تبلیغی جماعت کے ذریعے میرے خاندان کے امن پسند سے دہشتگرد،حق پرست سے گمراہ ہونے تک کی کہانی

مشتاق ندوی
چند روز قبل سعودی حکومت نے تبلیغی جماعت پہ پابندی لگاتے ہوئے اعلان جاری کیا کہ یہ ایک دہشتگرد جماعت ہے،اس کے افراد شرک و گمراھی کی دعوت دیتے ہیں،قبروں کے پجاری ہیں،لہذا ان کی نقل و حرکت پہ پابندی عائد کی جاتی ہے،مساجد کے اماموں کو بھی اس جماعت کی خطرناکی سے ممبر کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کرنے کا حکم نامہ جاری ہوا۔۔
اس اعلان کے جاری ہوتے ہی سوشل میڈیا پر سعودی حکومت کے اقدام کی حمایت یا مذمت میں تبصرے ہونے لگے،بر صغیر کے اکثر سلفی حضرات حسب عادت حکومت کے اس اقدام کی بھی حمایت کرتے ہیں،اور اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ تبلیغی جماعت ایک دہشتگرد،شرک و بدعت کی دعوت دینے والی،قبر پرست اور گمراہ جماعت ہے۔
میرا خاندان تبلیغی جماعت سے عرصہ دراز سے جڑا ہوا ہے،آئیے دیکھتے ہیں کہ اس گمراہ اور دہشتگرد جماعت نے ہمیں کتنا گمراہ کیا اور کیسی کیسی دہشتگردی سکھلائی۔
میرے داداجی نے عمر کی دسویں دہائی میں قدم رکھ دیا ہے،ان کی پیدائش 1925 سے 1930 کے درمیان ہوئی،یہی دور تبلیغی جماعت کی ابتداء کا ہے،مولانا کاندھلوی اپنے چند میواتی ساتھیوں کے ساتھ میوات کے گاؤں گاؤں جاکر لوگوں کو ضروریات دین سے آگاہ کرنے لگے۔
دین سے کلی ناواقفیت کی وجہ سے داداجی کا نام بدھ budh سنگھ رکھا گیا،اور چھوٹے دادا کا نام ادے سنگھ uday singh،،میوات میں بچوں کے نام عام طور پر اسی طرح کے رکھے جاتے تھے،صرف نام ہی نہیں گھروں کا ماحول بھی ہندوؤں جیسا تھا،ہر گاؤں سے بیس بیس میووں کی ٹولیاں رام لیلا میں شریک ہوتیں،کنواں پوجن جیسی شرکیہ رسوم دھوم دھام سے منائی جاتیں،منتیں مانی جاتی کہ لڑکا ہوا تو اجمیری بابا پہ بکرا چڑھاکر آئینگے،پورے تزک و احتشام کے ساتھ تعزیے منائے جاتے(اس سلسلے میں حضرت تھانوی کا ایک ملفوظ بہت مشہور ہے)،غرض میووں کے پاس حقیقی اسلام کا کچھ نہیں تھا سوائے اس کے کہ خود کو مسلمان کہتے تھے،مزید برآں ہندو مہاسبھا کی طرف سے چلائی گئی ملک گیر شدھی تحریک نے بھی بڑا نقصان کیا،نیز ریاست الور اور بھرتپور کے راجائوں نے تقسیم کے وقت بزور طاقت مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوشش میں ہزاروں میووں کو تہ تیغ کیا،یعنی داداجی اس پر آشوب اور جہالت بھرے ماحول میں جوان ہوئے جس میں دین و جان دونوں کا بچانا مشکل تھا۔
گاؤں کے ایک صاحبِ چلہ لگا چکے تھے،انہوں نے فرمان رسول *فلیبلغ الشاھد الغائب*(جس تک دین کی بات پہنچے وہ دوسروں تک بھی اسے پہنچائے) اور حضرت جی کی تلقین پہ عمل کرتے ہوئے گاؤں کے نوجوانوں کو جماعت میں چلنے کی تشکیل کی۔
داداجی بتاتے ہیں کہ تقریباً 12 لوگوں پر مشتمل جماعت میوات سے مرکز نظام الدین کے لئے روانہ ہوئی،وہاں سے مراد آباد کا رخ ملا،اور جماعت کے ساتھی پا پیادہ منزل کی طرف چل پڑے،بچپن سے رام لیلا اور مہابھارت کی سمجھ میں نہ آنے والی کہانیاں سننے والوں نے جب صحابہ کے ایمان افروز واقعات سنے،قرآن کی صاف ستھری باتیں سیکھی،رسول اللہ کی پاک سیرت دل و دماغ کو موہنے لگی،تو دل نے کہا زندگی میں دین نہیں تو کچھ بھی نہیں،لہذا من لگاکر دین سیکھا، چلہ پورا ہوا تو واپسی ہوئی،مگر اس نیت کے ساتھ کہ خود بھی دین سیکھنا ہے،اور اولاد کو بھی سکھانا ہے
بڑے ابو کو کئی کلومیٹر دور کھنڈیولا نامی گاؤں میں کسی میاں جی کے پاس قرآں پڑھنے کے لئے بھیجنے لگے،ان کی تعلیم ناظرہ قرآن کریم تک محدود رہی،ابو اور چچا جی بھی تقریباً اتنا ہی پڑھ پائے۔۔۔
وقتاً فوقتاً چلے لگتے رہے چار مہینے بھی کئی لگے،دل نے کہا اولاد میں کوئی حافظ عالم اور دین کی صحیح سمجھ رکھنے والا ضرور ہونا چاہئے،ایک قابل افسوس واقعے نے بھی اس عزم کو تحریک دی، بیٹوں میں سے تو کوئی حافظ یا عالم نہیں بن سکا،پوتے پڑھنے کے قابل ہوئے تو پہلی فرصت میں انہیں مدرسے میں داخل کیا،یہ ابتدا تھی کہ ہمارے گھر کا تعلق دین اور علم دین سے جڑا اور پختہ ہوتا چلا گیا،گوتم بدھ کے نام پہ نام رکھے جانے کے بجائے اصحاب رسول کے نام پہ نام رکھے جانے لگے،رام لیلا میں سیتا رام کے ونواس کی کہانی سن کر رو دینے والے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی زندگی پہ آنسو بہانے والے بن گئے،کل جن کے نام تک اسلام کے مطابق نہیں تھے آج ان کی اولاد میں کئی کئی حافظ و عالم پیدا ہوگئے،مستورات بھی قرآن و حدیث کے علم سے آراستہ ہیں،وہ منظر دیکھنے کے لائق ہوتا ہے جب صبح گھر میں سورہ یاسین کی تلاوت گونجتی ہے،ایک وقت وہ تھا کہ کوئی صحیح اسلامی نام رکھنے والا نہیں تھا ایک وقت یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد دین و ضروریات دین سے واقف۔۔۔۔بلکہ ایک مدرسے کے بھی ذمےدار۔۔
خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
یہ ہے وہ بدلاؤ جو بقول سعودی حکومت و سلفی حضرات اس جماعت کے ذریعے آیا جو دہشتگردی سکھلاتی ہے،قبر پرستی کی تلقین کرتی ہے، صرف میرے نہیں میوات کے ہر گھر کا کم و بیش یہی ماجرا ہے۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ فرمان ابن سلمان کتنا صحیح ہے کتنا غلط؟
Comments are closed.