اُف ، یہ کیسی سفّاکی ! 

 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 

پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ایک انتہائی دل دوز اور بھیانک خبر آئی ہے _ اس پر یقین کرنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہے ، لیکن حقیقت کو تو ماننا ہی پڑے گا _ کیمرے کی آنکھ نے سب کچھ ریکارڈ کرلیا ہے ، پھر آنکھوں دیکھی کو کیوں کر جھٹلایا جاسکتا ہے؟! سیال کوٹ میں وزیرآباد روڈ پر اگوکی تھانے کے ایریا میں واقع ایک نجی فیکٹری راجکو انڈسٹری کے ورکرز نے فیکٹری کے غیر مسلم جنرل منیجر پریانٹا کمارا پر ، جس کا تعلق سری لنکا سے تھا ، تشدد کرکے قتل کردیا ، اس کے بعد اس کی نعش کو آگ لگا دی ۔ واقعے کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں ان میں ایک جلتی ہوئی لاش کے قریب ایک بڑے ہجوم کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے کیمروں سے ویڈیو گرافی کرتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں _

 

جب سے اس واقعہ کا علم ہوا ہے ، دماغ بالکل ماؤف ہے _ کیا انسان ایسی سفّاکی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں کہ اپنے ہی جیسے انسان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیں ، پھر اس کی نعش کو آگ کے حوالے کردیں؟! مزید حیرت اور انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے والے مسلمان ہیں ، اس نبی کے امتی جس نے ظلم و تشدّد کو حرام قرار دیا ہے ، جس نے کہا ہے کہ آگ کی سزا صرف آگ کو پیدا کرنے والا ہی دے سکتا ہے ، جس نے مہمان نوازی کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے اور اپنے ماننے والوں کو بھی اس کی تاکید کی ہے _ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے پیغمبر کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں ، پھر بھی فخر سے خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اُس پیغمبر کا اُمّتی سمجھتے ہیں؟

 

مقتول پر مختلف طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں _ کہا جارہا ہے کہ اس نے توہینِ مذہب کا ارتکاب کیا تھا _ کیسے مذہب کی توہین کی؟ اس سلسلے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے کتابِ مقدّس (قرآن مجید) کے اوراق کی توہین کی تھی _ بتایا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ فیکٹری کے اندر پیش آیا _ پھر وہاں کتابِِ مقدّس کہاں سے آگئی؟ اس پر کہا جارہا ہے کہ اس نے فیکٹری میں لگے کسی بینر کی بے حرمتی کی تھی ۔غرض الزام کے سلسلے میں مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں _ اگر انہیں تسلیم کرلیا جائے تو بھی کیا عام شہریوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہے؟ ہرگز نہیں _ یہ عمل انتہائی گھناؤنا ، بربریت اور سفّاکی پر مبنی اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے ۔ ملک میں توہینِ مذہب ، توہینِ رسالت اور توہینِ مقدّسات کے قوانین موجود ہیں _ اس کا ارتکاب کرنے والے کو قانون کی گرفت میں لایا جاسکتا تھا اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا تھا _ اس کے بجائے اس کے ساتھ اتنی بربریت کے مظاہرے کا کوئی جواز نہیں ہے _

 

یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ پاکستان کے دینی طبقات کھل کر اس واقعہ کی مذمّت کر رہے ہیں اور انتظامیہ نے بھی فوراً اس کا نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ پولیس افسروں کو اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دیا ہے _ اس معاملے میں سماج میں بھی بیداری لانے کی ضرورت ہے _ ملک کے کسی شہری کو کسی بھی صورت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور خود سے الزام عائد کرکے اور جرم متعین کرکے اپنی طرف سے اس کی سزا نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہے _

Comments are closed.