جنرل بپن راؤت کی المناک موت ،مسلمان اور الیکشن

 

اتواریہ : شکیل رشید

ہندوستانی فوجی سربراہ جنرل بپن راؤت کی المناک موت کا جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔ سارا ملک غم میں ڈوبا ہوا ہے ۔ ہر مذہب اور ذات کے لوگ اظہارِ افسوس کر رہے ہیں ، مسلمان بھی ۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ،ایک شر انگیز پروپگنڈہ شروع ہے کہ ہندوستانی مسلمان جنرل کی موت سے بڑے خوش ہیں ، اور وہاٹس ایپ پر اپنی خوشی کا اظہار بھی کر رہے ہیں ۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ کسی کی موت پر کوئی کم ظرف ہی خوشی کا اظہار کرے گا ۔ لوگ تو سخت ترین دشمنوں کی موت کے بعد اپنی زبانوں کو سی لیتے ہیں ، پھر مرنے والے یا مرنے والوںکے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتے ۔ اور یہاں بپن راؤت کی موت پر خوشی کے اظہار کا الزام ان مسلمانوں پر لگایا جا رہا ہے ، جن کی جنرل سے یا جنرل کی جن سے کوئی دشمنی نہیں تھی ۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کشمیری مسلمان جنرل سے کچھ ناراض تھے کہ انہوں نے آرٹیکل ۳۷۰کے خاتمہ کے بعد دراندازی روکنے کے لیے وادی میں سخت اقدامات کیے تھے ۔ لیکن اگر کشمیریوں کو جنرل سے کسی طرح کی کوئی شکایت تھی بھی تو اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ وہ جنرل کی موت سے خوش ہیں ۔ موت پر کشمیریوں نے جنرل کو گہرے دکھ کےساتھ ، موم بتیاں جلا کر ، ان کی تصویر پرپھول مالائیں پہنا کر ،اپنے غم کا اظہار کیا ہے ، اور یہ بتایا ہے کہ ملک کے ہر شہری کی طرح وہ بھی جنرل کی موت پر سخت غمزدہ ہیں ۔ لیکن مسلمانوں پر الزام لگانے والوں کو تو بس الزام لگانے سے مطلب ہے ، کہ انہیں دو دو روپیے دے کر یہ کام سونپا گیا ، وہ اپنا کام کیے جا رہے ہیں ، انہیں اس سے کیا مطلب کہ اس زہریلے پروپگنڈے کا نتیجہ کسی کی پریشانی کا باعث بھی ہو سکتا ہے ۔ بلکہ شاید اسی کو وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں کہ ان کا زہر کارآمد ثابت ہو رہا ہے ۔ ہو یہ رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جنرل کی موت کی خبر پر جو ردعمل سامنے آئے ہیں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے نیچے ’ ہنسنے ‘ والی ’ ایموجی ‘ لگائی گئی ہیں ، ان پر شرپسندوں کو موقعہ ملا ہے ہندوستانی مسلمانوں پر الزم تراشی کا ،کہ دیکھ لیں یہ کس قدر خوش ہیں ۔ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں چند نفرت بھرے پوسٹ بطور مثال دیے ہیں ، چند ایک ملاحظہ کریں : ایک صارف نے اپنے اکاؤنٹ میں لکھا ہے کہ ’’ وہ اُڑی اور پلوامہ کے واقعات ، منوہر پاریکر کی ہلاکت ، انڈیا کی پاکستان کے ہاتھوں شکست اور جنرل بپن راوت کے ہیلی کاپٹر کریش پر ہنسے۔ وہ کون ہیں؟ وہ انڈیا میں رہنے والے مسلمان ہیں۔‘‘ اتل مشرا نے لکھا کہ ’’ ہاہا والے ایموجیز سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو اس ملک میں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دکھانے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔‘‘ اُن کا اشارہ ہندوستانی مسلمانوں کی جانب تھا جنہیں دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے اکثر پاکستان کا حامی اور انڈیا کا مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ بہت سارے لوگوں نے اس حقیقت کی طرف ان زہریلے عناصر کی توجہ مبذول کی ہے کہ ’ ہنسنے ‘ والی ایموجیز زیادہ تر پرائیوٹ ہیں یا ملک سے باہر کی ہیں، لیکن یہ عناصر ہندوستانی مسلمانوں کو ملزم قرار دینے سے باز نہیں آئے ہیں ۔ پرائیوٹ کا سیدھا مطلب ہے ایسے صارف جو اپنی شناخت چھپائے ہوئے ہیں ، اور اس معاملے میں بی جے پی کا میڈیا سیل سب سے آگے ہے ۔رہے ملک سے باہر کے ردعمل ،تو صاف ہے کہ وہ جو بھی ہوں ہندوستانی مسلمان نہیں ہیں ۔ جنرل کی موت کو ’سیاسی ‘ بنانے کی کوشش ہو سکتی ہے ،یہی دیکھ لیں کہ جب کسان لیڈر راکیش ٹکیت جنرل کو خراج عقیدت دینے پہنچے تو ان کے خلاف نعرے لگے ،جئے شری رام کا نعرہ لگا ۔ ممکن ہے کہ یو پی کے الیکشن میں اس المناک موت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے ۔ برائے کرم ہر پارٹی اس سے بچے ۔کسی کی موت کا فائدہ اٹھانے کا مطلب ضلالت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

Comments are closed.