Baseerat Online News Portal

فرقہ پرستی ہرانے کے نام پر مسلمان تنہا

 

از

حضرت مولانا اعجاز احمد خان رزاقی صاحب

قومی صدر ال انڈیا علماء کونسل

 

مسلما نوں کے تعلق سے بھا جپا سمیت تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا ایجنڈہ یکساں ہے جو اپنے ایجنڈہ اور موقف میں سخت ہے وہ مسلمانوں کی نظر میں فرقہ پرست ہے اور جو اپنے ایجنڈہ میں نرم ہے وہ پارٹی سیکولر ہے

ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے شروع سے ہی حکومت میں رہنے کی غرض سے مسلم قیادت کو فرقہ پرستی ہرانے کی ذمہ داری تفویض کر دی ہے اور بدلہ میں انکو راجیہ سبھا،ایم ایل سی وغیرہ کے ٹکٹ اور دیگر حکومتی مراعات سے نوازے جانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے

جس کے نتیجے میں مسلم قیادت اورمسلم تنظیموں نے فرقہ پرستی ہرانے کا اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنا کر اسی چور دروازے سے کئی بار راجیہ سبھا اور ودھان پریشد تک پہنچ کر بجائے قوم و ملت کے مفاد میں کچھ کرنے کے انہوں نے اپنا ہی الو سیدھا کیا

الیکشن کے موقع پربا ضابطہ یہ لوگ فرقہ پرستی ہرانے کے نا م پر مسلمانوں میں مفت لٹریچر اور پمفلٹ تقسیم کرتے ہیں مسلم علاقوں میں فرقہ پرستی ہرانے کے لیے خفیہ میٹنگیں ہوتی ہیں جمعہ کے خطبات میں ممبر رسول سے فرقہ پرستی ہرانے کی اپیلیں کی جاتی ہے مسلم ووٹوں کی اتحاد کی بات کی جاتی ہے متحد ہو کر کسی جیتنے والے ایک امیدوار کو ووٹ دینے کی اپیل کی جاتی ہے بعض مسلم تنظیموں نے ایک ایسا تھر ما میٹر بھی ایجاد کر لیا ہے جس سے وہ پتہ لگا لیتے ہیں کون سا امیدوار جیت رہا ہے باضابطہ جیتنے والے امیدواروں کی فہرست شائع کی جاتی ہے کہ مذکورہ امید وار جیت رہا ہے لہٰذا مسلمان اسکو ووٹ کریں

فرقہ پرستی ہرانے کے لیے مسلم تنظیموں کے زمہ دار یا ممبران با ضابطہ میدان میں نکلتے ہیں جگہ جگہ مسلم علاقوں میں فرقہ پرستی کے خلاف تقریریں ہوتی ہیں فرقہ پرستی ہرانے کے نام پر مسلم لیڈرشپ والی پارٹیوں کو آج تک کا میاب نہیں ہونے دیا جاتا ہے اسے بی جے پی کا ایجنٹ بتا کر مسلمانوں کے نظروں میں مشکوک بنا دیا جاتا ہے

فرقہ پرستی ہرانے کا آڑ لیکر بڑے بڑے کھیل کھیلے جاتے ہیں الیکشن کے موقع پر ایس پی،بی ایس پی،کے دلال مسلمانوں کے محلے میں نکل کر انکو یہ کہتے ہوئے گمراہ کرتے ہیں کہ اس با ر کا الیکشن زندگی اور موت کا الیکشن ہے اس بار بی جے پی ہرا لو آئندہ الیکشن میں مسلم قیادت کو ووٹ دیکر جتا دینا اس با ر اگر ووٹ تقسیم ہو گیا تو بی جے پی جیت جائیگی پھر ہمارا ایمان خطرے میں پڑ جا ئیگا ہمارے مدرسوں اور مسجدوں پر بلڈوزر چل جائیگا،مسلم نو جوانوں کو جیل کے سلا خوں کے اندر ڈال دیا جائیگا ہماری دنیا اور آخرت خراب ہو جائیگی اس طرح کے جملے بول کر مسلمانوں میں ڈر اور خوف پیدا کر کے انکے ووٹوں کو ٹھگ لیا جاتا ہے

آزادی کے بعد سے مسلمانوں کا فرقہ پرستی ہرانے کے لیے ذہن بنانے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہندوستانی مسلمان

بھا جپا ہرانا اور اسکی مخالفت کرنا سیکولر پا رٹیوں کو جتانا اور انکی حمایت میں کھڑا ہونا اپنا ملی فریضہ اور دنیا و آخرت کی کا میابی کا ذریعہ سمجھتا ہے

یہ کڑوی سچّائی ہے کہ ملک میں بھا جپا کو اقتدار میں لا نے میں مسلما نوں کا بہت اہم کر دار ہے مسلمان آنکھ بند کر کے جس طرح بھاجپا کی مخالفت کرتا ہے اسی طرح ہندو اپنی آنکھیں بند کر کے بھا جپا کی حمایت میں کھڑا ہو جاتا ہے آج بھی اگر مسلمان بھا جپا ہراؤ مورچے کی صدارت ترک کر دے تو اس ملک کا ہندو بھا جپا کو اقتدار سے با ہر پھینک دیگا

لیکن دو نوں طبقہ اپنی ضد پر قائم ہے کوئی بھی اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ابھی گذشتہ جمعہ کو آئمہ مساجد کے ذریعہ مسلما نوں سے ووٹ بنوانے کی اپیل کے ساتھ ساتھ بعض مساجد کے اما موں کے ذریعہ یہ بھی اپیل کیا گیا کہ مسلمان کسی بھی بہکاوے میں ہر گز نہ آئیں وہ فرقہ پرستی ہرانے کی سو چیں جو پارٹی یا جو امیدوار فرقہ پرستی کو برائے مسلمان اسی امیدوار کو ووٹ کریں آزادی کے بعد سے ہم فرقہ پرستی ہراتے چلے آئیں ہیں لیکن آج تک ہمارے نزدیک فرقہ پرستی کی کوئی معیار نہیں ہے شیو سینا ایک فرقہ پرست پارٹی ہے مگر کانگریس سے اتحاد کر کے وہ سیکولر بن جاتی ہے بڑے بڑے بھاجپا ئی دنگائ سماجوادی پارٹی میں شامل ہو کر سیکولر بن جاتے ہیں یعنی جن پارٹیوں سے مسلم دلا لوں کا الو سیدھا ہو وہ سیکولر پارٹی ہے اور جن سے مسلم ووٹ سپلا یروں کا الو سیدھا نہ ہو وہ ہماری نظروں میں فرقہ پرست پا رٹی ہے سچّائی تو یہی ہے ورنہ مسلما نوں کے تعلق سے فرقہ پرست اور سیکولر دونوں پارٹیوں کا ایک ہی ایجنڈہ ہے

فرقہ پرستی ہراتے ہراتے آج ہم فرقہ پرستی ہرانے کے نام پر اکیلے اور تنہا کھڑے ہیں

ہندوستان کی تمام قو میں اپنے سماج کی فلاح و بہبود اور ترقی کے نام پر ووٹ کرتی ہیں اور مسلمان نام نہاد سیکولر جماعتوں کے ایجنڈہ کے مطابق فرقہ پرستی ہرانے کے نام پر اپنا ووٹ مفت میں دیتا آیا ہے جس کا نتیجہ آپ کے سا منے ہے کہ ہر قومیں نیچے سے ترقی کرتی ہوئی اوپر کی جانب گا مزن ہیں اور مسلمان اوپر سے ترقی کرتے ہوئے نیچے کی جانب آ رہا ہے

آج ضرورت ہے کہ مسلمان اپنا محاسبہ کریں کہ آزادی کے بعد مسلمان سرکاری نوکریوں میں تیس فیصد سے بھی زیادہ تھا آج اسکا تناسب گھٹتے گھٹتے دو فیصد تک کیسے آ گیا ہے پچھلے 70 سالوں سے ہم نے سنگھ اور بھا جپا کو ہرا کر ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اسکا احتساب ہو نا چاہیے

اگر ہمارے مریض کو ہفتہ عشرہ میں شفاء نہیں ملتا ہے تو ہم ڈاکٹر اور ہسپتال بدل دیتے ہیں گزشتہ ستر سالوں سے جس سیکولر زم کے نام پر ووٹ دینے سے ہماری قوم کا کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوا تو کیا ہم اپنا ووٹ دینے کا معیار نہیں بدل سکتے ہیں

مسلمانوں کے جس ذہن ودماغ کو گمراہ کرنے کے لیے ممبر و محراب کا استعمال کیا گیا آج ضرورت ہے کہ اسی ممبر و محراب سے مسلمانوں کو اپنی قیادت اور حصہ داری کے نام پر ووٹ دینے کا ذہن بنا یا جائے

Comments are closed.