سعودی عرب کے علماء وخطباء کا غیر علمی رویہ

از: محمد اللہ قیصر
حکومت سعودیہ کی وزارت برائے اسلامی امور کا فرمان جیسے ہی جاری ہوا، وہاں کے ائمہ و خطباء نے تبلیغی جماعت پر تہمتوں کی بارش کردی، قبوری، منحرف، بدعتی داعی الی الشرک اور نہ جانے کیسے کیسے الزامات تھوپ دئے، جن کا اہل تبلیغ سے دورکا واسطہ بھی نہیں، بلکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے، اہل تبلیغ ان خرافات کے خاتمہ کے لئے اور لوگوں کو ان مفسدات سے بچانے کے لئے نکلتے ہیں۔ خالص علمی پیمانہ پر دیکھا جائے تو بھی سعودی ائمہ و خطباء کا رویہ انتہائی غیر علمی اور مایوس کن ہے۔
ہو نا یہ چاہئے تھا کہ ہدایات ملنے کے بعد یہ ائمہ و خطباء اہل علم و نظر کے یہاں رائج طریقے اختیار کرتے ہوئے، مسئلہ کی تحقیق و تنقیح کرتے، پہلے تبلیغی جماعت کا کام سمجھتے، ان کے افکار و نظریات ، اور اصول کار پر غور کرتے، ان کے اعمال و افعال کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتے، ان کے نظام اور میدان عمل کا جائزہ لیتے پھر اگر کچھ تبصرہ کرتے، تو وہ اہل علم کی نظر میں اہمیت کا حامل ہوتا، یہ سوالات یا الزامات علمی ہوتے، ان میں ذرہ برابر سچائی ہوتی تو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھ کر کچھ کہنے کی گنجائش تھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معاملہ بالکل برعکس ہے، سوال ہے کہ اس جماعت کا کون سا عقیدہ یا عمل ہے جو “انحراف “کے ضمن میں آتا ہے؟ کب انہوں نے کسی تبلیغی کو “قبر” پر سجدہ ریز ہوتے اور، اپنی حاجت روائی کی دعا مانگتے دیکھ لیا؟ وہ بدعات کیا ہیں جو اہل تبلیغ کی زندگی میں نظر آرہی ہیں؟ توحید کے بجائے شرک کی دعوت دیتے ہوئے کہاں مل گئے؟ یا جماعت تبلیغ کے اکابر کی کس کتاب میں یہ خرافات انہیں مل گئیں؟ تین دن، دس دن” یا چلہ بدعت کیوں ہے؟ کس نے کہہ دیا کہ وہ شریعت کا حصہ مان کر اختیار کرتے ہیں، کیا شریعت نے کسی کام کیلئے اپنی سہولت کے مطابق “نظام عمل” وضع کرنے اور اسے اختیارکرنے کی اجازت نہیں دی ہے؟ اگر اہل تبلیغ نے بہ طور “نظام تبلیغ”چلہ وغیرہ اختیار کرہی لیا تو اس میں کون سے شرعی قباحت آگئی؟
رہی یہ بات کہ علم دین سے ناواقف افراد تبلیغ کیلئے نکلتے ہیں، تو اس بنیاد پر کسی جماعت کو گمراہ قرار دینے کا مطلب ہے کہ جماعت کے کام اور ان کے میدان عمل سے واقف نہیں، انہیں سمجھنا ہوگا کہ ہندستانی مسلمان مشرکین کے درمیان رہتے ہیں، ان کی روز مرہ کی زندگی مشرکین اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان گذرتی ہے، ہر دن، ہر گھڑی مشرکانہ اعمال، اور رسوم و رواج اور ہندوانہ تہذیب و ثقافت کی علامات سے ان کا سابقہ پڑتا ہے، جس کی وجہ سے توحید و رسالت کی اہمیت اور دیگر مذہبی عقائد سے ناواقف رہنے والوں کے دلوں میں شرکیہ اعمال کی قباحت اس درجہ نہیں رہتی جس درجہ ایک مسلم ملک میں رہنے والے مسلمان کے دل میں شرک سے نفرت ہوتی ہے، ایسی صورت میں دینی علوم سے واقف یا دینی ماحول میں رہنے والے تو ان برائیوں سے بچ جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کی زندگی خالص ہندوانہ ماحول میں گذرتی ہے، وہ محفوظ نہیں رہ پاتے، بسا اوقات ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ ( ناقابل قبول ہونے کے باوجود) مشرکانہ عمل پر بظاہر مجبور نظر آتے ہیں، کبھی اخلاقی مجبوری پیش آجاتی ہے، اس طرح وہ مختلف قسم کے دین مخالف رسوم رواج میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔
ہندستان میں بعض علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمان”کلمہ توحید “سے بھی نابلد ہیں، ماحول میں یہ قوت ہے کہ چشم زدن میں انسان بلندی سے پستی میں گر جاتا ہے، ایمان مخالف ماحول میں کوئی بھی انسان مفسدات سے متاثر ہو سکتا ہے،خود عرب ممالک کی صورت حال پر نظر دوڑائیں، خالص توحید کے ماحول میں پلنے بڑھنے والے عرب، ہندستان آتے ہیں، چند دنوں رہتے ہی “نمستے” اور “نمشکار” شروع کردیتے ہیں، کیا یہ درست نہیں کہ انہوں نے بھی مغرب کی چمک دمک دیکھی تو اس حیاء سوز تہذیب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے، کیا انہوں نے بزنس کلچر کے نام پر مغرب کی ایمان سوز حرکات کو نہیں اپنایا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عربوں کے یہاں مغرب سے درآمد کئے جانے والے دین مخالف عادات و تقالید کا چرچا عام ہو رہا ہے؟ انہیں “ہالی ووڈ” اور ” بالی ووڈ” کی دلربائی للچا رہی ہے؟ انہیں زمانہ سے ہم آہنگ ہونے کی فکر ستارہی ہے؟ شراب و شباب پر وہ مٹے جارہے ہیں، پھر ہندستان کا مسلمان اگر مشرکانہ ماحول سے متاثر ہوتا ہے تو اس میں حیرت انگیز کیا ہے، عوامل و اسباب اتنے ہیں کہ جب تک ایمان کی فکر نہیں ہوگی شرکیہ رسوم و رواج سے بچنا تقریبا ناممکن ہے، ماحول سے متاثر ہونے والے عموما دینی تعلیمات اور ان کی اہمیت سے نا آشنا ہوتے ہیں، جہالت کی وجہ سے توحید و رسالت اور آخرت پر ایمان کسی حد تک کمزور ہوتا ہے، ایمان کے تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتے، تبلیغی جماعت ایسے ہی ناواقف، جہالت کے شکار اور دین سے دور ہوتے مسلمانوں کو جہنم سے بچانے کے لئے ، انہیں دین سے قریب کرنے کے لئے، ان کی دینی تربیت کےلئے، شرک کی قباحت اور توحید کی اہمیت سے آشنا کرنے کےلئے، ان کے گھر جاتے ہیں، دینی جذبہ بیدار کرتے ہیں، اور انہیں اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ دین کی بنیادی تعلیمات سے واقفیت کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکلیں، دین کی فکر رکھنے والوں کے ہمراہ، مخصوص دینی ماحول میں چند ایام گذارکر اپنا دینی احساس بیدار کریں۔
انسان دوسروں کو خدا سے قربت کی دعوت دیتا ہے، تو اس کا اپنا ضمیر بیدار ہوتا ہے، دینی احساس دو چند ہوتا ہے، روحانی شعور میں اضافہ ہوتا ہے، وہ جب دوسروں کو خدا کی طرف بلاتا ہے تو اس کا ضمیر کہتا ہے کہ “تو بھی تو چل” اس طرح بندہ خدا سے قریب اور بہت قریب ہوتا چلا جاتا ہے، کیا ان مسلمانوں کو ان کے خالق سے قریب کرنا گناہ ہے؟ یا ان ائمہ و خطباء کو یہ چڑ ہے کہ “سوئے مغرب عربوں کے روحانی سفر” میں یہ جماعت خلل پیدا کر رہی ہے،عرب حکام و سلاطین کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے آگے سرینڈر کئے بغیر ترقی ممکن نہیں، ان کے نزدیک خدا و رسول سے بغاوت میں کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے (نعوذ باللہ)، شریعت محمدیہ سے پیچھا چھڑانا وقت کا تقاضہ ہے، اور اہل تبلیغ لوگوں کے گھر گھر جاکر بتاتے ہیں کہ خالق کائنات اور محسن کون و مکاں سے دوری کرنے والی ترقی پر ہزار لعنت، وہ انہیں سکھاتے ہیں کہ دینداری کی “خشک روٹی” بے دینی کے “حلوے” سے بدرجہا بہتر ہے، نبی امی صلیاللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ثابت قدمی کی قیمت اگر دشواریوں سے گھری زندگی ہے، تو وہ بھی دل و جان سے قبول ، اس کے سامنے وہ پر تکلف عیش و آرام ہیچ ہے جو اس شریعت سے محروم کردے۔
اگر یہ قریب سے دیکھتے تو پتہ چلتا کہ اہل تبلیغ اپنے معروف اصول سے تجاوز بھی نہیں کرتے، وہ تفسیر، اصول تفسیر، روایت حدیث ، اصول حدیث، فقہ و فتاوی، اور علم کلام کیلئے علماء سے ہی رجوع کرتے ہیں، دین کی بنیادی فکر پیدا کرتے ہیں، وہ یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے دین کی عائد کردہ ذمہ داری پوری کرنا آپ کا فریضہ ہے، رہی بات کہ دین کے تقاضے کیا ہیں، اس کی تفصیل کے لئے علماء سے رجوع کریں، وہ یہ سمجھتے بھی نہیں کہ “لا إله إلا الله” کا معنی “لا معبود إلا الله “ہے” یا لاخالق إ لا الله” ہے، وہ تو علماء سے کلمہ توحید کا لفظی ترجمہ “نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے” سنتے ہیں، پھر یہی دوسروں کو سنادیتے ہیں، وہ علم کلام کے فلسفیانہ مباحث میں پڑتے ہی نہیں، وہ سیدھے سادے طور پر لوگوں کو توحید و رسالت اور ایمان کے بنیادوں تقاضوں کی تکمیل پر ابھارتے ہیں، مقصد حیات پر فلاسفہ کے اقوال بیان نہیں کرتے، وہ حدیث پاک “ألا لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ منكمُ الغائِبَ” (سن لو! جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو (,علم) پہنچائیں) پر عمل کرتے ہوئے، علماء سے جو کچھ سنتے ہیں اس میں کمی زیادتی کئے بغیر اوروں کو پہونچا دیتے ہیں، خلاصہ یہ کہ وہ اتنے محدود دائرے میں گفتگو کرتے ہیں کہ غلطی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں، یہ بھی نہیں ہے کہ وہ دین کا کوئی نیا فلسفہ پیش کر رہے ہیں، جس سے دین میں “احداث” کا امکان ہو۔
ہاں وہ انسان ہیں، یقینا غلطیاں بھی ہوئی ہیں لیکن وہ ایسی نہیں کہ ان پر انحراف، گمراہی، بدعت، اور شرک جیسے سنگین الزامات تھوپ دئے جائیں۔
اہل تبلیغ کے چھ اصول بیت معروف ہیں۔ کلمہٴ (١)طیبہ لا اِلٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ (۲) نماز (۳) علم وذکر (۴) اکرام مسلم (۵) اخلاص نیت (۶) ( دعوت و ارشاد کیلئے) تفریغ وقت، یہ ہیں ان کے اصول ستہ، ان میں کیا خرابی ہے؟ یہ شریعت کے کس حکم سے متصادم ہیں؟ اہل تبلیغ کلمہ توحید سے نا بلد مسلمانوں کو کلمہ سکھاتے ہیں، خود نماز کی پابندی کرتے ہیں، اور دوسرے بھائیوں کو نماز کا پابند بنانے کی فکر کرتے ہیں، اکرام مسلم ان کی نس نس میں شامل ہوتا ہے، جو سماجی امن و امان کی مضبوط ترین بنیاد ہے، کیا دین سے انجان کو تعلیمات نبوی سے آگاہ کرنا کوئی جرم ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ سوال تو ان سے ہونا چاہئے کہ کسی شرعی مسئلہ میں حقیقت سے واقفیت کے بغیر کوئی حکم لگانا جائز ہے؟ کسی دلیل شرعی کے بغیر صرف بادشاہ وقت کے حکم پر حلت و حرمت کا فتویٰ صادر کرنا کس فقہ میں درست ہے؟ یہ خطباء مساجد حکومت کے ترجمان ہیں یا دین کے نقیب، آج بادشاہ نے ” ، اشاعت دین کا بیڑا اٹھانے والی ایک جماعت”پر پابندی کا حکم دیا تو آیات واحادیث سے زبردستی استدلال کے سارے رکارڈ توڑتے ہوتے، “بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے، تہمتوں کی بارش کرتے ہوئے، “بچو بچو” کی رٹ لگانے لگے، کل اگر اسی جماعت کو اجازت مل گئی تو “جواز” کیلئے کن آیات و احادیث کا انتخاب کریں گے؟
دوٹوک الفاظ میں امت کے نمائندوں کو ان کی مذمت کرنی چاہئے، یہ ائمہ و خطباء اپنی نوکری بچانے کیلئے یہود و ہنود اور نصاری کے مہنتوں کی راہ پر چل پڑے ہیں، یہ خدا و رسول کے فرمان پر حکام و سلاطین کے فرامین کو فوقیت دیتے ہیں، حق گوئی و بیباکی ان سے رخصت ہو چکی ہے، زوال امت کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہے۔
Comments are closed.