سیالکوٹ کا واقعہ اور کئی سوال

اتواریہ؍ شکیل رشد
پاکستان کے سیالکوٹ میں جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیئے تھا۔۔۔
مذہب اسلام کوئی ایسا مذہب نہیں ہے کہ کسی کی طرف سے اس کی ’ توہین‘ کی جسارت اُسے کمزور کردے یا اس کے پیروں تلے سے زمین کھسکا دے ! اور پھر ’ توہین مذہب‘ کا ایک ایسا الزام جو ثابت تک نہیں کیا جاسکا ہے ۔۔۔ اطلاعات کے مطابق سری لنکا کے ایک شہری پریانتھا دیا وادانا کو ’توہین مذہب‘ کے الزام میں پہلے تو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جب اس کی موت ہوگئی تو اس کی لاش سڑک پر پھینک کر جلادی گئی۔۔۔ الزام تھا کہ اس نے ایک ایسے بینر یا اسٹیکر کی ، جس پر رحمۃ اللعالمین حضرت محمدﷺ کا پاک نام تحریر تھا، بے حرمتی کی ہے ۔۔۔ لیکن اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے ۔۔۔ پریانتھا دیاوادانا سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں ایکسپورٹ منیجر تھا اور اس پر تشدد کرنے اور اسے جلانے والے اسی فیکٹری کے ملازم تھے ۔۔۔ اس واقعے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہجومی تشدد کا شکار جوبنا اسے نہ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ، نہ اس پر لگے الزام کی تصدیق کی گئی او رنہ ہی اسے سزا دلانے کے لئے قانون کا سہارا لیا گیا ۔ ہجوم خود ہی عدالت بن گیا اور خود ہی اسے سزا دے دی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس طرح سے کسی کو سزا دینے کی اجازت دیتا ہے ؟ بلا شبہ نہیں ۔ یہ قرآن وسنّت کی تعلیمات کے خلاف عمل ہے۔ اگر کوئی توہین مذہب کا ملزم ہے تو اسے بھی عدالت اور قانون کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور عدالت سے جو فیصلہ ہوتا ہے وہی قابلِ قبول ہوتا ہے ۔۔۔ پاکستان تو ’اسلامی ملک‘ کہلاتا ہے ، وہاں کی عدالتوں میں توہین مذہب سے متعلق مقدمے چلتے ہیں اور عدالت سے فیصلے سنائے جاتے ہیں ۔ اس معاملے میں بھی لوگوں کو عدالت پر بھروسہ کرنا چاہیئے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا ، لوگوں نے انتہائی سفاکی کے ساتھ قانون کواپنے ہاتھ میں لیا اور سری لنکن شہری کو قتل کرکے اس کی لاش جلادی ۔ اس واقعے کا دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ لوگ جلتی لاش کے ساتھ سیلفی لے رہے تھے اور ویڈیو بنارہے تھے ۔ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ مذہب کے نام پر انسان کیوں دن بدن سفاک بنتا چلا جارہا ہے ؟ ہجوم کیوں تشدد پر آسانی سے آمادہ ہوجاتا ہے ؟ کیوں کسی کے اکسانے پر کسی کے بس کہہ دینے پر بغیر کسی تحقیق کے لوگ یہ قبول کرلیتے ہیں کہ توہین مذہب کا ارتکاب ہوا ہے ؟ کیا لوگوں کو متشدد بننانے میں مذاہب اور علماء ودھرم گروؤں کا ہاتھ ہے ؟ جوسیالکوٹ میں ہوا کیا وہ گئوماتا کے نام پر مآب لنچنگ جیسا نہیں ہے ،پھر مآب لنچنگ پر شوروغل کیوں؟ کیا صرف متعصب سیاست دان ہی مجرم ہیں؟ کیا وہ سیاست داں جو خود کو سیکولر کہلاتے ہیں، اس طرح کے واقعات میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا؟ یہ بڑے ہی اہم سوالات ہیں ، ان پر غور لازمی ہے ، اور غو رکے بعد ،ہجوم جو ذرا ذرا سی بات پر جو تشدد پر آمادہ ہوتا ہے ، اس کے سدباب کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے ۔۔۔ مذہب امن وچین اور پیارومحبت کا درس دیتا ہے تشدد کا نہیں ۔۔۔کیوں لوگ محبت کی بجائے تشدد کی طرف بھاگ رہے ہیں ؟؟ سیالکوٹ جیسے واقعات اسلام ، مسلمانوں اور اسلامی شریعت پر انگلیاں اٹھانے کا بہانہ بن جاتے ہیں ۔ خدارا مذہب کی روح کو سمجھیں اور مذہب کے نام پر تشدد سے باز آجائیں ۔
Comments are closed.