Baseerat Online News Portal

اپنی فکرکرو ۔اپنی زندگی خود سنوارنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔

 

احمد نادرالقاسمی۔جوگاباٸی ۔جامعہ نگر دہلی۔

ہرانسان کو اللہ تعالی نے پہلے اپنی ذات کی اصلاح ۔اوراپنی فکرکرنےکامطالبہ کیاہے ۔قران کریم میں رب کریم کا ارشادہے ”یاایھاالذین آمنوا علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذااھتدیتم الی اللہ مرجعکم جمیعا فینبٸکم بماکنتم تعملون“(سورہ ماٸدہ 105)(اے ایمان والو اپنی فکرکرو جولوگ گمراہ ہیں ان سے تمہاراکوٸی نقصان نہیں ۔اللہ ہی کی طرف تم سب کولوٹ کرجاناہے ۔پھروہ تم سب کو بتلادےگا جوکچھ تم کرتے تھے)۔

اس آیت کی روشنی میں دوباتیں قابل غور ہیں ۔ایک یہ اگر صرف اپنی ذات ہی تک اصلاح وتربیت اورنصیحت و خیرخواہی کو محدودرکھاجاۓ تو پھر ۔امربالمعروف اورنھی عن المنکر کاکیامطلب ہے ؟۔

دوسرے یہ کہ اپنی فکر کرنے کے ساتھ یہ بھی کہاگیاہے کہ گویا اگر دوسرے کی اصلاح کی فکرنہ کی تو دوسرے کا گمراہ ہونا تم کونقصان سے دوچار نہیں کرےگا ۔

جہاں تک پہلی بات کاتعلق ہے تو یقینا پہلے انسان کو اپنی فکر کرنا اولین ترجیح ہے ۔اسی لٸے سورہ تحریم آیت نمبر ٦۔میں ۔کہاگیاہے ۔(اے ایمان والو اپنے آپ کو اوراپنے اہل وعیال کو (ایمان اورصلاح وتربیت کے ذریعہ) اس جہنم کی آگ سے بچاو جس کاایندھن خود انسان اور پتھرہوں گے)اس میں بھی پہلے اپنی ذات کی فکر کرنے کی بات کہی گٸی ہے پھر دوسروں کی ۔اورجہاں تک دوسری بات کاتعلق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے پہلے اپنی اصلاح اوراپنی فکر کرلی ۔اوردوسروں کے اصلاح کی بھی کوشش کرلی ۔اب اگر دوسرے لوگ یا گھروالے آپ کی کوشش کے باوجود راہ راست پر نہیں آٸے تو ان کا ہدایت اختیار نہ کرنا آپ کو کوٸی نقصان نہیں پہونچاۓ گا ۔یہی وجہ ہے کہ جب جان نشین رسول خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض۔کے زمانے میں کچھ لوگوں کے دل میں یہ شبہ پیداہوا کہ ہمیں بہت زیادہ لوگوں کی فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔بس اپنی اصلاح اوراپنے کام سے کام رکھاجاۓ ۔یہی کافی ہے ۔امربالمعروف ضروری نہیں ہے ۔جب حضرت ابوبکر کو پتہ چلاکہ لوگ اس طرح کی بات سوچ رہے ہیں ۔تو حضرت ابوبکرنے فرمایا ۔لوگو تم لوگ آیت قرانی کو غلط جگہ استعمال کررہےہو ۔میں نے نبیﷺ سے سناہے ”جب لوگ برٸی ہوتے ہوۓ دیکھیں اوراسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالی اپنے عذاب کی گرفت میں لےلے “(ترمذی حدیث نمبر٢١٧٨۔ابوداود حدیث نمبر٤٣٣٨)۔

آج دنیا میں اتنی اصلاح وتربیت کی کوششیں ہورہی ہیں ۔اس کے باوجود براٸیاں پھیلتی اورعام ہوتی جارہی ہیں ۔اورلوگوں کی اصلاح نہیں ہورہی ہے ۔آخر اس کی وجہ کیاہے ؟ جہاں تک اس کمی کی وجہ میں سمجھ پایاہوں وہ یہ ہے کہ ہم میں کاہر انسان خواہ مرد ہویاعورت اپنی ذات کی اصلاح پر توجہ کم دیتاہے ۔اپنے اندرکی براٸی اورخباثت کو دور کرنے کی فکر کم کرتاہے اورصرف دوسروں کی اصلاح کی فکر میں زیادہ رہتاہے ۔اپنی کوتاہیوں کے بارے میں سوچتا اور احتساب نہیں کرتا ۔اورصرف دوسروں کی براٸیوں پر تنقید اورتبصرے خوب کرتاہے ۔جس کا تیجہ یہ ہوتاہے کہ نہ اپنی اصلاح ہوپاتی ہے اور نہ دوسروں کی ۔۔بات جب بنے گی ۔جب پہلے اپنی اصلاح ہوجاۓ ۔اورپھر نیک جذبہ سے دوسروں کی اصلاح کی فکر کیجاۓ

ہماری ذات احتساب کی متقاضی ہے ۔ہمارا نفس اصلاح کا محتاج ہے ۔ہمارے گھر کے لوگ بےمقصد زندگی جی رہے ہیں ۔ان کی اصلاح وتربیت کا ہمارے پاس کوٸی میکانزم نہیں ہے ۔ہم صرف ایک مشین کی طرح اسباب زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہیں بس۔۔انسانی معاشرے کوحقیقی راہ پر لانے کی کوٸی حکمت عملی نہیں ہے۔ بچوں کی تربیت کا کوٸی مستحکم نظام ہم نے ڈویلپ نہیں کیا۔ان کو خیروصلاح میں مصروف رکھنے کاہمارے پاس کوٸی سامان نہیں ہے ۔خواتین کی گودجوہمارے بچوں کاپہلا مدرسہ ہے ۔انکی اصلاح اوران کی فکری تربیت کابھی کوٸی طریقہ اورنظام مسلمانوں میں نہیں ہے ۔ہماری مسلم بچیاں حالات سے متاثر ہوکرایمان سے ہاتھ دھوکر غیرمسلموں سے شادیاں کررہی ہیں ۔اورارتداد کاراستہ اختیار کررہی ہیں اس کی فکرکرنے والا کوٸی نہیں ۔اب تو ہمارے مدرسے بھی بند ہیں ۔اورہماری مساجد بھی دینی تربیت سے خالی ہیں ۔اوراس پر ستم ظریفی گروہی اورمسلکی فتوےبازی۔ الامان الحفیظ ۔

درست فرمایا شاعر مشرق نے۔

”قوت فکر وعمل پہلے فناہوتی ہے ۔

پھرکسی قوم کی شوکت کوزوال آتاہے۔“

۔اللہ تعالی ہماری اصلاح فرماۓ ۔

Comments are closed.