اردو صحافت اور جنگ آزادی 1857

 

 

تعارف و تبصرہ/ شکیل رشید

 

آج ، جب ،بہت سےلوگ کہہ رہے ہیں کہ اردو زبان دم توڑ رہی ہے ، اردو کی ایک کتاب ایسی ہے ، جس کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے ۔

اگر اردو کی کوئی کتاب ، جو ناول یا کہانیوں اور افسانوں یا شاعری کی نہ ہو ، چند سالوں کے دوران تیسری بار شائع ہو ، تو یہ جان لیں کہ وہ غیر معمولی کتاب ہے ۔ اور صرف کہنے کے لیے ہی نہیں ، میں ، معروف اردو صحافی معصوم مرادابادی کی جس کتاب ’’ اردو صحافت اور جنگِ آزادی 1857‘‘ کا ذکر کر رہا ہوں ، وہ اپنے غیر معمولی موضوع اور موضوع سے متعلق مواد کی تلاش میں ، مصنف کی بے پناہ محنت ، اعلیٰ درجہ کی تحقیق اور غیر جانبدارانہ خیالات کے نتیجے میں ، ہاتھوں ہاتھ لی گئی ہے ۔ اور صرف اردو والوں ہی نے نہیں ، جو اردو نہیں جانتے انہوں نے بھی اس کتاب کے بارے میں سنا اور جانا تو اسے دل سے لگایا ، یہی سبب ہے کہ اس کتاب کا ہندی ایڈیشن بھی اب شائع ہو چکا ہے ، اور ممکن ہے کہ انگریزی زبان میں بھی یہ کتاب ایک دن آجائے ۔ یہ کتاب کیوں اہم اور غیر معمولی ہے؟ اس سوال کا ایک جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کا جو موضوع ہے اسے مستقل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ اورنظر انداز بھی ایسے کہ اس موضوع پر ، کوئی مسقل کتاب ، اس سے پہلے ، تھی ہی نہیں ۔ معصوم مرادابادی ’ دیباچہ ‘ میں ، اس کتاب کو لکھنے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں ،’’پروفیسر قمر رئیس نے مجھے ’ دہلی کی اردو صحافت اور 1857 ‘ کے موضوع پر ایک مقالہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی تھی ۔ اس سلسلے میں اردو صحافت کی تاریخ پر بنیادی ماخذ کی تلاش میں مجھے لائیبریریوں کا رخ کرنا پڑاتو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ جنگِ آزادی 1857 میں اردو صحافت نے جو سرفروشانہ کردار ادا کیا ہے ، اس کا مواد بہت منتشر اور بے ترتیب حالت میں ہے ۔ اس موضوع پر کوئی مستقل کتاب تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملی ۔ لہٰذا میں نے اسی وقت یہ فیصلہ کیا کہ اپنی تمام تر مصروفیات کو پسِ پشت ڈال کر اس موضوع پر کام کروں تاکہ جنگِ آزادی 1857 میں اردو صحافت کے مثالی کردار کو ایک مبسوط کتاب کی صورت میں پیش کر سکوں ۔‘‘ اور اسی محنت سے کیے گئے کام کے نتیجے میں یہ کتاب وجود میں آئی ۔

کتاب میں چار بڑے عالموں کے مضامین شامل ہیں ، جنہیں پڑھ کر اس کتاب کی اہمیت اور افادیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔ پروفیسر ہاشم قدوائی نے ’ پیش لفظ ‘ تحریر کیا ہے ( نہ جانے کیوں کتاب کی فہرست میں ’ پیش لفظ ‘ کی جگہ ’ دیباچہ ‘ اور جہاں ’ دیباچہ ‘ ہونا چاہیے وہاں ’ پیش لفظ ‘ شائع ہوا ہے ) وہ لکھتے ہیں ’’ اس کتاب کو لکھ کر ایک طرف انہوں ( مصنف ) نے تحقیق کا حق ادا کردیا ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی آزادی کی پہلی لڑائی 1857 سے متعلق انہوں نے جو تجزیاتی نتیجے اخذ کیے ہیں وہ ہندوستان کی جنگِ آزادی میں ایک اہم اور گراں قدر اضافہ ہے ۔ پہلی دفعہ آزادیٔ وطن کے لیے اردو صحافت اور اردو صحافیوں کے سرفروشانہ کردار کی تفصیل پیش کی گئی ہے ۔ سعید سہروردی نے ’’ تحقیق کا شاہکار ‘‘ کے عنوان سے موضوع کا بھرپور تعارف کراتے ہوئے بالکل صحیح لکھا ہے کہ مصنف نے ’’ دوسروں کے لیے آئندہ تحقیق کے راستے روشن کر دیے ہیں ۔‘‘ پروفیسر محسن عثمانی ندوی ’’ ایک قابلِ مطالعہ کتاب‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’ اب اس کتاب کے ذریعہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ جنگِ آزادی میں قائدانہ کردار اردو صحافت نے ہی ادا کیا ہے ۔ اس اردو زبان نے ادا کیا ہے جس کے ساتھ آزادی کے بعد مسلسل ناروا اور غیر منصفانہ سلوک کیا جا رہا ہے ۔‘‘ بات سچ ہی ہے ، اردو کے خلاف ، مسلسل سنگھی پروپگنڈے نے ، کہ یہ غیر ملکی زبان ہے ، برادرانِ وطن کو گمراہ کیا ہے ، لیکن یہ کتاب اگر کھلے دل سے پڑھی جائے تو گمراہی کا ازالہ ممکن ہے ، اس لیے اس کتاب کا ملک کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ضروری ہے ۔ معروف اردو صحافی گر بچن سنگھ نے کتاب پر ایک پر مغز ’ مقدمہ ‘ تحریر کیا ہے جس میں کتاب کا تعارف تو ہے ہی ، یہ اہم سوال بھی ہے کہ ’’ تاریخ کے حقائق کا احترام کرنے والا ہر ہندوستانی حیرت و کوفت سے پوچھتا ہے کہ بغاوت کے تحریک پرور دانشور فارسی اور اردو کے صحافیوں کا کیا ہوا ؟‘‘ اور یہ مشورہ دیا ہے کہ لال قلعہ میں شہید مینار بنوایا جائے اور مجاہدین کی یادگاروں کو وہاں محفوظ کیا جائے ۔ معصوم مرادابادی کے اس کام کو سراہتے ہوئے وہ لکھتےہیں’’ اس کتاب کے ذریعہ انہوں نے ایک ایسے موضوع کو پیش کیا ہے جو ہماری تاریخ میں بہت نظرانداز کیا گیا ہے اور جس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن یہ کام تحقیق اور دریافت کا ہے ۔‘‘ لیکن اس کام کو کسی نے آگے نہیں بڑھایا ہے ، جبکہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰٨ء میں شائع ہوا تھا ۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے ۔

کتاب بیس ابواب پر مشتمل ہے ۔آخر میں ’ کتابیات ‘ اور مصنف کا تعارف ہے۔ پہلا باب ’’ 1857 اور آزادیٔ صحافت ‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس باب میں ہندوستان میں صحافت کے ابتدا کی تاریخ پر بات کرنے کے ساتھ اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ انگریز کوشش کرتے رہے ، کبھی جبر سے اور کبھی پالیسیاں اور قوانین بنا کر ، کبھی سخت سنسرشپ کے ذریعے کہ ہندوستان میں مقامی صحافت پھل پھول نہ سکے ۔ لیکن اخبارات ،طجن میں اردو زبان کے اخبارات پیش پیش تھے ، ڈٹے رہے ۔ دوسرے باب ’’ اردو صحافت اور 1857 ‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ جنگِ آزادی میں اردو صحافت نے جو محوری کردار ادا کیا اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے ۔حوالوں کے ساتھ معصوم مرادابادی لکھتے ہیں ’’ قانونِ زباں بندی کے تحت زیادہ تر کارروائی فارسی اور اردو اخباروں کے خلاف ہوئی ۔۔1857 کی بغاوت کے بعد انگریزوں نے اردو صحٖافت کو ملیا میٹ کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے ۔‘‘ لیکن ہوا یہ کہ ’’ اردو اخبارات مسلسل اپنے فرضِ منصبی کو نبھاتے رہے ۔‘‘ مصنف نے بعد کے ابواب میں جنگِ آزادی کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے ، ان اردواخبارات کا تفصیلی ذکر کیا ہے جو انگریزوں کے خلاف جنگ میں پیش پیش تھے ۔ دہلی سے نکلنے والے مولو ی محمد باقر کے ’ دہلی اردو اخبار ‘ کو جنگِ آزادی میں سب سے سرفروشانہ کردار ادا کرنے والا قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس اخبار کو ’’ 1857 کی تحریک میں اس لیے بھی اہمیت دی جاتی ہے کہ انگریزوں نے مولو ی محمد باقر کو شہید کر دیا تھا ۔‘‘ گرفتاری کے بعد مولوی محمد باقر کے خلاف نہ مقدمہ چلا ، نہ صفائی کا موقعہ دیا گیا ، شہادت کے وقت ان کی عمر ۷۷ سال تھی۔ کتاب میں مولوی محمد باقر کی شہادت پر ایک پورا باب ہے ۔ایک اردو اخبار ’ پیامِ آزادی ‘ کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے ، اس کے ایڈٹر مرزا بیدار بخت ، جو بہادر شاہ ظفر کے پوتے تھے ، کو انگریز حکام نے بہت ظالمانہ سزا دی تھی ۔ ان کے جسم پر سور کی چربی مل کر انہیں سولی پر چڑھا دیا گیا تھا ۔ اندازہ کریں کہ مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کا پورا خاندان جنگِ آزادی کی بھینٹ چڑھ گیا تھا ، دو بیٹوں کے سر تھالی میں پیش کیے گئے تھے اور خود ضعیف العمر شاہ کو رنگون میں قید کر دیا گیاتھا ، جہاں ان کی وفات ہوئی ۔ لیکن آج بہادر شاہ ظفر سمیت سارے مغل نشانے پر ہیں ۔ کئی اخبارات کا ، جیسے ’ صادق الاخبار ‘، سراج الاخبار‘، کوہِ نور‘ ، ’ سحرِ سامری ‘، ’ عمدۃ الاخبار ‘ ، ’ حبیب الاخبار ‘،’ چشمۂ فیض ‘، ’ گلشنِ نو بہار ‘ اور ’ رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند ‘ کا اس کتاب میں تفصیلی ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ اخبارات انگریزوں کے زیرِ عتاب رہے ، مدیران و مالکان قید رہے ، مقدمے چلے اور پریس ضبط کیے گئے ۔ معصوم مرادابادی نے بڑی محنت سے حقائق جمع کیے ہیں اور دنیا کو بتا یا ہے کہ اردوصحافت نے جنگِ آزادی میں بڑی جرات اور بے باکی سے مجاہدین آزادی کا ساتھ دیا تھا ۔ یہ ایک اہم بلکہ اہم ترین کتاب ہے ، اس کا پرجوش استقبال کیا جانا چاہیئے ۔ کتاب ’ خبردار پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ نے شائع کی ہے موبائل نمبر ہے 98107 80563 ۔

Comments are closed.