بالادستی کی خواہش

از: محمد اللہ قیصر
انسانی طبیعت تعلی کی طرف مائل ہوتی ہے، بالادستی کی خواہش انسانی فطرت کا حصہ ہے، اور کائنات کی تسخیر اس کا مطمح نظر ہے، وہ دریا، سمندر پہاڑ، شجر، و حجر، حیوانات اور انسان ہر ایک کی طاقت اپنی مٹھی میں قید کرنا چاہتی ہے، اس کی آرزو ہوتی ہے کہ ہر کسی پر غلبہ حاصل ہو، اس کی یہی چاہت زندگی میں نوع بہ نوع ترقی کے دروازے کھولتی ہے، انسان رفتار پر قابو پانے کیلئے نکلا تو اس نے پہیے ایجاد کرلئے، ہواؤں پر حکمرانی کے خواب نے اسے گھوڑے سے اٹھا کر ہوائی جہاز پر بٹھا دیا، پانی پر قابو پانے کی تمنا ہوئی، تو جہاز رانی کر نے لگا اور اس سے آگے بڑھ کر پانی کو قید کرکے،اسے الیکٹرک کی طاقت ہاتھ لگ گئی، جس سے اس نے اپنا گھر، آنگن روشن کر لیا، وہ کارخانوں اور فیکٹریوں میں، بڑی بڑی مشینیں چلانے لگا، جدید ترین ٹیکنالوجی کی تلاش نے زندگی کا ہر کام آسان کردیا، ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، لیکن اس ضرورت کے احساس کے پیچھے بھی ایک قوت کارفرما ہوتی ہے، وہ ہے "غلبہ کی چاہت”، غلبہ کی چاہت پہلے سے موجود ہوتی ہے، اور ضرورت کا احساس اس "چاہت”کو دو آتشہ کرتا ہے، پھر جب انسان ضرورت کی تکمیل کو سہل کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی فطرت میں پیوست "حصول غلبہ” کا ارمان، اس کے حوصلے بڑھاتا ہے، کہتا ہے : آگے بڑھو، سب ممکن ہے، مشکل کو ممکن کا عنوان دیکر قوت فکر و عمل کو مہمیز کرتا ہے، اس طرح نئے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں، فطرت کو مسخر کرنے کی چاہت نے ہی امیدوں کے دئے روشن کئے،سامنے نئے آفاق نظر آئے، ضرورتوں کے تکمیل کی تسہیل کے ارمان جاگے، پھر خواہشات بھی ضروریات میں تبدیل ہوتی گئیں، اس طرح دھیرے دھیرے زندگی کے ڈھنگ ہی بدل گئے، بالادستی کی خواہش نے اس کی زندگی سہل اور رنگین کردی، پوری دنیا کو ایک گاؤں اور محلہ میں بدل دیا، اپنے جیسے انسانوں پر غلبہ و حکمرانی کی خواہش نے حکمرانی اور اس کی بقاء کے نت نئے طریقے ایجاد کرائے، تفوق کی چاہت اور بالادستی کی خواہش کا یہ مثبت پہلو ہے۔
اس کا مثبت پہلو جتنا حسین، امید افزاء، اور مفید ہے، اس کا منفی پہلو اتنا ہی ڈراونا، بھیانک، اور شر انگیز ہے، تفوق کے شوق کی کوکھ سے بے شمار معرکے وجود میں آئے، اور کشتوں کے پشتے لگ گئے، ، اپنے جیسے انسانوں پر فوقیت کی آرزو نے انگڑائی لی تو خون کی ندیاں بہہ گئیں، جس طرح انسانی زندگی کو سہل اور حسین بنانے کے وسائل سے دنیا متعارف ہوئی، اسی طرح انسانی جانوں کے اتلاف اور خدا کی بنائی ہوئی اس حسین دنیا کو تباہ و برباد کرنے کے نت نئے وسائل وجود میں آئے، حضرت انسان نے اپنے جیسوں پر برتری ثابت کرنے کیلئے "ایٹم بم” بھی بنالیا، ماحولیات میں اتھل پتھل ہونے لگی، بے شمار بیماریاں وجود میں آئیں، اندرون زمین پانی کی سطح گرنے لگی، چرند، پرند، حتی کہ سمندر کے جانور بھی مشکلات سے دوچار ہونے لگے۔
تفوق و بالادستی کی خواہش کا توازن اگر برقرار رہے تو اس کے مثبت نتائج نکلتے ہیں، طبعیات پر غلبہ کی آرزو مفید ایجادات و اختراعات کا سبب بنتی ہے، اور ہم جنسوں پر فوقیت کی "متوازن اور محدود خواہش” دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھتی ہے، نیز طرز زندگی کی ترقی و خوشحالی کا سبب بنتی ہے، لیکن اگر توازن بگڑ جائے، یہ خواہش حد سے تجاوز کر جائے، تو ایک طرف طبعیات میں چھیڑ خانی کے سبب "قدرتی لائف سپورٹ سسٹم” بگڑنے لگتے ہیں، چناں چہ نیچر”پر غلبہ کی حد سے زیادہ کوششوں کے نتیجہ میں زمین سے متصل آسمانی پرت”اوزون” میں شگاف پڑ گئے، تو سمندری طوفان، حد سے زیادہ بارش، غیر متوازن موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی رونما ہورہی ہیں، ” دوسری طرف انسانیت کو نقصان پہنچانے والی ایجادات روزبہ بروز ظہور میں آرہے ہیں، تو قتل و غارت گری ، انسانی جانوں کا اتلاف اور سماجی انتشار بھی روز مرہ کی کہانی ہوگئی ہے۔
بالادستی، اور فوقیت کی بے جا خواہش صرف قوموں اور ملکوں کی تاراجی کا سبب نہیں بنتی، یہ سماج کی سب سے چھوٹی اکائی "خاندان” کو بھی تباہ کردیتی ہے، سماج میں ہر چھوٹی بڑی لڑائی کے پیچھے آخرکار اسی "بالادستی کی جنگ” کا ہاتھ ہوتا ہے، ہر شخص دوسرے پر فوقیت ثابت کرنا چاہتا ہے، "میں تم سے بڑا ہوں” کی صدا، ہر سمت اور ہر دم گونج رہی ہے، بالخصوص جب سے سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی دلوں میں "دولت کی اہمیت” بٹھائی ہے، پورا سماج اسی فانی دولت کے بل بوتے اپنے آس پاس رہنے والوں کو ایسے ہڑپ لینا چاہتا ہے جیسے "شارک” دوسری چھوٹی مچھلیوں کو، انسان جب تک کسمپرسی کی زندگی گذارتا ہے، وہ تواضع و انکساری کا مجسمہ محسوس ہوتا ہے، لیکن چند پیسے ہاتھ لگتے ہی” انا ربکم الاعلی” کا اعلان کردیتا ہے، دوسرے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو محاذ آرائیوں کا دور شروع ہوجا تا ہے، اس طرح آج کا سماج ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا حصہ بن گیا ہے، کہیں سرد جنگیں چل رہی ہیں، تو کہیں اعلانیہ مقابلہ آرائی کا دور جاری ہے، ہر طرف ایک آگ لگی ہے، سماج اس آگ میں جل بھن رہا ہے۔
بالا دستی کی متوازن خواہش کو "امنگ” "حوصلہ” بلند ہمتی” "خود اعتمادی”جیسے الفاظ سے تعبیر کر سکتے ہیں جبکہ اسی خواہش میں توازن ختم ہو جائے اور وہ حد سے تجاوز کرنے لگے تو وہ "بڑائی” "خود پسندی” "گھمنڈ” اور "تکبر” کی سرحد میں داخل ہوجاتی ہے۔
دین اسلام کی خاصیت ہے کہ وہ فطرت کے تقاضوں کو مکمل دباتا نہیں، اور حد سے تجاوز کی اجازت بھی نہیں دیتا، بلکہ اعتدال کے ساتھ اس کے تکمیل کی مکمل چھوٹ دیتا ہے ، اور چونکہ انسانی عقل اپنے فطری تقاضوں کے حدود اربعہ متعین کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے اسلئے ارشادات و ہدایت کے ذریعہ حد بندی کرتا ہے کہ کہاں تک اجازت ہے اور کہاں سے راستہ مسدود، مثلا خواہشات نفسانی کے تکمیل کی حد ہے، "شرعی نکاح” اگر اس کی تکمیل بیوی کے ساتھ ہو تو جائز، لیکن غیر کے ساتھ ہو تو حرام ہے، پہلی صورت میں "نفسانی خواہش حد میں رہ کر پوری جارہی ہے اور دوسری صورت میں حد سے متجاوز ہے۔
اسی طرح بالا دستی کی خواہش انسانی فطرت کا تقاضا ہے، شریعت میں اس کی بھی سرحدیں مقرر ہیں، چناں چہ حیوانات و جمادات، اور طبعیات میں غور و فکر کرکے، قانون فطرت کو سمجھ بوجھ کے معیار زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے والے وسائل کے ایجاد و اختراع کی اجازت ہے لیکن ایسی ایجادات جن سے دوسروں کو نقصان پہونچنے کا اندیشہ ہو، یا خود استعمال کرنے والوں کو روحانی یا جسمانی طور پر تباہی کا خطرہ ہو، مفید ہونے کے بجائے ہلاکت خیز ہو تو وہ کلیۃ منوع ہیں، ”
وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖالبقرة آیت ١٩٥
(اور مت ڈالو اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں۔)
اس کے علاؤہ آلات لہو و لعب، اور دیگر وسائل معاصی کی ایجاد و صنعت ممنوع قرار دی گئی ہے،
ۘ وَتَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ ۖ المائدة ٢
(اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو.)
اسی طرح طبعی طور پر انسان دوسروں پر غلبہ کی کوشش کرتا ہے، تو غلبہ کی کوشش سے اسلام روکتا نہیں، بلکہ حوصلہ بڑھاتا ہے، ایک دوسرے سے بڑھنے کیلئے "تنافس”، اور "غبطہ” کی اجازت بھی دیتا ہے، جائز حدود میں رہتے ہوئے، کسی فرد یا جماعت کو نقصان پہونچائے بغیر، "شریعت کی نظر میں جائز وسائل” کا استعمال کرتے ہوئے، اگر وہ تفوق اور غلبہ کا خواب دیکھتا ہے، تو ممنوع نہیں، دین اس سے نہیں روکتا، بلکہ یہ کوشش اگر اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے ہو تو نور علی نور، وہ باعث اجر و ثواب بن جاتی ہے، ”
وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ ۞ آل عمران ١٣٩
(اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے)
سربلندی، تفوق،اور غلبہ کا وعدہ کیا جا رہا ہے، جو انسان کی خواہشات کا حصہ ہے، لیکن شرط لگادی گئی ہے کہ ایمان ضروری ہے، اس کے برعکس غلبہ کی یہی کوشش اگر فتنہ و فساد، ظلم وبربریت اور سماجی انتشار، اور آپسی تنازعات کے سائے میں ہو، تکبر، اور حقد و حسد تک پہونچ جائے تو دین اس سے روکتا ہے۔
وَلَا تَمۡشِ فِى الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَلَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا ۞ الاسراء ٣٧
(اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکو گے۔)
اکڑ کے چلنا بھی تعلی کا اظہار ہے، ارد گرد والوں کو اپنی بڑائی، اور فوقیت کا احساس دلانا ہے، جسے ممنوع قرار دیا گیا، فوقیت کی کوشش الگ چیز ہے اور اللہ کے بندوں کو اپنی فوقیت کا احساس دلانا الگ، بڑا بننے اور دوسروں کو بڑائی کا احساس دلانے میں فرق ہے، جتنی بلندی پر جانا چاہیں، اجازت ہے، لیکن بندگان خدا کو اپنی بلندی کا احساس دلانا، ان کے دلوں میں اپنی عظمت بٹھانا، انہیں اپنی بڑائی قبول کرنے پر مجبور کرنا تکبر کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ممنوع ہوجاتا ہے۔
Comments are closed.