شاعر و ادیب جانب خاطر غزنوی مرحوم

محمد صابر حسین ندوی
بسا اوقات شاعروں کی زباں وہ حقیقت کہہ جاتی ہے جس کے بیاں سے سیکڑوں قلم و دوات خموش رہتے ہیں، بڑی بڑی شخصیات اور علمی تحریکات جنہیں ظاہر کرنے میں خوف کھاتی ہیں، سیاست، مال وزر اور عہدہ و رتبہ کے نشے جنہیں چھپا دیا جاتا ہے اور حال یہ ہوجاتا ہے کہ سرکشوں کی سرکشی بڑھتے بڑھتے سماجی ناانصافیوں، تقسیم اور مفادات کے درمیان لوگ عدل و مساوات اور رب حقیقی کی طرف لوٹ جانے کا تصور بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، انسان اپنے ظالمانہ اقدام اور فکری بے راہ روی کے ساتھ آگے بڑھتا جاتا ہے اور وہ وقت آتا ہے کہ اسے فرعونوں میں شامل کرلیا جاتا ہے، وہ وقت کا سب سے بڑا ظالم اور سماجی تفرقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے؛ حتی کہ وہ اپنی انسانی حیثیت پر بھی قدغن لگانے لگتا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ فرعون کی طرح – انا ربکم الاعلی – نہ کہے، مگر اپنی فکر و کردار سے وہ یہی ثبوت فراہم کر رہا ہوتا ہے، وہ گویا اللہ تعالی کو اپنے بعد رکھتا ہے، خود کو قادر مطلق جاننے لگتا ہے اور اپنے ماتحتوں کو غلام، باندی اور بندھوا مزدور سمجھ بیٹھتا ہے، وہ زبان حال سے یہی رہا ہوتا ہے کہ اگر اس نے کھانے کو نہ دیا تو تم بھوکے مر جاؤگے، پہننے کو نہ دیا تو عریانی کی زندگی گزارنی پڑے گی، رہنے کو نہ دیا تو بغیر چھت کے آسمان تلے رہنا پڑے گا، ایسے میں ایک شاعر اٹھتا ہے اور کہتا ہے:
کیسی چلی ہے اب کے ہوا تیرے شہر میں
بندے بھی ہو گئے ہیں خدا تیرے شہر میں
یہ شعر کس قدر حقیقت پر مبنی ہے، ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے معاشرے میں پنپنے والے تمام خود رو آقاؤں کا جائزہ لیا ہے، اور ایک لمبے تجربے کے بعد دنیا میں انسانوں کی سب سے بڑی کمزوری کو اجاگر کیا ہے جو اسے اصل میں ظاہری طاقت کے نشے میں رونما ہوتا ہے، شاعر مجبوراً کہہ پڑا:
انساں ہوں گھر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں
اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں
ایسے عظیم شاعر کا نام خاطر غزنوی ہے، اردو اور ہندی کے نامور شاعر اور ادیب خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا، وہ ٢٥/ نومبر ١٩٢٥ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان پشاور سے کیا۔ بعدازاں پشاور یونیورسٹی سے اردو زبان میں ایم اے کیا اور اسی شعبہ میں تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ اس دوران وہ دو ادبی جرائد ’’سنگ میل‘‘ اور ’’احساس‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ ١٩٨٤ء میں انہیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ خاطر غزنوی کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب درخواب، شام کی چھتری، کونجاں اور نثری کتب میں زندگی کے لئے، پھول اور پتھر، چٹانیں اور رومان، رزم نامہ، سرحد کے رومان، پشتو متلونہ، دستار نامہ، پٹھان اور جذبات لطیف، خوشحال نامہ، چین نامہ، اصناف ادب اور ایک کمرہ کے نام شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ٧/جولائی ٢٠٠٨ء کو خاطر غزنوی پشاور میں وفات پاگئے اور پشاور ہی میں قبرستان رحمن بابا میں آسودۂ خاک ہوئے اور اپنے پیچھے یہ کہہ گئے:
یہ کون چپکے چپکے اٹھا اور چل دیا
خاطرؔ یہ کس نے لوٹ لیں محفل کی دھڑکنیں
خاطر مرحوم کی شاعری دل کو چھوتی ہے، انسانی جذبات و احساسات کی نمائندگی کرتی ہے؛ بالخصوص سماج کا آئینہ ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے، ذیل میں ایک شعر پڑھئے! اس سے پہلے معاشرے میں پھیلی منافقت اور ظاہر پرستی کو یاد کر لیجیے! کہ آج کس قدر لوگ زبانی جمع خرچ کرتے ہیں، خلوص و محبت کے نام پر صرف تسلی اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیتے، موقع پر پڑنے پر بڑی آسانی سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں، ایک معمولی رنجش پر برسوں کے یارانے بکھر کر رہ جاتے ہیں، آپسی رشتے اور دوستی میں اتنی بھی قوت برداشت اور خلوص کا مادہ نہیں ہوتا کہ ایک دوسرے سے اخلاص کے سودا نہ کریں؛ بلکہ اخلاص کے نام پر کھوٹا سکہ ہوتا ہے کہ جو لمحہ بھر میں بےکار ہوجاتا ہے، شاعر درست کہا ہے:
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانےگئے
شاعر کی رومانی فکر بھی انسان کو مائل کرنے والی ہے، نوجوان دلوں کی دھڑکن اور احساس کو بیان کرتی ہے، ایک شخص جب کسی سے بے انتہاء لگاؤ رکھے، محبت سے ہو کر عشق اور جنوں تک جا پہنچے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے، شاعر نے لفظوں میں اسے بیان کردیا ہے، ذیل چند بہترین اشعار پیش کئے جارہے ہیں جو جواں دلوں کیلئے پرکشش ہیں، پڑھئے اور عمدہ انتخاب کا لطف لیجیے!
لوگوں نے تو سورج کی چکا چوند کو پوجا
میں نے تو ترے سائے کو بھی سجدہ کیا ہے
….
تو نہیں پاس تری یاد تو ہے
تو ہی تو سوجھے جہاں تک سوچوں
…..
سر رکھ کے سو گیا ہوں غموں کی صلیب پر
شاید کہ خواب لے اڑیں ہنستی فضاؤں میں
…..
گلوں کی محفل رنگیں میں خار بن نہ سکے
بہار آئی تو ہم گلستاں سے لوٹ آئے
….
خاطرؔ اب اہل دل بھی بنے ہیں زمانہ ساز
کس سے کریں وفا کی طلب اپنے شہر میں
….
ایک ایک کر کے لوگ نکل آئے دھوپ میں
جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں
7987972043
Comments are closed.