سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی شاعری میں قرآنی تلمیحات

سیدعطاءاللہ شاہ بخاریؒ کی شاعری میں قرانی تلمیحات
نوراللہ فارانی
سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کی شہرت دوام کی سب سے بڑی وجہ ان کی شغلہ باراور وجد آفریں خطابت ہے۔آپ کی خطابت کی اس شہرت نے آپ کے دیگر خصائص وکمالات پر پردہ ڈال دیا ہے۔اور حقیقت بھی یہ ہے کہ ان کی دیگر خصائص ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ خطابت ہی کے ذریعہ آپ کی شہرت مسلم ہے۔اس تحریر میں خطابت سے ہٹ کر ان کی ایک اور خصوصیت ’’شاعری ‘‘ کی ایک پہلو پرخامہ فرسائی کی کوشش کی گئی ہے۔آپ خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شعرفہمی، شعر شناسی اور شعر گوئی کی دولت سے بھی نوازے گئے تھے۔برصغیر پاک وہند کے بڑے باکمال اساتذہ سخن نے آپ کی شعر فہمی اورسخن شناسی کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ بڑے وقیع الفاظ میں اس حوالے سے داد وتحسین سے بھی نوازا ہے۔آپ نے اگر چہ باقاعدہ کوچۂ شعر گوئی میں نہ قدم رنجہ فرمایا ہے اور نہ اس دشت کی صحرانوردی کی ہے۔مگر باوجود اس کے آپ کی موزوں طبیعت کبھی کبھار شعر گوئی کی طرف ضرور مائل ہوئی۔اور نہ چاہتے ہوئے کبھی فی البدیہہ اور کبھی کبھار کسی شاعر کے اشعار سے متاثر ہو کر شعر کہہ جاتے۔آپ نے شعرگوئی میں سب سے پہلے باقاعدہ مولوی محمد دین غریب امرتسری (۱) کی شاگردی کی۔وہ خود فرماتے ہیں:’’ زمانہ تعلیم میں۔۔۔ سب سے پہلے میں نے مولوی محمد دین صاحب غریب امرتسری مرحوم کی شاگردی کی۔ وہ کوچہ خراسیاں (امرتسر) میں رہتے تھے۔ میں ان کے پاس وہیں ان کے مکان پر جایا کرتا تھا۔ انہوں نے مجھے مصرع طرح دیا۔
ادھر ڈھونڈتی ہے اُدھر ڈھونڈتی ہے
اور کہا کہ شعر بنا کر لاؤ ۔ اس پر میں نے مصرع لگایا۔
وہ آنکھوں میں موجود اور چشم حیراں
دوسرے دن میں نے جاکر کہا کہ ایک ہی مصرع لگا کر لایا ہوں۔ سن کر پھڑک اٹھے اور بہت داد دی۔‘‘ (۲)
مولانا غریب امرتسری کے بعد میانوالی جیل میں سالک مرحوم سے بھی اصلاح ومشورۂ شعر وسخن فرماتے رہے۔علامہ طالوت کو بھی استاد کہتے اور ان سے گاہے بگاہے اصلاح لیتے۔ اپنی طوفان آسا زندگی کے نشیب وفراز میں جب طبیعت موزون پاتے تو اردو یا فارسی میں اشعار کہتے ۔شورش کاشمیری کے بقول ’’کوئی باقاعدہ شاعر نہ تھے اور نہ شاعری باقاعدہ تھی۔بس جذبات کا ایک اُبال تھا‘‘ (۳)
علامہ طالوت صاحب شاہ جی کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’نہ یہ اشعار اس بنا پر انہوں نے لکھے ہیں کہ واقعی وہ شعر لکھ رہے ہیں اور نہ فن کو انہوں نے کبھی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ان کی حیثیت محض تبرکات اور تاریخ کے گم ہوجانے والے اوراق کے لیے صرف یاداشت کی ہے اور بس‘‘ (۴)
شاہ جی کی شاعری کا مختصر مجموعہ ان کے فرزند ارجمند حضرت مولانا ابوذر بخاری ؒنے مرتب فرماکر مارچ ۱۹۵۵ ء میں شائع کردیا تھا۔اس مجموعہ میں چند نعتیں، بعض بزرگوں کی منقبت، اس دور کے سیاسی اور ملکی حالات کی منظر کشی اور طنزومزاح پر مشتمل اشعار شامل ہیں۔ابتداء میں ’’تعارف ‘‘کے عنوان سے مرتبِ کتاب سید ابوذر بخاری کا ۳۸ صفحات پر بسیط مضمون شامل ہے۔اس کے بعد علامہ طالوت کا تقدمہ شاملِ کتاب ہے جو اٹھارہ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں باقی کتاب میں شاہ جی کی شاعری اور ان کا شان ورود ذکر کیا گیا ہے۔پوری کتاب۱۵۲صفحات کی حامل ہے۔ چونکہ آپ ایک عالم دین تھے اور قرآن و حدیث کا علم رکھتے تھے۔قرآن سے آپ کی بے پناہ شغف ومحبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔(۵) یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں جا بجا قرآنی تلمیحات کے حوالے ملتے ہیں اور کیونکہ ہمارا موضوع فقط وہ تلمیحات ہیں جن کا تعلق قرآن حکیم سے ہے۔(اور ایک دو تلمیحات احادیث کے بھی) سو ہم فقط اسی پر اکتفا کریں گے۔ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی نے تلمیح کی مختلف تعریفات کا جائزہ لینے کے بعد ہر ایک تعریف میں کمی وزیادتی کا ذکر کیا ہےاور آخرمیں تلمیح کی ایک جامع تعریف لکھنے کی سعی کی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’تلمیح وہ صنعت معنوی ہے جس میں شاعر اپنے کلام میں کسی مسئلۂ مشہور یاقصہ یا قول یا مثل یا اصطلاح نجوم یا موسیقی وغیرہ کی طرف اشارہ کرےجس کے بغیر معلوم ہوئے اور بے سمجھے کلام کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آوے۔ آیت قرآن پاک کا لانا،کسی معجزہ کا ذکر کرنا، کسی حدیث کو نظم کرنا، کسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرنا تلمیح کی تعریف سے خارج از بحث نہ سمجھنا چاہیے بلکہ ان کو بھی تلمیح کی تعریف کا ایک ضروری جزء تصور کرنا چاہیے۔‘‘ (۶) آیات مبارکہ کے ترجمہ کے لیے شاہ عبدالقادرؒ کے قرآنی ترجمہ ’’موضح قرآن ‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے۔(۷) ایک دومقامات پر اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری آیت کے بجائے مطلوبہ حصے پر اکتفاکیا گیا۔سواطع الالہام کا صفحہ نمبر حوالوں کی کثرت سے بچنے کے لیے ہر شعر کے سامنے مضمون کے متن میں لکھا گیا ہے۔
1۔الا فرارا۔
اسے وعظ سننے کا ہے شوق بےحد
نتیجہ نہیں کچھ بھی الا فرارا (۸۶)
اس شعر میں مصرع ثانی کا قرآنی جزو (سورۂ نوح آیت: ٦)سے لیا گیا ہے۔ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا۔
ترجمہ: پھر میرے بلانے سے اور زیادہ بھاگتے رہے۔
ایک مرتبہ شاہ جیؒ نے قوم کی اس بے وفائی اور بے اعتنائی کے بارے میں صاحبزادہ فیض الحسن کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:میں اس قوم کو اچھی طرح جانتا ہوں یہ تقریر میری سنتی ہے۔ بچہ نہ ہو تو تعویذ آپ سے لیتی ہے۔ تفسیر ابوالکلام کی پڑھتی ہے۔ حدیث حسین احمد مدنی سے سنتی ہے۔فقہ اور فتویٰ کے لئے مفتی کفایت اللہ کے پاس جاتی ہے۔علم احمد علی سے سیکھتی ہے مگر ووٹ کسی اور کو دیتی ہے۔ (۸)
2۔الا تبارا۔
ستاروں کی آپس میں یہ گفتگو تھی
مقدر نہیں اس کے الا تبارا (۸۶)
اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں مذکور قرآنی الفاظ (سورۂ نوح آیت: ٢٨) سے لیے گئے ہیں۔وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِيْنَ اِلَّا تَبَارًا۔
ترجمہ: اور گنہگاروں پر یہی بڑھتا رکھ۔
3۔جنت النعیم۔
باغ وبہار ما ندیم یعنی کہ جنت النعیم
روئے خوش است وخوئے خوش بوئے خوش وگلوئے خوش (۹۴)
پہلے مصرعہ کے آخر میںوارد قرآنی ترکیب قرآن مجید میں پہلے جزو کے واحد اور جمع دونوں صورتوں میں دس مرتبہ آیا ہے ہم نے یہاں (سورۃ الشعراء ایت ٨٥)کو ترجیح دی ہے۔وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ۔ترجمہ: اور کر مجھ کو وارثوں میں نعمت کے باغ کے۔
مولانا ظفر علی خان کا شعر ہے۔
نصرت دیں کا صلہ دنیا میں ہے فتح مبیں
اور انعام اس کا عقبی میں ہے جنت النعیم (۹)
4۔ والتین والزیتون۔
دنیا کی بے ثباتی ،بے وفائی اور مکر وفن پر مشتمل ایک نظم کے یہ اشعار جس میں قرآنی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
نہ یہ والتین کی دنیا نہ والزیتون کی دنیا
نہ یہ مفروض کی دنیا نہ یہ مسنون کی دنیا (۹۹)
سورۃ التین کی پہلی آیت ہے جو بالترتیب پہلے مصرع میں کچھ فصل کے ساتھ مذکور ہے۔
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ۔ترجمہ: قسم انجیر کی اور زیتون کی۔
5۔طلسم سامری۔
طلسم سامری ہے یہ نہ ہے ہارون کی دنیا
یہ ہے فرعون کی دنیا یہ ہے قارون کی دنیا (۹۹)
اس شعر میں طلسم سامری تلمیح ہے جس سے سامری اور موسی علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔جو سورۃ طہ آیت: ٨٥ میں مذکور ہے۔قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَـتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَاَضَلَّهُـمُ السَّامِـرِىُّ۔
ترجمہ: فرمایا ہم نے تو بچلا دیا تیری قوم کو تیرے پیچھے، اور بہکایا ان کو سامری نے۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری (۱۰)
6۔فسق ورجس اور عذاب الھون۔
تم اس دنیا کو کیا جانو یہ دنیا کیسی دنیا ہے
یہ فسق ورجس کی دنیا عذاب الھون کی دنیا (۹۹)
اس شعر میں ’’ فسق ورجس ‘‘قرآنی الفاظ ہیں جو (سورۃ الانعام آیت: ۱۴۵) سے لیے گئے ہیں۔ شعر میں تقدیم وتاخیر سے استعمال کیے گئے ہیں، اسی طرح ’’عذاب الھون ‘‘بھی قرآنی اقتباس ہے۔ جو(سورۂ الاحقاف:۲۰)سے شعر کی زینت ہے۔ آیات ملاحظہ ہو۔قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔ترجمہ: تو کہہ میں نہیں پاتا جس حکم میں کہ مجھ کو پہنچا،کوئی چیز حرام، کھانے والے کو جو اس کو کھادے مگر یہ کہ مردہ ہو، یا لہو پھینک دینے کا ،یاگوشت سور کا کہ وہ ناپاک ہے یا گناہ کی چیز جس پر پکارا اللہ کے سوا کسی کا نام پھر جو کوئی عاجز ہو نہ زور کرتااور نہ زیادتی تو تیرا رب معاف کرتا ہے مہربان۔ فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ۔
ترجمہ: اب آج سزا پاؤ گے ذلت کی مار،بدلہ اس کا جو تم غرور کرتے تھے ملک میں ناحق، اور اس کا جو تم بے حکمی کرتے تھے ۔
7۔لاالہ۔
قِدم بہ جلوہ بہ بین وحدوث را بہ جبیں
چہ جلوہ وچہ جبیں، لاالہ می چکدش (۷۸)
اس نعت کا ترجمہ نظم معری کی ہیئت میں ابن امیرشریعت سید عطاءالمحسن بخاری نے عمدہ انداز میں کیا ہےمتذکرہ بالا شعر کا ترجمہ ان کی زبان قلم سے ملاحظہ ہو۔
قِدم علوم نبوت،حدوث عرق جبیں
کہ لاالہ علوم وجبیں سے ٹپکے ہیں
اس شعر میں بھی ’’ لاالہ ‘‘ قرآنی الفاظ ہیں جو متعدد مقامات پر قرآن مجید میں وارد ہیں۔ہم نے سورۃ البقرۃ :آیت ۱۶۳اس تحریر میں شامل کی ہے ۔
وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ
ترجمہ :اور تمہارا رب اکیلا رب ہے۔ کسی کو پوجنا نہیں اس کے سوا۔بڑا مہربان رحم والا۔
8۔حبلِ ورید۔
خواجہ در ذات آنچناں پیوست
ہمچو آں ذات نزد حبلِ ورید (۱۰۲)
اس شعر میں یہ قرآنی تلمیح تھوڑی سی تبدیلی(بغیر الف لام) کے ساتھ وارد ہے مگر اشارہ (سورۂ ق آیت: ١٦) کی طرف ہے ۔
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۔ ترجمہ: اور ہم اس سے نزدیک ہے دھڑکتی رگ سے زیادہ۔
یہ شعر حضرت شاہ جی کی فارسی نظم کی ہے جو انہوں نے خواجہ غلام فریدؒ کی منقبت میں کہی ہے اور انتہائی وقیع الفاظ میں ان کے مقام ومرتبے کا ذکر کیا ہے اوراس نظم میں خواجہ صاحبؒ سے اپنی عقیدت ومحبت کا خوب اظہار کیا ہے۔اس شعر میں وہ خواجہ صاحب کے تقرب الی اللہ کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:خواجہ غلام فریدؒ کو اپنے رب سے کمال تقرب حاصل تھا۔ایساتعلق اور تقرب جیسے رب کو انسان سے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔علامہ اقبالؒ یہ تلمیح اپنے ایک شعر میں یوں استعمال کرتے ہیں۔
قلب مومن را کتابش قوت است
حکتمش حبل الورید ملت است (۱۱)
اور مولانا ظفر علی خانؒ کا شعر ہے
مظلوم کی فریاد سنی اس کے خدا نے
کٹنے کو ستم گر کی ہے حبل ورید آج (۱۲)
9۔ لات مناۃ۔
تم ذات صفات کو کیا جانو؟
لات مناۃ کے جاننے والو
تم کیا جانواے نادانو
تم کیا سمجھو تم کیا جانو (۱۲۸)
اس شعر میں مذکور قرآنی اسماء (سورۃ النجم آیت: ١٩۔٢٠)سے مستعار لیے گئے ہیں۔اَفَرَاَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰى۞وَمَنَاةَ الثَّالِثَـةَ الْاُخْرٰى۔
ترجمہ: بھلا تم دیکھو تو! لات اور عزیٰ۔اور منات وہ تیسری پچھلی۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں۔
وہی حرم ہے وہی اعتبارِ لات ومنات
خدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری (۱۳)
10۔ نستعین اور ایاک۔
بیا کمال شرافت بہ نستعین بنگر
نگاہ کن چہ وفاءہا بہ حرفِ ایاک است (۱۴۲)
آئیے دیکھئیے شرافت کی اعلی مثال جو لفظ نستعین میں مضمر ہے۔اور لفظ ایاک سے مترشح محبت امیز وفاؤں پر بھی غور فرمائیں۔اس شعر کے دونوں مصرعوں میں (سورۃ الفاتحۃ آیت: ٤) سے استفادہ کیا گیا ہے۔اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۔ترجمہ : تجھی کو ہم بندگی کریں،اور تجھی سے مدد چاہیں۔
مولانا ظفر علی خان لفظ ’’ایاک نستعین ‘‘سے اپنے ایک شعر کو مزین کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ؎
غیر از خدا کسی سے مدد مانگتے نہیں
مل کر پکارتے ہیں ایاک نستعین (۱۴)
11۔یفعل مایشاء اور یحکم مایرید۔
یفعل مایشاء ہے شان اس کی
یحکم ما یرید ہے آن اس کی (۱۵)
اس شعر کے دونوں مصرعوں کے ابتداء میں قرآنی الفاظ(سورۃ الحج آیت:١٤اور آیت:١٨) سے ماخوذ ہیں۔ اِنَّ اللّـٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ۔ ترجمہ: اللہ کرتا ہے جو چاہے۔ اِنَّ اللّـٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ ۔ ترجمہ: اللہ کرتا ہے جو چاہے۔
12۔مازاغ، وماطغٰی اور ماعرفناک ۔
گرہ بطرۂ مازاغ وما طغیٰ بستند
ولے سخن ز سر تاج ماعرفناک است (۱۴۲)
اس شعر کے مصرع اولی میں قرآنی الفاظ(سورۃ النجم آیت ١٧) سے لیے گئے ہیں۔مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى۔
ترجمہ: بہکی نہیں نگاہ اور حد سے نہیں بڑھی۔
شاہ جیؒ خود فرماتے ہیں: یعنی ایک طرف معراج میں تو یہ عالم ہے کہ جلوۂ ذات کے مشاہدہ میں آنکھ نہیں جھپکی اور دوسری طرف دنیا میں عبادت کا یہ حال ہے کہ عجز وحیرت اور فناء کلی کے مقام کو پہنچے ہوئے ہیں۔ اور اعلان ہورہا ہے کہ ہم نے آپ کو ابھی بھی نہیں پہچانا۔اورشاہ جیؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
’’ شعر بھی ایسا لاجواب ہے کہ آج تک اس مضمون کے ساتھ خود میری نظر سے کسی استاد کا کلام نہیں گزرا۔ میں نے معراج لکھ دی ہے۔‘‘(۱۶)
اقبال کے ہاں ’’ مازاع‘‘ کی تلمیح ملاحظہ ہو۔
فروغِ مغربیاں خیرہ کررہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہبان ہو صاحبِ مازاع (۱۷)
علاوہ ازیں اقبال نے دو تین اور مقامات پر بھی ’’مازغ البصر‘‘ کی تلمیح استعمال کی ہے تطویل سے پہلو تہی کرتے ہوئے اسی ایک شعر پر اکتفاء کیاجاتا ہے۔
مولانا ظفر علی خان کا شعر ہے ۔
آنکھ ما زاغ البصر کے سرمہ سے بیگانہ ہو
حیف ہے پھر بھی ہو اس کو ماطغی کی آرزو (۱۸)
زیر تبصرہ شعر کے دوسرے مصرعہ میں لفظ ’’ماعرفناک ‘‘شاعر بطور حدیث کے لائے ہیں جبکہ یہ حدیث نہیں بلکہ ثقہ مشائخ کا ورد اور مقولہ ہے۔ہاں مولانا محمد یاسین خان قاسمی نے اس قول کو معنادرست قرار دیا ہے (۱۹)
علامہ اقبال بھی اپنے فارسی اور اردو کے دو شعروں میں لفظ ’’ما عرفناک ‘‘بطور حدیث کے لائے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔ فرماتے ہیں:
خدا اندر قیاس ما نہ گنجد
شناس آں را کہ گوید ماعرفناک (۲۰)
ایک اور اردو شعر میں اس قول کی طرف بطور حدیث کے اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
پھڑک اٹھا کوئی تری ادائے ماعرفنا پر
ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں (۲۱)
13۔ لولاک۔
حضیضِ خاک بہ بخت بلند می نازد
کہ در مدیحۂ ضیفش حدیث لولاک است
نگفت خالق مطلق کہ ماخلقت الارض
مقام فکر وتامل حدیث لولاک است (۱۴۱)
۔۔۔۔ زمین کی پستی اپنی بلند بختی پر ناز کرتی ہے۔کہ ان کے مہمان عالی شان ﷺ کی مدح وتوصیف میں حدیث لولاک (۲۲) وارد ہوئی ہے۔۔۔اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ ماخلقت الارض،(بلکہ ما خلقت الافلاک فرمایا)اسی نکتہ کی بنا پر زمین کی قدر ومنزلت جانے کے لیے حدیث لولاک میں فکر وتامل کی ضرورت ہے۔
لولاک کی تلمیح اکثر شعراء نے استعمال کی ہے۔اقبال کے ہاں متعدد صورتوں میں یہ تلمیح مذکور ہے۔شہ لولاک، صاحب لولاک، نکتۂ لولاک،رمز لولاک، لولاکی وغیرہ۔ملاحظہ فرمائیں۔
صورت خاک حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے
آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے (۲۳)
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے (۲۴)
ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
تری پرواز لولاکی نہیں ہے (۲۵)
جہاں تمام ہے میراث مردِ مومن کی
میرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک (۲۶)
مسلماں را ہمیں عرفان وادراک
کہ در خود فاش بیند رمزِ لولاک (۲۷)
ظفر علی خان کا ایک شعر ہے۔
گر ارض وسما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں (۲۸)
شاہ جیؒ ایک اور شعر میں’’ لولاک‘‘ کی تلمیح لائے ہیں ملاحظہ ہو۔
لولاک ذرۂ ز جہان محمد است
سبحان من یراہ چہ شان محمد است (۸۲)
لولاک حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جہان (فضائل محمدی اور مقام ومرتبہ) کا صرف ایک ذرہ ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو ان کی شان سے پوری طرح آگاہ ہے۔یہ تقریبا وہی مفہوم ہے جو غالب نے اپنے شعر میں ادا کیا ہے۔ ؎
غالب ثنائے خواجہ بیزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
واضح رہے شاہ جیؒ کی یہ نعت غالب کی مشہور زمانہ نعت کی تضمین ہے۔جس کی اکثر وبیشتر شعراء نے تضمین کی ہے۔
مصادر ومراجع :
۱۔آپ کا اصل نام محمد دین تھا غریب تخلص کرتے تھے، آپ ضلع امرتسر کے ایک گاؤں فتح آباد میں ۱۸۸۴ء کو پیدا ہوئے۔مڈل تک حصول تعلیم اور پٹوار کا امتحان پاس کرنے کے باوجود بحیثیت پٹواری ملازمت نہیں کی بلکہ ٹیچر ٹریننگ کرکے ۱۹۰۶ء میں سند حاصل کرلی۔۱۹۱۱ء میں امرتسر آئے اور معمولی تنخواہ پر سکول ٹیچر مقرر ہوئے۔رہائش کا اہتمام حکیم معراج دین مدیر ’’ الفقیہ‘‘ نے کیا۔اس دوران امرتسر کے مولانا محمد عالم آسی سے مزید علمی استفادہ کیا۔اور باطنی علوم کی تحصیل کے لیے سلسلہ چشتیہ صابریہ بھیکیہ کے معروف بزرگ شاہ محمد فاروق حنفی رام پوری کے دامن فیض سے وابستہ ہوئے۔اور خوب فیض پایا۔۱۹۲۴ء میں آپ نے امرتسر سے ’’کشاف ‘‘کے نام سے ایک اخباری جاری کیا۔جس میں جوتش، رمل، نجوم، شاعری، علم وادب کے ساتھ ساتھ روحانیت پربھی مضامین شائع ہوتے تھے۔ ان تمام علوم میں آپ بڑے ماہر تھے علم ریاضی میں بھی کمال حاصل تھا، اس وقت کے بڑے بڑے ریاضی دان آپ سے علم الحساب کے مسائل میں رہنمائی حاصل کرتے۔پنجابی زبان میں آپ کی متعدد تصنیفات ہیں، جن میں ’’بھاں بھاں بلیاں‘‘ ، ’’بھنڈا بھنڈاریاں‘‘’’ٹٹیاں دوستیاں‘‘،’’جنت دا میلہ ‘‘،’’ سنگھنی لسی‘‘معروف ہیں۔نعت رسول مقبولﷺ میں بھی طبع آزمائی کی ہے آپ کا نعتیہ مجموعہ ’’نظارۂ عالم ‘‘ کے نام سےمعروف ہے۔فنِ شاعری میں مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری اور علامہ حسین میر کاشمیری آپ کے تلامذہ تھے۔آپ نے۳ جولائی ۱۹۳۱ء کو وفات پائی اور امرتسر ہی میں تدفین ہوئی۔ (قدرے تفصیل کے لیے دیکھئیے محمد سلیم چودھری کی ’’ شعرائے امرتسر کی نعتیہ شاعری ‘‘ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور، اشاعت اول ۱۹۹۶ءص:۲۸۶تا ۲۸۸)
۲۔سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ، ’’سواطع الالہام‘‘، نادیۃ الادب الاسلامی ،ملتان ،مارچ ۱۹۵۵ء، ص:۶۳
۳۔ شورش کاشمیری ،سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ سوانح وافکار ،طباعت۲۰۱۲ء ص:۵۸
۴۔سید عطاءاللہ شاہ بخاری،’’سواطع الالہام‘‘ ، نادیۃ الادب الاسلامی ،ملتان ،مارچ ۱۹۵۵ء،ص: ۵۹
۵۔شاہ جیؒ فرماتے ہیں: ’’اگر آج دنیا قرآن کو چھوڑ کر دوسری کتابوں کی طرف نگاہ کرسکتی ہےتو میں کیوں نہ دوسری کتابوں سے روگردانی اور اپنی تمام تر توجہ قرآن پر مرتکز کروں۔ میں تو قرآن کا مبلغ ہوں۔میری باتوں میں اگر کوئی تاثیر ہے تو وہ صرف قرآن کی وجہ سے ہےجو چیز مجھے قرآن سے الگ کر دے اسے آگ لگادوں۔‘‘( حکیم مختار احمد الحسینی، فرمودات امیر شریعتؒ مکتبہ تعمیر حیات چوک رنگ محل لاہور، ص ۲۸ )وہ ہمیشہ فرماتے کہ: ’’مجھے ایک چیز سے محبت ہے اور وہ ہے قرآن، اور ایک چیزسے نفرت ہے اور وہ ہے انگریز‘‘(سیدہ ام کفیل بخاری،سیدی وابی، بخاری اکیڈمی، دار بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان، طباعت جنوری ۲۰۱۳ء ، ص:۶۰)
۶۔ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی ،’’اردو ادب میں تلمیحات‘‘اشاعت ۱۹۹۰ء لکھنؤ ، ص: ۶۰
۷۔حضرت شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کا ترجمۂ قرآن قرآنی تراجم میں شاہ جی کا محبوب ترین ترجمہ تھا۔آپ نے یہ ترجمہ خوب غور فکر سے پڑھا تھا سفروحضر میں ساتھ رکھا حتی کہ جیل میں بھی اس کا مطالعہ فرماتے رہے۔بیانات میں قرآنی آیات کے مختلف ترجم مثلاً مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا ابوالکلام آزادؒ وغیرہ سامعین کو سناتےلیکن شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ سنا کران کی جامعیت اور مطابق اصل جیسے خصوصیات بیان کرنا شروع کر دیتے۔ایک دفعہ خطاب میں کسی آیت کا ترجمہ کیا اور فرمایا یہ شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ ہے پھر شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔۔۔اور اُن (حضرت شاہ ولی اللہؒ) کے خَلَفُ الرشید شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے قرآن کریم کا ترجمہ اردو میں کیا۔ مگر ایسی ویسی اردو میں نہیں۔فصیح وبلیغ اردو میں۔ جس سے اگر عربی بنائی جائے توعین قرآن ہوگا۔ ترجمہ میں ایک لفظ بھی زیادہ نہیں۔ یہ ترجمہ انہوں نے چالیس سال میں مکمل کیا ہے۔ یہ ترجمہ تمام موجودہ تراجم کی جان ہے۔۔۔تو شاہ ولی اللہ ؒ پہلے مترجم ہیں فارسی زبان میں۔اور اس کا بیٹا چراغ سے چراغ جلا۔ پہلا مترجم ہے قرآن مجید کا اردو زبان میں۔۴۰سال باوضو بیٹھ کر اس نے یہ ترجمہ مکمل کیا ہے۔ایک پتھر پر تکیہ لگایا کرتے تھے میں بہت دفعہ دہلی گیا ہوں۔ مگر برطانیہ کے ظلم واستبداد سے اس مسجد کا نشان مٹ گیا ہے۔اگر وہ مسجد اب موجود ہوتی تو میں اس میں جاکر دو رکعت نفل پڑھتا۔اور اس پتھر کو بوسہ دیتا اور دعا کرتا کہ اے خداوند! حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کی روح پُر فتوح پر رحمتوں کی بارشیں برسا۔اللھم برد قبرہ بامطار الرحمۃ والغفران۔اس کا ترجمہ لفظ بہ لفظ ہے۔مفرد کا مفرد اور مرکب کا مرکب ترجمہ میرا خیال ہے اگر اللہ تعالی اردو میں قرآن مجید نازل فرماتے تو وہ ( بلامبالغہ) شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ میں ہوتا۔
(تکمیلِ دین، ص: ۲۸۔۲۹ خطاب امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ بمقام جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ ۱۱ مئی ۱۹۵۲ء طباعت: جنوری ۱۹۸۴ء مکتبہ معاویہ۔دارِ معاویہ ۲۳۲کوٹ تُغْلق شاہ ملتان شہر)
۸۔ماہنامہ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر، ج۲ ص ۱۸۴
۹۔’’بہارستان‘‘ مشمولہ’’ کلیات ظفر علی خان‘‘ ص: ۴۳
۱۰۔ علامہ اقبال ، بانگ درا، ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،۱۹۹۳ء،ص:۲۶۱
۱۱۔ علامہ اقبال، اسرارو رموز، کتب خانہ نذیریہ اردو بازار دھلی، ۱۹۶۲ء، ص: ۹۳
۱۲۔’’نگارستان ‘‘مشمولہ’’ کلیا ت ظفر علی خان ‘‘ ص: ۱۲۶
۱۳۔علامہ اقبال،’’ ضرب کلیم ‘‘ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ،۱۹۷۵،ص:۱۷۷
۱۴۔’’چمنستان ‘‘ مشمولہ ’’کلیات ظفر علی خان‘‘ ص : ۱۲۸
۱۵۔ام کفیل بخاری،بخاری اکیڈمی، دار بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان، طباعت جنوری ۲۰۱۳ء’’سیدی وابی‘‘، ص: ۲۶۹
۱۶۔سید عطاءاللہ شاہ بخاری، ’’سواطع الالہام ‘‘ ، نادیۃ الادب الاسلامی ،ملتان ،مارچ ۱۹۵۵ء،ص :۱۴۴
۱۷۔ علامہ اقبال،’’ ضرب کلیم‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۱۹۷۵،ص؍۸۵
۱۸۔ ’’بہارستان‘‘ مشمولہ’’ کلیات ظفر علی خان‘‘ ص:۴۵۴
۱۹۔مولانا محمد یاسین خان قاسمی اس قول کے متعلق لکھتے ہیں : ۔۔۔اس کا ذکر نہ صحیح وحسن روایات میں ملتا ہے ، نہ ضعیف آثار میں، حتی کہ موضوعات میں بھی نہیں ۔۔۔یہ حدیث کسی کتاب میں نہیں ملی۔البتہ علامہ مناوی نے( فیض القدیر جلد ۲ صفحہ ۴۱۰ )میں لکھا ہے کہ وفی الخبر اور علامہ آلوسیؒ نے صرحتاً لکھا ہے کہ یہ ارشاد نبویﷺ ہے چنانچہ (روح المعانی جلد ۴ صفحہ ۷۹ )میں لکھتے ہیں: ’’وفی الخبر عن سید العارفین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: سبحانک ماعرفناک حق معرفتک۔‘‘ مگر نہ اس کی کوئی اصل وسند بیان کی ہے، نہ کسی محدث وکتاب کا کوئی حوالہ دیا ہے اور راقم کو تلاش بسیار کے بعد بھی حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ روایت نہیں ملی اور جہاں تک علامہ آلوسی وعلامہ مناوی کی نقل کی بات ہے، تو راقم کی نزدیک یہ اس بات پر محمول ہے کہ ان دو بزرگوں نے شاید’’ماعبدناک حق عبادتک ‘‘ ہی کے معنی ومفہوم کو ’’ ماعرفناک حق معرفتک ‘‘کے اسلوب وصیغے میں بیان کردیا ہے اور اس کا ایک قرینہ یہ ہے کہ ان دونوں نے ’’ سبحانک ‘‘کے اضافے کے ساتھ یہ کلام ذکر کیا ہے یعنی ’’سبحانک ماعرفناک حق معرفتک‘‘ اور اس اضافے کے ساتھ حضرت سلمانؓ کی روایت صحیحہ میں صیغۂ ’’عبادت ‘‘والی عبارت ہے،صیغۂ ’’معرفت ‘‘ والی نہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔تاہم اس کے مفہوم ومعنی پر ایک روایتِ حسنہ سے واضح دلالت ہوتی ہے،مسلم: ۱۱۱۸، الترمذی: ۳۵۶۶، النسائی: ۱۱۳۰، ۱۷۴۷ ،ابوداؤد: ۸۷۹، ۱۴۲۹، ابن ماجہ: ۱۱۷۹، مسند احمد: ۷۵۱، ۲۴۳۱۲،المستدرک للحاکم: ۱۱۵۰، مصنف ابن ابی شیبہ: ۷۰۱۶، ۲۹۷۵۰وغیرہ متعدد کتب حدیث میں حضرت عائشہ وحضرت علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ ﷺ دعا میں فرمایا کرتے تھے: ’’لا احصی ثنا علیک انت کما اثنیت علی نفسک۔‘‘ ( اے اللہ میں آپ کی مدح وثنا نہیں کرسکتا، آپ کی شان وصف ایسی ہی ہے جیسی کہ آپ نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے۔)اس سے ظاہر وباہر ہے کہ جس طرح خدا
کی مدح وستائش کماحقہ بندے سے نہیں ہوسکتی، اسی طرح بلکہ بہ درجۂ اولی اس کی عبادت ومعرفت بھی کما حقہ نہیں ہوسکتی۔حاصل یہ کہ زیر بحث حدیث بعینہ دونوں جملوں کے ساتھ کہیں ثابت ومذکور نہیں ہے، تاہم صرف جملۂ اولی دیگر روایات میں لفظاً ثابت ہے، مگر دوسرا جملہ لفظاً کہیں ثابت نہیں، مگر معنی دوسری روایت سے ثابت ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔
(مولانا محمد یاسین خان قاسمی، مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ، مکتبہ مسیح الامت دیوبند وبنگلور، اکتوبر ۲۰۱۸ء، ص: ۳۱۲ تا ۳۱۴)
اس قول کے بارے میں تحقیق کے دوران مجھے محمد بن قطب الدین الازنیقی ؒ(المتوفی ۸۸۵) کے ایک رسالے کا ۲۵صفحات کا مخطوطہ ہاتھ لگا جس میں مصنف نے اصطلاح اہلِ تصوف، علم و معرفت کےمعنی اور ادراک حقیقتِ ذات باری تعالی پر بڑی جامعیت اور عمدگی سے لکھا ہے۔اس قول کے متعلق وہ لکھتے ہیں:انہ وقع فی اوراد المشائخ الکبار الثقات، وارباب القبول والتفات ” سبحانک ما عرفناک حق معرفتک” فبعض من الناس نسب قایلہ الی الخطاء والخطل وبعض الی الکفر والزلل نعوذ باللہ من لفظتہم الشغاء ومن مقالتہم النکراء عفا اللہ عنہم۔ بڑے ثقہ مشائخ اور مرجع الخلائق اصحاب کے اوارد میں یہ قول وارد ہے کہ’’ سبحانک ماعرفناک حق معرفتک‘‘(پس بعض لوگوں نے اس قول کے قائل پر غلطی کرنے اور لغو اور مہمل کلام کرنے کا حکم لگایا ہے اور بعض نے تو کفر اور گمراہی کا فتوی لگایا ہے۔ اللہ تعالی کی پناہ ان لوگوں کے ناہموار کلام سے اور ان کی سخت کلامی سے ۔اللہ پاک ان سے در گزر فرمائے ۔)
اس رسالے کے ایک فصل میں امام ابو حنیفہؒ کے اس قول ’’ ماعبدناک حق عبادتک ولکن عرفناک حق معرفتک‘‘ (جو زیر تحقیق قول کے بالکل برعکس ہے)کو بھی تحقیق کا محور بنایا ہے اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ان دونوں اقوال میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں دونوں اپنی جگہ درست ہے، لفظا اگر چہ دونوں اقوال متضاد ہیں۔لیکن مفہوم اور معنی کے اعتبار سے ثقہ مشائخ کا مقولہ ’’ماعرفناک حق معرفتک‘‘ اور امام ابوحنیفہؒ کا مقولہ ’’عرفناک حق معرفتک ‘‘ میں کوئی تضاد نہیں اس رسالہ میں انہوں نے دونوں اقوال کی معنا اور مفہوما عمدہ تطبیق کی ہے۔ حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب ’’ کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون‘‘ میں بھی دو مقامات پر اس رسالے کا تذکرہ کیا ہے ، ایک مقام پر ’’رسالۃ فی شرح سبحانک ما عرفناک حق معرفتک وتحقیقہ‘‘ (کشف الظنون،ج۱؍۸۷۱) کےنام سے اس رسالے کاتذکرہ کیا ہے جبکہ دوسرے مقام پر ’’الرسالۃ فی المعرفۃ ‘‘ ( کشف الظنون،ج۱؍۸۹۲) کے نام سے ذکر کیا ہے ۔
میں نے اس قول کی تحقیق کے لیے روح المعانی کے تحقیق وتخریج شدہ ایڈیشنوں کی ورق گردانی کی مگر وہاں بھی اس قول کے متعلق ان تحقیق نگاروں کو عاجز پایا ۔موسسۃ الرسالۃ بیروت کے محقق نسخہ کے تحقیق نگار فاضل محقق ماھر حبوش نے (سورۃ آل عمران آیت ۱۴۵)کے ضمن میں بطور حدیث مذکور اس قول کے حاشیہ میں لکھا ہے’’ لم نقف علیہ ہے‘‘ ہمیں یہ قول (بطور حدیث کے) نہیں ملا۔ (علامہ الوسی، روح المعانی،تحقیق ماھر حبوش، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ج۵ ص ۳۶طبع ۲۰۱۰ء )
اسی طرح سورہ الحج آیت ۷۴ کے ضمن میں بھی علامہ الوسیؒ نے اس قول کو بطور حدیث کے ذکر کیا ہے۔فرماتے ہیں:وھذا ھو المراد فی قولہ علیہ الصلوۃ والسلام سبحانک ماعرفناک۔۔۔الخ اس کی تحقیق وتخریج فاضل محقق محمد معتز کریم الدین نے کی ہے انہوں نے بھی اس قول کے حاشیہ میں ’’ لم نقف علیہ ‘‘ہمیں اس قول کا سراغ نہ مل سکا۔لکھا ہے۔ (علامہ الوسی، روح المعانی،تحقیق محمد معتز کریم الدین،موسسۃالرسالۃ، بیروت، ج ۱۷ص ۴۱۴ طبع ۲۰۱۰ء)
الاستاذ سید عمران کی تحقیق سے مزین نسخہ جو’’ المکتبۃ الوحیدیۃ پشاور‘‘ نے شائع کیا ہے اس میں انہوں نے مناویؒ کے فیض القدیر کا حوالہ دیا ہے جیسا کہ قبل ازیں ذکر ہوا اور لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند معلوم نہیں ۔
میرامن نے ’’باغ وبہار‘‘ میں اس کو حدیث قرار دیا ہے معروف ادیب ومحقق رشید حسن خان اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:پہلے مصرع میں ’’میں نے پہچانا نہیں‘‘سے واضح طور پر مراد ہے اس مشہور قول سے ’’ ماعرفناک حق معرفتک ‘‘ میرامن نے اس قول کو قول پیغمبر یعنی حدیث بتایا ہے۔ (مرزا رجب علی بیگ سرور نے بھی دیباچۂ فسانہ عجائب میں بہ ذیل حمد اس قول کو حدیث لکھا ہے۔” جس کی شان میں مخبر صادق ﷺ یہ فرمائے، دوسرا اس عہدے سے کب بر آئے: ماعرفناک حق معرفتک‘‘)شیخ سعدی نے گلستان کے دیباچے میں لکھا ہے:’’عاکفان کعبہ جلالش بہ تقصیر عبادت معترف کہ ما عبدناک حق عبادتک۔ واصفان حلیۂ جمالش بہ تحیر منسوب کہ ماعرفناک حق معرفتک۔‘‘( گلستان، بہ تصحیحِ عبدالعظیم گرگائی، طبع ایران) سعدی نے جس طرح ان اقوال کو لکھا ہے، اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ قول پیغمبر یعنی حدیث نہیں اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔میں کوشش کے باوجود یہ معلوم نہیں کرسکا کہ یہ کس کا قول ہے۔بہ ظاہر یہ کسی صوفی کی کہی ہوئی بات معلوم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی ( استاد شعبہ اردو، بنارس یونی ورسٹی) نے میرے خط کے جواب میں لکھا تھا:’’ماعرفناک حق معرفتک کے سلسلے میں آپ کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے، لیکن یہ کہ یہ کس کا قول ہے؟ اس کی تحقیق کی میں نے کوشش ضرور کی، لیکن مجھے اس میں کام یابی نہیں ہوئی۔ میں کسی قدر اس کی تفصیل عرض کیے دیتا ہوں۔جلال الدین سیوطیؒ نے الجامع الصغیر میں حروف تہجی کی ترتیب سے مشہور احادیث وآثار کے ابتدائی ٹکڑے نقل کرتے ہوئےان کے ماخذ کی نشان دہی کی ہے، اس کتاب میں یہ قول مذکور نہیں۔شمس الدین سخاوی نے ’’المقاصد الحسنہ ‘‘میں مشہور اقوال وآثار جمع کیے ہیں پھر ان کے حدیث، اثر یا قول ہونےکی تحقیق کی ہے۔اس میں ماعرفناک الخ کا ذکر نہیں۔ملا علی قاری نے’’ تذکرۃ الموضوعات ‘‘میں ان تمام اقوال کو بڑی حد تک جمع کر دیا ہے جن کے بارے میں ’’ حدیث‘‘ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے حالانکہ وہ حدیث نہیں ہیں۔ لیکن زیر بحث قول ان کے یہاں بھی موجود نہیں۔البتہ ایک دوسرا مشہور قول ’’من عرف نفسہ فقد عرفہ ربہ ‘‘ موجود ہے اور اس کے بارے میں یہ تصریح کی ہے کہ یہ حدیث نہیں بلکہ یحیی بن معاذ الرازی کا قول ہے۔قرآنِ پاک کی ایک آیت ہے’’ وما قدروا اللہ حق قدرہ‘‘ (سورۂ زمر) یہ خیال آیا کہ ممکن ہے اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں کسی مفسر نے متذکرہ بالا قول نقل کیا ہو، چنانچہ متقدمین میں حافظ ابن کثیر کی تفسیر ابن کثیر اور متاخرین میں علامہ آلوسی کی روح المعانی دیکھ ڈالیں، لیکن ان میں بھی اس کا پتا نہ چلا۔[اگر چہ روح المعانی میں دومقامات پر بطور حدیث کے یہ قول علامہ آلوسیؒ نے نقل کیا ہے ۔جیسا کہ قبل ازیں آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں ۔فارانی ]جرمن مستشرقین کی ایک جماعت نے احادیث کے دس مشہور مجموعوں کا اشاریہ تیار کیا ہے، احتیاطاً اسے بھی دیکھ لیا۔آیندہ اگر کہیں اس کا سراغ مل گیا تو ان شاءاللہ لکھ بھیجوں گا۔‘‘ (باغ وبہار از میرامن، تحقیق رشید حسن خان ص۳۹۲۔۳۹۳)
علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں اس قول کو بطور حدیث کے ذکر کیا ہے جیسا کہ اوپر آپ پڑھ چکے ہیں ان کے تلمیح نگارڈاکٹر اکبر حسین قریشی لکھتے ہیں: یہ جملہ حدیث کی حیثیت سے مشہور ہے لیکن احادیث کے کسی مجموعہ میں نہیں ملا۔(مطالعۂ تلمیحات واشارات اقبالؒ از ڈاکٹر اکبر حسین قریشی،انجمن ترقی اردو (ہند) علی گڑھ، ص:۱۱۰)فضل الہی عارف نے بھی’’ تلمیحاتِ اقبال‘‘ میں اس کو کسی بزرگ کا مقولہ قرار دیا ہے۔(ص: ۶۷)
۲۰۔ علامہ اقبال، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور، ۱۹۵۹ء، ص؍۲۰۶
۲۱۔ علامہ اقبال، بانگ درا، کتب خانہ حمیدیہ دہلی، ۱۹۹۰ء ص: ۷۷
۲۲۔ حدیث ’’ لولاک لما خلقت الافلاک ‘‘ کو علامہ صغانیؒ نے موضوعات ص:۵۲میں، حافظ ابن الجوزیؒ نے کتاب الموضوعات۱؍۲۸۸ میں، حافظ ابن تیمیہؒ نے مجموع الفتاوی ۲؍۱۸۱۔۱۸۵میں، علامہ شوکانیؒ نے الفوائد الجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ۱۰۸میں حافظ ذہبیؒ نے تلخیص المستدرک ۲؍۶۱۵میں، حافظ ابن عراق ؒ نے تنزیہ الشریعہ۱؍ ۳۲۴ میں اور علامہ عبدالحئی لکھنویؒ نے الآثار المرفوعہ۴۴، میں من گھڑت قرار دیا ہے۔ مگر یہ کہ ملاعلی قاریؒ اور بعض دیگر علماء نے اس حدیث کے معنی کی صحت کا دعوی کیا ہے، شیخ الحدیث جامعہ مظاہر علوم سہارنپور حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ نے اپنی کتاب ’’الیواقیت الغالیۃ فی تحقیق وتخریج الاحادیث العالیۃ‘‘میں متعدد مقامات پر حدیث لولاک کے بارے میں تحقیقی انداز سے لکھا ہے ۔یہاں پر اسی کتاب سے ایک جامع بحث ’’حدیث لولاک ‘‘ کے متعلق پیش ہے ۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ لکھتے ہیں:
’’ حدیث لولاک‘‘ بلفظہ کہیں نہیں ملتی، اسی لئے حسن بن محمد صغانی لاہوریؒ نے اس کو موضوع کہا ہے، لیکن ملا علی قاریؒ اور اسماعیل بن محمد عجلونیؒ کہتے ہیں کہ اس کے معنی صحیح ہیں، عجلونیؒ کہتے ہیں: ’’ اقول: معناہ صحیح وان لم یکن حدیثا‘‘۔ میں کہتا ہوں اگرچہ یہ حدیث نہیں لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔اور ملا علی قاریؒ نے اس کے معنی کی صحت کا اس لئے دعوی کیا ہے کہ متعدد روایتوں میں یہ مضمون وارد ہوا ہے، بندہ کی معلومات میں یہ مضمون حضرت ابن عباس و عمر و حضرت سلمان رضی اللہ عنہم کی روایتوں میں وارد ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث جس کو حاکم نے ’’ المستدرک ‘‘میں ’’ فلو لا محمد ماخلقت آدم ولولا محمد ماخلقت الجنۃ ولا النار‘‘کے الفاظ سے وارد ہے، روایت کی ہے، حاکم کہتے ہیں:’’ ھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘۔[اس حدیث کی سند صحیح ہے۔] لیکن حافظ ذہبیؒ نے ان پر نقد کیا ہے اور فرماتے ہیں: ’’ أظنہ موضوع‘‘۔ [میرا گمان ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔]اور’’میزان الاعتدال ‘‘میں اس روایت کے راوی عمرو بن اوس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: ’’ یجھل حالہ والخبر منکر، واظنہ موضوع‘‘[عمرو بن اوس مجہول الحال ہے، اور خبر منکر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ من گھڑت ہے۔]اور حافظ ابن حجرؒ نے’’ لسان المیزان‘‘ میں اس پر (حافظ ذہبیؒ کے قول پر) کوئی نقد نہیں کیا ہے۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث طبرانیؒ نے ’’معجم صغیر‘‘میں اور حاکمؒ نے ’’مستدرک ‘‘میں اور بیہقیؒ نے ’’ دلائل النبوۃ‘‘ میں روایت کی ہے، اور اس میں’’لولا محمد ماخلقتک ‘‘کے الفاظ وارد ہیں۔ حاکمؒ کہتے ہیں: ’’صحیح الاسناد‘‘۔ [اس کی سند صحیح ہے۔]لیکن ذہبیؒ ان پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ بل موضوع‘‘۔ بلکہ یہ من گھڑت ہے۔اور اس کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق لکھتے ہیں: ” واہٍ” یعنی بہت ضعیف ہیں، اور عبداللہ بن اسلم فہری کے متعلق فرماتے ہیں:’’ لاادری من ذا؟‘‘[ معلوم نہیں یہ کون ہے۔]اور میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں:’’ خبر باطل، و راواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ‘‘۔ [یہ خبر باطل ہے اور بیہقی نے اسے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے۔]حافظ ابن حجر نے ’’لسان المیزان ‘‘میں ذہبیؒ کا کلام نقل فرمایا ہے، لیکن اس پر بھی کوئی نقد نہیں کیا۔
اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی حدیث ابن الجوزیؒ نے ’’کتاب الموضوعات ‘‘ میں راویت کی ہے اور ان کے الفاظ ’’لولاک یامحمد ما خلقت الدنیا‘‘۔ ہیں فرماتے ہیں:’’ ھذا حدیث موضوع لاشک فیہ، وفی اسنادہ مجھولان وضعفاء، قال الدار قطنی: ابو السکین ضعیف، وابراہیم بن الیسع ویحیی البصری متروکان‘‘۔[اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ حدیث من گھڑت ہے اور اس کی سند میں مجہول وضعیف راوی ہیں، دار قطنی فرماتے ہیں کہ ( اس حدیث کی سند میں) ابو سکین ضعیف ہے اور ابراہیم بن یسع و یحیی بصری متروک ہیں۔]
اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ یہ روایت محدثانہ حیثیت سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی، مگر ملا علی قاریؒ کے سامنے چونکہ ان راویات کی اسانید نہیں ہیں، اسی لیے انہوں نے ’’حسن ظن بالمخرِجین‘‘ [حدیث راویت کرنے والوں کے بارے میں حسن ظن]کرتے ہوئے حدیث مشہور کی صحت کا دعوی کردیا، اور جن حضرات نے بھی صحت کا دعوی کیا ہے ان کو بھی یہی صورت پیش آئی، یا پھر ملا علی قاری پر اعتماد کیا۔
(جونپوری، مولانا محمد یونس،’’الیواقیت الغالیۃ فی تحقیق وتخریج الاحادیث العالیۃ‘‘، انگلینڈ، مجلس دعوۃ الحق،ج؍۲ص:۲۰۴۔۲۰۵)
۲۳۔علامہ اقبال ’’بانگِ درا ‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۱۹۹۳، ص ۱۴۶
۲۴۔علامہ اقبال، بال جبریل ، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ص :۳۴
۲۵۔علامہ اقبال ، بالِ جبریل ، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ص:۸۲
۲۶۔علامہ اقبال ، بالِ جبریل ، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ص:۶۷
۲۷۔علامہ اقبال، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، شیخ غلام علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور، ۱۹۵۹ء، ص؍۲۰۶
۲۸۔مولانا ظفر علی خان،بہارستان، اردو اکیڈمی پنجا ب لوہاری دروازہ لاہور،۱۹۳۷ء،ص؍۳۲
Comments are closed.