زرعی قانون کی واپسی حکومت ہند کی ناکامی

 

۔۔جمشید خان قادری اشفاقی

١٤ ستمبر ٢٠٢٠ کو زراعت کے لٸےنٸے قانون کو پنچایتی راج کے مرکزی وزیر جناب نریندر شینگھ تومر نے لوک سبھا میں رکھا جس کو باجپا سرکار نے ایوان میں اکثریت ہونے کے سبب لوک سبھا سے پاس کردیا جبکہ ١٧ ستمبر ٢٠٢٠ کو راجیہ سبھا سے بھی پاس ہوگیا اور صدرجمہوریت کے دستخط کے بعد جدیدزرعی قانون بھی بن گیا
سرکار نے یہ قانون جبرا کسان برادری پہ تھوپنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں جگہ جگہ مخالفت، احتجاجی دھرنے ،آندولن شروع ہوٸے دیکھتے ہی ہی دیکھتے ایک طویل آندولن شروع ہوا ٹیکری بوڈر، غازی پور ،شاہجہاںپور سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں زوردار پردرشن ہوٸے یہ آندولن لگ بھگ ١٤ ماہ چلا سردی ،گرمی ،طوفان، بارش کی پرواہ کٸے بنإ یہ سلسلہ دراز ہوتا چلاگیا جس میں تقریبًا ٧٠٠کسان آندولن کاریوں کی موتیں ہوٸیں پھر بھی ہمت نہیں ہاری کسانوں کی جہد مسلسل رنگ لاٸی اورغرور و تکبر کا بھانڈا پھوٹا ١٩نومبر٢٠٢١ کو ملک کے وزیر اعظم نریندرمودی نے گرونانک کی جینتی پہ اچانک قانون واپسی کا اعلان کرتے ہوٸے سب کو چونکا دیاجبکہ کسانوں نے اپنے آندولن کو جاری رکھتے ہوٸے ایم ایس پی پہ قانون بنانے ٧٠٠ مزدور کسانوں کی موت کا معاوضہ ریاستی وزیر داخلہ اجیہ کمار مشرا عرف ٹینی کی گرفتاری تک کہ مطالبے کرڈالے جبکہ کچھ مطالبات پہلے بھی تھے تاہم قانون کے واپس لینے کے بعد اور زیادہ شدید ہوگٸے
اس میں کوٸی دو راٸے نہیں کہ عام الناس اپنے جاٸز مطالبات کے لٸے سڑکوں پر اتر آٸے تو کتنے ہی ظالم جابر حکمران کیوں نہ ہو کتنے ہی متشدد فراعین زمانہ کیوں نہ ہو لوگوں کے سامنے جھکنا پڑتا ہے کسانوں کے احتجاج سے قبل حکومت وقت نے دستورہند کو بالاٸے طاق رکھکر مذہب کی بنیاد پر این آر سی اور سی اے اے جیسے غیر قانونی بل کو بھی لے آٸی جسے دونوں ایوانوں بمع صدرجمہوریہ کے دستخط جبرًا دیس واسیوں پہ تھوپ دیا گیا جس کے سبب ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوٸے اور جگہ جگہ شاہین باغ بنے اس بیچ مظاہرین پہ بیجا تشدد ڈھایا گیا یہاں تک شرکت کرنے والوں پہ سخت سے سخت دفعات لگاکر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا جو کچھ بری ہو کر لوٹ آٸے کچھ آج بھی سلاخوں کے پیچھے بےگناہی کی سزاکاٹ رہے ہیں
ان سب کے بیچ زرعی قانون کی مراجعت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ بیجا قانون اب اس ملک میں نہیں چلنے والے ایوان ہردو میں قانون ممکنہ بناتو سکتے ہو نافذ کرنا آپ کے بس میں نہیں ہے آٸندہ حکومت ہوش کے ناخن لے کہ رفاہی ،ترقياتی کاموں ،وطن عزیز کی خوشحالی کے لٸے عوام ووٹ کرتی ہے نہ کہ کسی کو پریشان کرنے کے لٸے آج پاٶر میں آکر ظلم وجبر کی داستان رقم کرنے کی سعٸی لا حاصل کروگے کچھ دن بعد حزب مخالف گروپ میں بیٹھ سکتے ہو عوام کا دل جیتنا ہوتو تعلیم، روزگار کے علاوہ نفرت والی زندگی کو ختم کرنا ہوگا تب جاکر صحیح معنوں میں حکمران کہلاٶگے اور دلوں پہ راز کروگے ورنہ گمنامی کی زندگی میں دھکیل دیٸے جاٶگے تاریخ میں ایسے بادشاہوں کے بکثرت ذکر مل جاٸیگے جنہونے بیجا ٹیکس، ظلم وزیادتی ،بیجا قانون سازی قوم پہ تھوپی آج انکا تاریخ نے کیا حال کیا سبھی جانتے ہیں
5/12/2021

Comments are closed.