دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں !

 

احساس نایاب ( شیموگہ،کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن

سوائی پالیہ قبرستان کے تحفظ کے لئے دن رات جدوجہد جاری ہے
غلط فہمیاں نہ پھیلائیں "کمیٹی کی اپیل ” ۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ دنوں شہر کے اردو اخبار میں سوائی پالیہ کمیٹی کی جانب سے یہ اپیل شائع ہوئی تھی ، اس کے علاوہ چند لیڈر نما لوگوں نے بھی اپنی اپنی جانب سے اسٹیٹمنٹس جاری کئے جس میں اہلیان شہر کو صبر اور حکمت سے کام لینے کی نصیحت کی گئی تھی ۔
آج کہاں سو گئے ہیں وہ تمام مفکران قوم ، رہنمائے ملت ؟
آخر کس بل میں گھسے پڑے ہیں جو لوگوں کو جذباتی اور جوشیلے ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے قوم کے نوجوانوں کو بزدل بنارہے ہیں ؟
آخر کہاں مرگئی ان کی حکمت عملی، کہاں بیچ دیا انہونے اپنا ضمیر ؟
آخر کتنے سکّوں میں کیا ہے اسلاف کی قبروں کا سودا ؟
آج کیوں ان کی زبانوں کو لقوا مار دیا ہے، جو کل تک قوم کے نوجوانوں پہ مشتعل ہونے ، شہر میں افواہوں کے ذریعہ بدامنی پھیلانے کا الزام لگارہے تھے
آج یہ کیوں سامنے نہیں آتے ؟
آج یہ کیوں اپنی حکمت ، اپنی کوشش اور جدوجہد نہیں دکھاتے ؟
یا بند کمروں میں بیٹھ کر قوم کی دلالی کرکے تھک گئے ؟
میٹنگس کے نام پر وقف کی جائیدادون کا سودا کرنے والے آج کیوں کوئی اخباری اسٹیٹمنٹ جاری نہیں کررہے ؟
جبکہ آج تمام فرقہ پرست طاقتیں چاک و چوبند ہوچکی ہیں، ہمارے اسلاف کی نشانیاں، اُن کے مقبروں کو ڈھانے کی مکمل تیاری ہوچکی ہے ۔۔۔۔۔ خبرون کے مطابق سوائی پالیہ کے 400 سالہ قدیم قبرستان میں پولس نے آج صبح بیریگیٹس لگادئے ہیں اور کل سرکاری چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے اُس قبرستان پہ قبضہ جمانے کی سازش کی جارہی ہے جہان ہمارے اسلاف مدفن ہیں ، اُن کی پاکیزہ روحیں سوئی ہیں اور ہمارے آباو اجداد کی یادین وہاں جُڑی ہیں، جو عنقریب ہم سے چھین کر ہماری ہی نظرون کے آگے اُن کی بےحرمتی کی کوشش کی جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔
ایسے میں اس کو روکنے مسلمانوں کو چوکس کرنے کے لئے آج کیوں کوئی اخباری بیانیہ جاری نہیں کرتا ؟
ایک ایک کر ہماری مساجد چھینی جارہی ہیں، ہمارے بزرگوں کے سینوں پہ بولڈوزر چلائے جارہے ہیں اور ہم کر کیا رہے ہیں ؟
اس قدر بزدلی ،نامردانگی کس لئے ؟
اگر خود سے کچھ کر نہیں سکتے تو اپنی زبانوں پہ تالے لگا کر گوشہ نشین ہوجائیں اور جو نوجوان کچھ کرنے کا جذبہ ، ہمت ، دم خم رکھتے ہیں انہیں آواز اٹھانے دیں انہیں اپنا کام کرنے دیں ۔۔۔۔۔۔۔
پہلے کروڑوں کی قیمت کا بی ہیچ روڈ کا قبرستان جو کہ قوم کا کُل سرمایہ تھا اُس کو بیچ دیا گیا ۔۔۔۔۔
اور اب سوائی پالیہ کے قبرستان پہ سیاست ، منافقت کی جارہی ہے ۔۔۔۔۔
یاد رہے جو قوم کا سودا کرتے ہیں ، جو اللہ کے گھروں ، بزرگوں کی قبروں کا سودا کرتے ہیں اُن کی نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں ۔۔۔۔۔
کاش قبرستان کے معاملے پر کل تک سوشیل میڈیا سے لے کر زمینی سطح پر جو احتجاجات کرتے ہوئے آوازین اٹھائی جارہی تھیں ، نوجوانوں مین جو جوش جو جذبہ تھا اُس کو اخبار کے ذریعہ دبایا نہ جاتا۔
کاش نوجوانوں کی باتوں کو افواہ کہہ کر انہیں اپنے مطالبات سے روکا نہ جاتا تو آج یہ دن ہرگز نہ دیکھنا پڑتا ۔۔۔۔۔۔
اخبار اور قلم قوموں کو بیدار کرنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ سرد چھینٹے مار کر نوجوانوں کے حوصلوں کو دبانے ، انہیں بزدل بنانے اور ایک دوسرے کو آپس میں لڑوانے کے لئے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔
بہرحال ابھی بھی وقت ہے سدھر جائیں ، متحد ہوجائیں اور اپنے حق کے لئے آئینی دائرے میں سڑکوں پر آئیں احتجاجات درج کرائیں ورنہ عنقریب سب کچھ چھین لیا جائے گا آور وہ وقت دور نہیں جب بہادر شاہ ظفر کے اس شعر کی طرح دو گز زمین تک میسر نہ ہوگی ۔۔۔۔
کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں ۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.