دین اسلام کے تئیں لبرلزم سیکولرازم کی منافقانہ روش۔ تبلیغی جماعت پر پابندی !

تحریر: مسعود جاوید
ترکی نے جب سیکولر یورپ کا حصہ بننے کی کوشش کی تھی تو سب سے پہلا حملہ اسلامی شعائر اور عربی زبان پر کیا تھا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔ برسہا برس تک یورپ کو خوش کرنے کے لئے اسلام پسندوں کو زک پہنچانے کے باوجود یوروپین یونین کی فل ممبرشپ سے محروم ہے۔ کئ ایک تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ترکی کی اسلامی شناخت ہے اور حکومت اور فوج کے ہاتھوں جبر اور آہنی پنجوں کا استعمال کے باوجود ترکی کے مسلمانوں کی دین سے وابستگی ہے۔
مسلمان مذہبی شعائر کا مکمل پابندی کرنے والا ہو آدھی ادھوری پابندی کرتا ہو نماز روزے کا پابند ہو یا بے نمازی الٹرا سیکولر اور لبرل ہو غیروں کی نظر اس کا مذہب اور اس کا مسلم نام غیروں سے مختلف ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔
سیکولرازم کے مفہوم کو بعض اوقات مسلم شعائر پر جتنی سختی سے عمل کرانے کی بات کی جاتی ہے دیگر مذاہب کے شعائر پر نہیں کی جاتی ۔ سیکولرازم اور لبرلزم کا مفہوم یہی ہے کہ ہر فرد اپنی مرضی کے مذہب، عقیدہ، نظریات اور افکار پر عمل پیرا ہونے کے لئے آزاد ہے اسی طرح جو کسی مذہب کی اتباع نہیں کرنا چاہے تو اس کی آزادی بھی اسے ہوتی ہے۔
اسی طرح ہر شخص اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنے کے لئے آزاد ہے۔ بشرطیکہ وہ تشدد ، دہشتگردی، ملک و قوم مخالف سرگرمیوں کو فروغ دینے والا نہیں ہو۔
تبلیغی جماعت کی بنیاد 1926 میں ہندوستان میں رکھی گئی ایک چھوٹے سے قصبے سے شروع ہو کر شہروں تک پھیلی اور رفتہ رفتہ دائرہ وسیع ہوتا گیا اس طرح پورے ملک اور بیرون ملک اس پلیٹ فارم سے محدود نوعیت کی کی دعوت دین کا کام ہو رہا ہے۔
اس جماعت کے بارے میں عام گفتگو میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ جماعت چھ باتوں تک محدود ہے۔ یہ زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کی بات کرتی ہے۔
ہندوستان جیسے ملک میں ، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، یہاں کی مختلف ایجنسیوں کا تاثر یہی ہے کہ یہ جماعت ہر اعتبار سے ایک بے ضرر تنظیم ہے جس کے پاس نہ کوئی بجٹ ہے اور نہ فنڈ۔ یہاں ہر شخص اپنا وقت دیتا ہے ہفتہ میں ایک روز، مہینے میں تین دن اور سال میں چالیس دن (چلہ) اس سفر کا اپنا خرچ خود اٹھاتا ہے اور گاؤں گاؤں شہر شہر پھر کر دین کی بنیادی باتیں سیکھتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔
حکومت ہند کی نظر میں یہ تنظیم بے ضرر اس لئے بھی ہے کہ یہ چھ نکات سے اس شدت سے چمٹی ہوئی ہے کہ ان کے لوگ سیاست سے دور رہتے ہیں بالخصوص جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابی سیاست ہو یا ملکی سیاست کبھی کسی موضوع پر گفتگو نہیں کی جاتی ہے ۔ اخوان المسلمین، حماس اور دیگر اسلامی تحریکوں سے عموماً یہ واقف نہیں ہوتے اور نہ ان کے بارے میں راۓ زنی کرتے ہیں۔ اس جماعت پر الزام ہے کہ یہ دنیا اور دنیاوی امور سے متنفر کراتی ہے اور کسی حد تک رہبانیت گوشہ نشینی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ان سے وابستہ افراد کی کوئی امنگ نہیں ہوتی ہے۔
ایسی بے ضرر جماعت پر مملکت توحید میں پابندی لگانے کی خبر پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ ان دنوں متعدد عرب ممالک میں مختلف اقسام کی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ سیکولرازم اور لبرلزم کی لہر چل رہی ہے۔ حکمران لبرل سوسائٹی بنانے میں منہمک ہیں۔ فرد کی آزادی کی برتری کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسے کنسرٹ اور تفریحی ایونٹ بھی منعقد ہو رہے ہیں جن کا دس سال قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔۔۔ بہر حال یہ ان کا ملک ہے اور وہ اپنے ملک میں اپنے شہریوں کے لیے جو نظام چاہیں مرتب کریں ہمارے لئے تو حرمین شریفین مقدس ہیں پوری مملکت نہیں۔
لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ لبرلزم اور سیکولرازم کے مفہوم کو کوئی حکومت اتنا تنگ کیسے کر سکتی ہے کہ اپنے مسلک کو فروغ دینے کے لئے دوسرے مسلک پر پابندی لگاۓ۔ لبرلزم کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر مسلک والوں کو اپنے اپنے اپنے مسلک کی تبلیغ کرنے کی مکمل آزادی ہو۔ دوسری بات یہ کہ کن افکار و نظریات اور اعمال کی بنا پر اس جماعت کو فرقہ ضالہ گمراہ گروہ قرار دیا جا رہا ہے! عقیدہ کے اعتبار سے اس جماعت والوں کا کلمہ توحید و شہادت کا دل سے مکمل اعتراف اور زبان سے اقرار، قرآن و احادیث پر ایمان و عمل اور شرک اور شبہ شرک اور بدعات سے پاک ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس جماعت کا ماخذ مرجع اور منبع دارالعلوم دیوبند ہے۔
گرچہ گزشتہ کئی برسوں سے اس کے امیر نے اپنی انفرادیت ثابت کرنے کے لئے بعض غیر معقول خیالات کا اظہار کرکے اس جماعت کو موضوع بحث بنا دیا ہے مگر پھر بھی اس کی حیثیت دارالعلوم دیوبند کی ایک شاخ کی تھی ہے اور رہے گی۔
Comments are closed.