجھانے کے بجائے "اپنے عمل و کردار کی سطح بلند کرتے، جان لیجئے ترقی کا بس ایک راستہ یے، غور فکر، اس پر مبنی منصوبہ بندی، پھر اس پر عمل، دوسرا کوئی راستہ نہیں۔

Comments are closed.