بابری مسجد سے شاہی عید گاہ مسجد متھرا تک

تحریر : منصور قاسمی، ریاض سعودی عرب

٦دسمبر یعنی مسلمانان ہند کے لئے یوم اذیت، یوم سیاہ اور یوم ماتم جب کہ غیر مسلموں کے لئے یوم مسرت ، یوم فتح اور یوم جشن ۔ ٦ دسمبر ١٩٩٢ ء سے پہلے بھی آتا تھا اور عام ایام کی طرح خاموشی سے گزر جاتا تھا، نہ کسی مسلمان کو خبر ہوتی تھی اور نہ کسی ہندو کو ؛تاہم ١٩٩٢ ء کے بعدسے اب جب بھی دسمبر کی ٦ تاریخ آتی ہے بابری مسجد ۔رام جنم بھومی کے تنازعہ سے لے کر بابری مسجد کے انہدام تک کے اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار منظر عام پر آ کرسردچنگاری کو بھڑکانے کی سعی کرتے ہیں ۔
بات ٢٢۔٢٣ دسمبر ١٩٤٩ء کی ایک تاریک رات کی ہے ،جب ایک شر پسند ابھے رام داس اور اس کے ہمنواؤں نے بابری مسجد کی دیوار پھاند کر رام جانکی اور لکشمی کی مورتیاں مسجد کے اندر رکھ کر افواہ اڑا دی کہ بھگوا ن رام پرکٹ (نمودار)ہو کر خود ہی اپنے جنم استھان پر براجمان ہو گئے ہیں، پھر کیا تھا؟ عدالت نے مسجد سیل کردی ، باہر پولیس کا پہرہ اوراندر نماز پر پابندی لگا دی ۔ ١٩٨٦ء میں ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو پوجا پاٹ کی اجازت مل گئی اور اس وقت کے سیکولر وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالا کھلوا دیا ، بابری مسجد کا تالا کھلنے اور پوجا کی اجازت ملنے کے بعدسخت گیر نظریات کے حامل ہندو تنظیموں نے ایک خطرناک تحریک چھیڑی ؛ جس کی رہنمائی لال کرشن اڈوانی ، اٹل بہاری واجپئی ،اشوک سنگھل،مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی ، کلیا ن سنگھ ، ونے کٹیار اور جیسے متشدد لوگ کررہے تھے ،لال کرشن اڈوانی نے رام مندر کی تعمیر اورر بابری مسجد کے انہدام کے لئے سومناتھ مندر سے رتھ یاترا نکالی تاکہ ہندوؤں کواکٹھا کرسکیں ؛ چنانچہ یہی رتھ یاترا ٦ دسمبر کو بابری مسجد گرانے کی محرک بنی ۔ اگر میں یہ کہوں کہ ہندو مسلم کے درمیان منافرت پھیلانے والا، ہندوتوا کے ایجنڈے کوشدت کے ساتھ آگے بڑھانے والا،قومی یکجہتی کو توڑنے والا اور بابری مسجد کو ڈھانے والااصل اڈوانی ہے تو میں غلط نہیں ہو سکتا؛ گرچہ اس جرم میں نرسمہا رراؤسرکار ، کلیان سنگھ سرکار پولیس اور انتظامیہ برابر کی شریک رہے ہیں۔ مسجد کی شہادت کے بعد اکثریتی طبقہ نے خوشیاں منائیں ، مٹھائیاں بانٹیں ، اور ٦ دسمبر کو ہر سال یوم فتح منانے کا اعلا ن کیا ، وہیں بے بس و بے کس مسلمانوں نے یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا۔
آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد اور دوسری شدت پسندجماعتوں کے حوصلے اس وقت مزید بلند ہو گئے، جب ٩ نومبر٢٠١٩ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے یہ کہتے ہوئے حتمی فیصلہ سنادیا کہ :مسجد کے اندر مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا ، مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی اور مسجد کو ڈھانے والے مجرم ہیں تاہم بابری مسجد کی زمین رام جنم بھومی نیاس کے حوالے کرنے کا حکم دیتا ہوں نیزمندر تعمیر کے لئے تین ماہ کے اندر ٹرسٹ تشکیل دی جائے ،،۔اس فیصلے سے انصاف پسند حیرت میں پڑ گئے ۔اب باری تھی بابری مسجد منہدم کرنے والے مجرمین کو سزا دینے کی ، ٨٥٠ سے زیادہ گواہان پیش ہوئے ،سینکڑوں دستاویزات ، تصویریں ، ویڈیو زاور آڈیو ز بطور ثبوت پیش کی گئیں ؛ مگر عدالت نے یہ کہتے ہوئے سارے نامزد اور نامعلوم مجرمین کو باعزت بری کردیا کہ یہ سارے ثبوت ناکافی ہیں ، جس کے بعد احاطہء عدالت جے شری رام کے نعرہ سے گونج اٹھا؛حالانکہ چند کور چشم کے علاوہ دنیا نے دیکھا مسجد کو شہید کرنے والے کون لوگ تھے؟کون تھا جو یہ کہہ رہا تھا ” ایک دھکا اور دو مسجد کو توڑ دو،،بھیڑ کو اکسا نے والے اور حوصلہ افزائی کرنے والے کون لوگ تھے ؟ مرلی منوہر جوشی کے کندھے پرچڑھ کر کون محترمہ خوشی سے جھوم رہی تھی ؟یہ فیصلہ مسلمانوں کے صبراور حیثیت پر آخری کیل تھی اور ہندوؤں کے لئے شاہی عید گاہ مسجد متھرا اور گیان واپی مسجد کاشی کی طرف بڑھنے کا واضح اشارہ ؛چنانچہ اس کے بعد ہی متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کو ہٹانے اور اس کی اراضی کو شری کرشن جنم اشٹمی کو دینے کی مانگ اٹھنے لگی اور اس کے لئے باضابطہ ٢٥ ستمبر ٢٠٢٠ کو عرضی دائر کر کے ١٩٦٨ کے عید گاہ شاہی مسجد ٹرسٹ اور کرشن جنم استھان سیواسنگھ کے تصفیہ کو رد کرنے،٣٧.١٣ ایکڑ اراضی جس پر مسجد اور عید گاہ بنی ہوئی ہے اس کو ہٹانے اور زمین کو شری کرشن جنم اشٹمی کو دینے کا مطالبہ کیا گیا ۔مارچ ٢٠٢١ کو بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے نے تاریخ کو توڑ مروڑ کر اور آئینی حقوق کی غلط تشریح کر کے ایک عرضی د ائر کی ،اس کے بعد رنجنا اگنی ہوتری نے مسجد سے متصل مندر میںنصب مورتی ”بھگوان کرشن ویراجمان،،کی جانب سے ایک پٹیشن داخل کردی ؛جس کو ذیلی عدالت نے خارج کردیا ؛لیکن اب اسی خارج شدہ پٹیشن کو ضلعی عدالت نے قابل سماعت مان کر قبول کر لیا ہے اور اس سلسلے میں مسجد کمیٹی اور یوپی سنی وقف بورڈ سمیت فریقین کو نوٹس جاری کردیا ہے ؛حالاں کہ تاریخ کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ پلیسز آف شپ ایکٹ مجریہ ١٩٩١ میں واضح لکھا ہے” بابری مسجد کے علاوہ ١٥ اگست ١٩٤٧ میں جس فرقہ سے جو عبادت گاہ وابستہ ہے وہ آج اور مستقبل میں اس کی حیثیت وہی برقرار رہے گی اس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کیاجا ئے گا، ، اس کے باوجود فاضل جج کا اس پٹیشن کو قبول کر نا اورنوٹس جاری کرنا بتاتا ہے کہ صرف سنگھ پریوار ہی نہیں بلکہ کچھ قانون کے رکھوالے بھی انصاف کے مندر میں بیٹھ کر مندر مسجد کا کھیل جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔
آپ کو یاد ہوگا جس وقت رام مندر بنانے کی خطرناک تحریک شروع ہوئی تھی اس وقت وشو ہند پریشد تین ہزار مسجدوں کی فہرست ہاتھوں میںلے کر گھوم رہی تھی جنہیں حاصل کرنا اس کا مقصد عظیم تھا ، بقول وشو ہندو پریشد یہ مسجدیں مندر توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ان تین ہزار مساجد میں تین تاریخی مساجد بابری مسجد شاہی، عیدگاہ مسجد متھرا اور گیان واپی مسجد وارانسی بھی شامل تھیں ، اس کا نعرہ تھا ” ایودھیا جھانکی ہے کاشی متھرا باقی ہے ، ایودھیا تو حاصل کرلیا ہے وہاں شاندار رام مندر بھی تعمیر ہو رہا ہے اب متھرا اور کاشی پر چڑھائی کی تیاری مکمل ہو چکی ہے (اللہ حفاظت فرمائے)ورنہ بی جے پی کے راجیہ سبھا ممبر ہرناتھ سنگھ دھمکی آمیز لہجہ میںیہ نہیں کہتا : مسلمان کاشی وشو ناتھ ااور متھرا میں موجود شری کرشن جنم بھومی ہندوؤں کو سونپ دیں !بھگوا ن شری کرشن ہی طے کریں گے کب را م جنم بھومی کی طرز پر کرشنا جنم بھومی کی تحریک کھڑی ہوگی یا قانون کے ذریعے خوبصورت کرشنا مندر بنانے کا راستہ ہموار ہوگا ،،۔
اب جبکہ پھر ٦ دسمبر آ گیا ہے اور آئندہ چند ماہ میں اتر پردیش میں الیکشن بھی ہے تو بی جے پی اور انتہاپسند فائدہ نہ اٹھائے یہ ممکن ہی نہیں ؛ چنانچہ اترپردیش کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ نے یہ ٹویٹ کر کے ”ایودھیا اور کاشی میں شاندار مندر کی تعمیر جاری ہے متھرا کی تیاری ہے،،بی جے پی کا منصوبہ بتا دیا، مطلب یکے بعد دیگرے ان تین ہزار مساجد پر دعوے کرتے جائیں گے، غصب کرتے جائیں گے اورہر ٦ دسمبر کومسلمانوں کو ڈراتے رہیں گے ، انہیں شکست خوردگی کا احساس دلاتے رہیںگے، یہی آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایجنڈا ہے ۔
اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا نے تو ٦ دسمبر کوشاہی عید گاہ کو گنگا جل سے پوتر کرنے اورمسجد کے اندر بھگوان شری کرشن کا مجسمہ رکھنے کی د رخواست دی جس کو مسترد کردیا گیا۔ اس کے بعد’ ناراینی سینا”نے بھی مسجد کو وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ٦دسمبر کوایک مارچ کا اعلان کردیا ؛حالاں کہ متھراکے ایس ایس پی گرو گروور نے کہا ہے کہ :ہم نے سیکوریٹی انتظامات سخت کر دئیے ہیں اور ضلع میں دفعہ ١٤٤ نافذ کردی گئی ہے ،جو لوگ افواہ پھیلاتے ہوئے یا شہر کے امن و امان کو بگاڑنے کوشش کرتے ہوئے پائے جائیں گے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔،،
یاد کیجئے بابری مسجد کوکوئی نقصان نہ پہنچنے کا بھروسہ دلانے والے کو ن غدار تھے اور ہزاروں فوج کی موجودگی میں کس نے مسجد گرائی تھی ؟ امن و امان کس نے بگاڑا تھا؟ ان ن خلاف کیا کارروایاں ہوئیں ؟ عدالت کا فیصلہ کیا ہونا چاہئے تھا اور کیا ہوا ؟اب شاہی عید گاہ مسجد متھرا کے ساتھ شرپسند عناصر وہی کرنا چاہ رہے ہیں جو بابری مسجد کے ساتھ کیا تھا ۔مولا انہیں ناکام بنائے۔آمین
[email protected]

Comments are closed.