کہانی: رشوت

از: سویرا عارف مغل گجرات
اسد کے خاندان والے اسے بچپن سے ہی پڑھا لکھا کر کچھ بڑا بنانا چاہتے تھے، ایک دن اس کا سائنس کے ایک سبجیکٹ فزکس کا پریکٹیکل تھا، اسد کمرۂ امتحان میں بہت پریشان داخل ہوا، کیونکہ اس کے سینئیرز نے اسے پہلے ہی بتادیا تھا کہ پریکٹیکل میں نمبر سفارش کی بنیاد پر ہی حاصل کیے جاتے ہیں جس کی موٹی تگڑی سفارش ہوگی وہی پاس ہوسکے گا اسد چونکہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا مگر اسے اپنے غریب ہونے پر بھی فخر تھا، اسے نقل کروانے نہیں آتی تھی اور نا ہی کرنے آتی تھی اسد نے جیسے ہی پریکٹیکل کا لکھنے والا حصہ شروع کیا تو دیکھتا ہے کہ امیر امیر لوگ بڑے عہدے دار شاندار ملبوسات میں بڑی بڑی رقمیں اور چیک سے لبریز سفارشات اور کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہوئے آرہے ہیں جوکہ بڑی بڑی گاڑیوں سے اترتے ہیں اور نمبر لگواتے ہیں اپنے لین لاڈ بچوں کے اور چلتے بنتے ہیں اسد اپنی آنکھوں کو جھپکنے سے بھی غافل ہوجاتا ہے اور بہت ندامت بھری نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتا ہے کہ میری بھی کوئی سفارش ہوتی کہ اچانک اس کے دل سے ایک آواز آتی ہے جوکہ اس کے والد کی ہوتی ہے اس کا ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے وہیں اس پر یہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ جیسے اسے کوئی کہہ رہا ہو یہ غلط ہورہا ہے اس نظام کو ختم کرنا ہوگا یہ درست نہیں ہے تیری ایمانداری اور تیری محنت کی بدولت اللہ خود تیرا سبب لگائے گا اگر تو اس قابل ہوا تو اسی دوران وہاں کا استاد اسد کو وائیوے کے لیے بلاتا ہے یہ وہ امتحان ہوتا ہے جس میں طالب علم سے چند سوالات کیے جاتے ہیں جس کی بنیاد پر اسے نمبر دئیے جاتے ہیں، جیسے ہی استاد صاحب اسد سے سوال کرتے ہیں اسد ان سوالات کا ساتھ ساتھ جواب دیتا ہے مگر اس سے سوالات بھی باقی بچوں کی بہ نسبت زیادہ مشکل کیے جاتے ہیں کیونکہ اس کی کوئی سفارش نہیں ہوتی وہیں باقی بچوں سے سوالات بھی نہیں کیے جاتے وائیوا میں اور ان کے فل فل نمبر بھی لگ جاتے ہیں، کمرہ امتحان سے فارغ ہوکر اسد ایک بہت بڑے میدان میں جاکر بیٹھ جاتا ہے جوکہ اسی کالج کے درمیان میں واقع ہوتا ہے اسد آسمان کو تکتا ہے تھوڑی دیر ہی ابھی ہوتی ہے کہ کالج کے گارڈ صاحب آجاتے ہیں اس کے پاس اور اسے کہتے ہیں بیٹا آپ نے گھر نہیں جانا؟ اسد خاموش ہوجاتا ہے، گارڈ صاحب اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اسے انگلی کے اشارے سے آسمان کی جانب ہی تکنے کو کہتے ہیں، اسد گارڈ صاحب کو کہتا ہے کہ میرے مارکس اچھے نہیں آئیں گے باقی سب کی بہت تگڑی سفارشیں تھیں میں اپنے والد صاحب کو اور اپنے گھر والوں کو کیا منہ دکھاوں گا ؟ ان کو مجھ سے بہت امیدیں ہیں اگر میں نے اچھے مارکس نا لیے تو مجھے کسی اچھے کالج میں داخلہ نہیں ملے گا اس سے میرا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، گارڈ صاحب مسکراتے ہوئے کہتے ہیں آپ کے بڑا آدمی ہونے میں تو کوئی شک نہیں جناب، چند ماہ بعد اسد کا رزلٹ آتا ہے تو اس کا دل اس وقت زور زور سے دھڑک رہا ہوتا ہے کہ کیا بنے گا؟ صبح دس بجے اس کی پھپھو کا فون آتا ہے کہ میٹرک کا رزلٹ آگیا ہے اسد کا رول نمبر بتائیں ہم چیک کروالیں اسد کہتا ہے نہیں میں خود دکان پر جاکر پتا کروا لوں گا چنانچہ وہ ایسا ہی کرتا ہے جیسے ہی دکان پر داخل ہوتا ہے تو دکاندار اسے رش کی وجہ سے تھوڑا انتظار کرنے کا کہتا ہے اسد ادھر ہی لائن میں کھڑا ہوجاتا ہے ادھر ہی اس کے کچھ دوست بھی اسے مل جاتے ہیں اور اسے اپنے اپنے نمبروں کا بتاتے ہیں، اسد سن رہا ہوتا ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے ہاتھ میں تھامی ہوئی اپنی رول نمبر کی پرچی کو تکتا ہے اس اثنا میں اس کا نمبر آتا ہے وہ بہت پرجوش ہوکر اپنا رول نمبر دکاندار کو بتاتا ہے دکاندار اسے بتاتا ہے کہ تمہارا اے گریڈ ہے اور 813 مارکس ہیں ۔
اسد اور اس کے دوست بہت خوش ہوتے ہیں دکان میں موجود باقی لوگ تالیاں بجانے لگتے ہیں اسد گھر آکر اماں ابا کو بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے خود پر فخر ہے کہ بغیر کسی سفارش کہ میں کامیاب ہوگیا الحمداللہ رب العالمین پھر فرسٹ ائیر کے داخلے شروع ہوجاتے ہیں
اسد پھر سائنس رکھتا ہے اور پھر اس کے پریکٹیکل ہوتے ہیں پھر وہاں وہی سفارشیں چلتی ہیں اسد پھر کامیاب ہوجاتا ہے بغیر کسی سفارش کے اسی طرح اسد اپنی پڑھائی کرتا رہتا ہے اس کے والد خراب حالات کے باوجود اپنے بچے کو پڑھاتے رہتے ہیں اور اس کی تعلیم نہیں چھڑواتے ایک دن وہ اپنی سی وی لے کر آفس میں جاتا ہے تو اسے اس کا ایک دوست ایک بینک کا حوالہ دیتا ہے کہ تم وہاں اپلائی کرو اسد بینک میں اپنے سارے ڈاکومنٹس لے کر جاتا ہے اور اسے دو دن بعد انٹرویو دینے کے لیے بلایا جاتا ہے، اسد تھوڑا بہت کتابوں سے پڑھتا ہے تھوڑی انٹرنیٹ سے تیاری کرتا ہے اور اپنا انٹرویو دینے جاتا ہے اس سے کئی سوالات کیے جاتے ہیں جن کا وہ ایک ایک کرکے جواب دیتا ہے جیسے ہی انٹرویو ختم ہوتا ہے بینک کا مینیجر اسے وہاں پچیس ہزار رکھوانے کا کہتا ہے اسد مسکرانے لگتا ہے اور کہتا ہے اگر میں نے اتنے پیسے یہاں آپ کو جمع کروانے ہوتے تو میں جاب کس لیے کرتا مینیجر بھی مسکرانے لگتا ہے اور کہتا ہے بات کچھ ایسی ہے کہ یہاں سفارش کی بنیاد پر جاب ملتی ہے آپ کے پیچھے کس کی سفارش ہے؟ اسد اپنی فائل اٹھاتا اور کھڑا ہوجاتا ہے مینیجر کہتا ہے آپ کو تو ویسے بھی ہم نے نہیں رکھنا تھا آپ میں ہے ہی بہت اٹیٹوڈ اسد کہتا ہے تھینکیو سر اور چلا جاتا ہے وہاں سے ادھر ایک قریبی پارک میں جاکر بیٹھ جاتا ہے اور آسمان کو دیکھتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ جب میں میٹرک میں تھا تو رشوت کی وجہ سے تب بھی ہمت ہار بیٹھا تھا تب وہ گارڈ صاحب نے مجھے ہمت دی تھی مجھے آج بھی انہی کے پاس جانا چاہیئے اسی وقت بائیک سٹارٹ کرتا ہے اور اسی کالج میں جاتا ہے وہاں کوئی نئے گارڈ صاحب ہوتے ہیں اسد ان سے پرانے گارڈ صاحب کا پوچھتا ہے اور سارا واقعہ انہی بوڑھے گارڈ صاحب کو بتاتا ہے وہ گارڈ صاحب مسکراتے ہیں اور انہی گارڈ صاحب کی طرح انگلی کا اشارہ آسمان کی جانب کرتے ہیں اسد کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اسد ان کو گلے لگاتا ہے اور ایک اور جاب کے لیے کچھ ہی دنوں بعد اپلائی کرتا ہے جو کہ ایک برانچ مینیجر کی ہوتی ہے ابھی دو مہینے ہی گزرتے ہیں کہ اسد کو کال آتی ہے انٹرویو کے لیے وہاں اسے سلیکیٹ کرلیا جاتا ہے ایک برانچ مینیجر کی کرسی کے لیے ایک دن وہی مینیجر جو اسے ریجیکٹ کرچکا ہوتا ہے اس کے پاس آتا ہے ایک فائل لے کر جسے اسد نے پڑھ کر سائن کرنے ہوتے ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ان کو ان کی غلطیوں کی بنیاد پر جاب سے فائر کیا جاتا ہے جس کے لیے اسد کے سائن اہم ہوتے ہیں اسد انہیں کہتا ہے رکھنا تو آپ کو بھی نہیں چاہیے ویسے آپ کے ایٹیٹوڈ کی وجہ سے مگر آپ کو ایک اور موقع دیتا ہوں آئندہ احتیاط سے لفظوں کا استعمال کیجیے گا کیونکہ جو الفاظ آپ کسی کے لیے استعمال کرتے ہیں آج کل وہ آپ کو بھی سننے پڑ سکتے ہیں۔
Comments are closed.