ان حالات میں، ان جیسے مرد قلندر کی آج ضرورت ہے۔

 

 

مفتی محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

 

 

خاکسار نے اپنی زندگی میں جن لوگوں کو سب سے زیادہ ملک کی ترقی ،خوشحالی، سلامتی، یکجہتی،سالمیت ،امن و امان، اور شانتی کے لئے فکر مند دیکھا ان میں سب سے نمایاں نام اور سر فہرست شخصیت حضرت مولانا علی میاں ندویؒ تھی۔

قرآنیات، تاریخ اور سیرت و سوانح اور تاریخ اصلاح و تجدد آپ کا خاص موضوع تھا ۔ آپ ہمیشہ اپنے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میں تاریخ کا طالب علم ہوں ۔تاریخ ہمارا موضوع ہے ۔

قوموں کے عروج و زوال ،انحطاط و تنزلی، اقبال و ادبار نکبت اور ملکوں کی ترقی و تنزلی کے اسباب و وجوہات اور محرکات پر آپ مورخانہ نظر رکھتے تھے ۔ قدرت نے آپ کو سوچنے سمجھنے اور خطرات کو بھاپنے کی غیر معمولی صلاحیت سے نوازا تھا۔ سماج میں پھیلتے امراض اور بیماریوں کی نشاندہی کا غیر معمولی سلیقہ اللہ نے آپ کو نوازا تھا ۔ ملک میں انسانیت اور مانوتا کیسے زندہ ہو، امن و امان کا ماحول کیسے قائم رہے، خوشگوار فضا کیسے قائم ہو؟ ظلم ناانصافی اتیا چار اور ہنسا کیسے مٹے؟ اس کے لئے آپ نہ صرف فکر مند رہتے بلکہ اس کے لئے جو کچھ آپ اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ کرسکتے تھے وہ ضرور کرتے تھے۔ آپ نے ہندوستان کے مختلف وزراء اعظم اور حکمرانوں کو ظلم و ناانصافی کے خاتمہ کے لئے اور ملک میں امن و شانتی کی فضا بنانے اور اس پر زور دینے کے لئے پوری جرآت کے ساتھ خطوط لکھے اور ملاقات پر ان کی توجہ اس جانب مبذول کیا۔ ظلم کے خلاف آپ نے ہمیشہ آواز اٹھائی اور ظلم کی شناعت اور اس کے بھیانک انجام اور نتائج سے لوگوں کو آگاہ کیا۔

بابری مسجد کی شہادت کے بعد ۶/ جنوری ۱۹۹۲ء کو قیصر باغ لکھنئو کی سفید بارہ دری میں ایک مخلوط اجتماع میں آپ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:

سارے مذاہب اگر کسی بات پر متفق ہیں تو اس پر کہ ظلم بہت بری چیز ہے، اور ظلم خالق کائنات کو ناراض کرنے والی چیز ہے،اور اس کی طرف سے ظلم کرنے والوں پر ایسی ایسی سزائیں آفتیں اور مصیبتیں آتی ہیں، جن کا پہلے سے تصور و تعین بھی نہیں کیا جاسکتا اور ان کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، میں کہنا نہیں چاہتا،اسی ملک کا رہنے والا ہوں، میری زندگی بھی اسی ملک سے وابستہ ہے ،مگر میں کہتا ہوں کہ ظلم کرنے والوں پر خدا کی طرف سے آفتیں آتی ہیں، زلزلے آتے ہیں، بجلیاں گرتی ہیں، گرانی بڑھتی ہے، قحط سالی آتی ہے، چیزیں نایاب ہوجاتی ہیں، بیماریاں بھی عام ہوجاتی ہیں، اور آگے مجھ سے نہ کہلوائیے۔

میں کہہ رہا ہوں کہ سب سے زیادہ ڈرنے والی چیز جو ہے وہ ظلم ہے،دنیا کے سارے مذاہب، سارے کلچر ،سارے ریفارمرس، سارے صوفی سنت اس بات پر متفق ہیں کہ انسان سب سے زیادہ قیمتی ہے اور ہر مذھب کا انسان، ہر شہر کا انسان،ہر برادری کا انسان،ہر نسل کا انسان،ہر طبقہ کا انسان، ہر سوسائٹی کا انسان، ہر قابلیت کا انسان، ہر صلاحیت کا انسان مفید ہو یا غیر مفید وہ خدا کی صنعت ہے،وہ خدا کی رحمت کا مظہر ہے۔

 

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ نے حکمراں اور ارباب اقتدار کو جو خطوط لکھے ہیں اس میں محبت ہے، اپنائیت ہے، خلوص ہے ،درد ہے،کسک ہے،سوز ہے، جرآت ہے، اور بے باکی اور بے خوفی ہے، ان خطوط کو پڑھنے کے بعد معلوم و محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کا یہ شعر ہر طرح سے آپ پر صادق آتا ہے۔

 

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

 

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ ملک کی سالمیت کے لئے کس قدر فکر مند رہتے تھے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی آخری علالت کے وقت اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب ندوہ آئے تو دوران گفتگو خاص طور پر ان سے مخاطب ہو کر کہا:

اٹل جی! خدا کے ہاں سیاست نہیں چلتی،خلوص چلتا ہے،سچائ چلتی ہے،خلوص کے ساتھ کام کیجئے، کامیابی قدم چومے گی،ترقی کی راہیں کھلیں گی،اور فتح و کامرانی آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلے گی،اوپر والے نے آپ کو اتنا بڑا ملک دیا ہے ،وہ اس ملک کے بارے میں آپ سے پوچھے گا بھی،آپ کو یہ موقع ملا ہے کہ آپ اس ملک کو اتنی ترقی دیں اور اس کو اتنا خوشحال اور پرامن بنائیں کہ لوگ دوسرے ملکوں میں جانے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔

غالباً ۱۹۷۷ء میں جب ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی، نس بندی کے وقت آپ نے آنجہانی اندرا گاندھی کو کئی خطوط لکھے تھے۔ ایک خط میں آپ نے لکھا تھا:

اس بات کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ لوگوں کو اظہار خیال کی آزادی ملے، جس پر ہم نے ہمیشہ باہر کے ملکوں پر فخر کیا ہے، اور زندگی کی وہ گرمی اور نرمی محسوس ہو جو ایک زندہ جسم کی خصوصیت و علامت اور جینے کا لطف و قیمت ہے، اس سلسلہ میں اتنا کہنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ گرفتاریوں میں بڑی بے احتیاطی اور ایک حد تک زیادتی کی گئی ہے، جس میں بہت سے ناکردہ گناہ گرفتار ہوئے، ملک جس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی طرف جارہا ہے اور ضمیر جتنا بے حس و مردہ ہو چکا ہے۔ اس وقت ملک کی جلد خبر لینے کی ضرورت ہے۔

ایک اور خط میں آپ نے اندرا گاندھی جی کو لکھا:

ملک کی حفاظت صرف تین باتوں سے ہوگی،سچے سیکولرزم، صحیح جمہوریت اور ہندو مسلم اتحاد یہی تین راستے ہیں جس سے ملک بچ سکتا ہے۔

جس وقت وی پی سنگھ اتر پردیش کے وزیر اعلی تھے اس وقت مراد آباد عید گاہ میں زبردست سانحہ ہوا تھا، سینکڑوں مسلمان شہید کردیے گئے تھے، اس موقع پر لکھنئو کے ایک جلسہ میں آپ نے وی پی سنگھ (وشوناتھ پرتاپ سنگھ) کو مخاطب کرتے ہوئے پوری جرآت کے ساتھ کہا تھا: میرا ہاتھ آپ کے گریبان تک تو نہیں پہنچ سکتا، لیکن آپ کے دامن تک ضرور پہنچ سکتا ہے،میں آپ کا دامن پکڑ کر کہوں گا کہ خدا کے لئے مجھے اس لائق رکھئیے کہ میں باہر کا سفر کرسکوں، ملک کی موجودہ صورت حال دیکھتے ہوئے اور یہاں کی بدامنی کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے باہر کا سفر کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، میں کیسے لوگوں کا سامنا کروں گا، میں کیسے ان کے سوالات کا جواب دوں گا ۔ جب وہ یہاں کی بدامنی کے بارے میں پوچھیں گے ،جب وہ یہاں کے تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں سوال کریں گے، جب وہ یہاں کی بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کی لہر کے بارے میں پوچھیں گے ،تو میں کیا کہوں گا، سچ کہہ نہیں سکتا کہ اس سے ملک کی بدنامی ہوگی، جھوٹ بول نہیں سکتا کیونکہ میرا مذہب مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا۔

لیکن افسوس کہ اس وقت حضرت مولانا علی میاں ندویؒ جیسی بے باک حوصلہ مند ، جری، حق گو و حق پرست شخصیت اور بے لوث قائد عنقا اور ناپید ہوتے جارہے ہیں، بے جا مصلحت اور مفاد کے حصار میں زیادہ تر قائدین محصور ہوتے جارہے ہیں ، جرات رندانہ کا وصف اب ان میں بہت کم جھلکتا ہے، اس لیے عوام ان قائدین اور آج کی قیادت سے ناامید اور نالاں ہوتے جارہے ہیں۔ خدا کرے کہ اس امت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو ساحل سے ہمکنار کرنے کے لیے مولانا علی میاں ندویؒ جیسی شخصیت کو اللہ تعالیٰ پیدا کردے جو پوری بے باکی اور شجاعت اور حوصلے کے ساتھ حکومت وقت کو غلط کام اور غلط اقدام سے روک سکے اور پوری انسانیت کو ظلم و ہنسا اور ناانصافی سے رکنے کی پوری طاقت کے ساتھ تلقین کرسکے اور اس کو اس کے انجام سے باخبر کرسکے۔

Comments are closed.