٢٠٢١ء میں وزیراعظم کے پانچ غیر حقیقی بیان  

 

محمد صابر حسین ندوی

 

ملک ہندوستان کی تاریخ میں وزیراعظم نریندر دامودر داس مودی ایک نایاب نہیں تو کم یاب شخصیت ہیں، آزادی ہند کے بعد اور آئندہ بھی ان جیسا سیاست دان ملنا مشکل ہے، وہ اپنے آپ میں ایک ٹرینڈ، رواج، تہذیب، سچائی اور کل فی الکل ہیں، ان کا موازنہ فی الوقت کسی سیاست دان سے نہیں کیا جاسکتا؛ بلکہ بہت سی چیزوں میں وہ نہرو اور اندرا گاندھی سے بھی آگے نکل چکے ہیں، شہرت، چالبازیاں، سیاست کی باریکیاں اور عوام کی کمزور نبض ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا، کب رونا ہے، کب ہنسنا اور ہنسانا ہے، کب سوٹ بوٹ پہننا ہے، کب جوگی کا لباس پہن کر کیمرے سے کے سامنے آنا ہے، کب لِٹّی چوکھا کھانا ہے، کب ٹرائبس کی ڈشیں کھانی ہیں اور کب اعلی قسم کے کھانے میز پر رکھنا ہے، سب کچھ وہ اس قدر خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ کرتے ہیں کہ دشمن بھی داد دینے سے نہ چوکے؛ بالخصوص کب کیا بولنا ہے؟ یہ ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا، اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات کتنی سچی اور کتنی جھوٹی ہے؟ وہ اب اس پوزیشن پر ہیں کہ ان کے منہ کی کڑواہٹ بھی شہد سے زیادہ مٹھاس رکھتی ہے، لوگ یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ ان کے کہے جانے سے عوام کا کیا فائدہ ہے اور کیا نقصان ہے؟ بعض چیخنے چلانے والے واویلا کرتے رہتے ہیں، مگر یہ ایسا ہے کہ گویا سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے رہ جانا، ویسے تو ان کی پوری زندگی اس دائرے میں حیران کن انکشافات رکھتی ہے؛ لیکن یہاں ٢٠٢١ء کے پانچ اہم بیان/ واقعے نقل کئے جاتے ہیں جن کا سچائی سے تعلق اتنا ہی ہے جتنا سکندر اعظم کا عظیم آباد (پٹنہ) جانا۔

١- مودی جی جملے پھینکنے میں اس قدر ماہر ہیں کہ لوگوں کو یقین نہیں آتا کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ، مگر ٹکنالوجی کے دور میں اب ہر چیز پکڑ میں آجاتی ہے، وزیراعظم نے اس سال ١٥/ اگست کو لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکزی حکومت اس سال سو لاکھ کڑور کی یوجنا لائے گی، جس کے ذریعے بے روزگاری اور دیگر فلاحی کام کئے جائیں گے، یہ بیان جس شد مد سے دیا گیا، وہ درحقیقت سچائی سے اسی قدر دور ہے، ٹھیک اس کے ایک سال پہلے ٢٠٢٠ ء میں ١٥/ اگست کے موقع سے انہوں نے کہا تھا کہ ایک سو دس لاکھ کروڑ کا بجٹ لایا جائے گا، اور اس سے پہلے ٢٠١٩ء میں سو لاکھ کروڑ کی بات کہی تھی، جبکہ حقیقت یہ ہے جو ان سرکاری ویب سائٹ پر بھی موجود ہے کہ ٢٠٢١ اور ٢٠٢٠ء کیلئے تیس لاکھ تینتالیس ہزار کڑور کی یوجنا بنائی گئی تھی، جس میں ضرورت کی بنا پر کچھ اضافہ بھی ہوا تھا، اس کی پوری تفصیل RTI کے ذریعہ لی جاسکتی ہے۔

٢- اس سال چین کا مسئلہ گرمایا رہا، چین نے ہندوستان پر چڑھائی کی ہے، کئی فوجیوں کو بھی مارا اور ملک کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا، یہ باتیں باقاعدہ امریکی نیوز ایجنسیاں بتارہی تھیں، انہوں نے سیٹلائٹ سے تصاویر لیں اور شائع کرتے ہوئے ہندوستان کو خبردار کیا تھا کہ چین اترانچل میں کالونیاں بنا چکا ہے، Ndtv نے بھی یہ بات ہندوستانی نقشے کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مکمل رپورٹ تیار کی تھی، اور ایک سبز نقطے پر انگلی رکھ بتلایا تھا کہ یہ ہندوستانی نقشے میں شامل ہے؛ لیکن یہاں پر اب چینی کالونیاں موجود ہیں جو پہلے نہیں تھیں، ملک میں اپوزیشن نے اس مدعی کو خوب اٹھایا، مگر کسی نے ایک نہ سنی، اور ٢/ جولائی ٢٠٢١ء کو مودی جی نے قومی خطاب میں اس سے صاف انکار کردیا کہ چین نے کوئی در اندازی کی ہے، انہوں نے کہا کہ نہ کوئی آیا ہے نہ کوئی گھس آیا ہے، یہ بیان کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ اپوزیشن نے بتلایا کہ چین نے اس بیان کو سامنے رکھتے ہوئے مزید در اندازی کی ہے، کالونیاں مستقل تعمیر ہورہی ہیں؛ کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ ملک کا وزیراعظم اپنی حیثیت برقرار رکھنے کیلئے عوام کو کبھی بھی سچائی نہیں بتائے گا۔

٣- وزیر اعظم یوں تو بہت سے ایسے بیان دیتے ہیں جو ناقابل فہم ہوتا ہے، اب ایک ہی شخص اپنی زندگی میں کتنے مراحل سے گزرے گا کہ وہ جہاں جائے وہیں کوئی اس کا متعلق نکل آئے، بنارس میں انہیں ماں گنگا نے بلایا تھا، علی گڑھ میں ان کے والد آیا کرتے تھے اور ان کا بھی تعلق تھا، ایک زمانے تک انہوں نے بھکشا (بھیک مانگنا) لیکر گزارا کیا ہے، کبھی سالوں تک اسٹیشن پر چائے بیچی تھی، اسی دوران ایم اے بھی کرلیا، افف!! حد تو یہ ہے کہ جب ١٥/ نومبر کو مدھیہ پردیش گئے تو ٹرایبس کے دوران یہ کہنے لگے کہ انہوں نے زندگی کا ایک حصہ ٹرائبس کے ساتھ گزارا ہے، خیر یہ تو ان کی ذاتی زندگی ہے مگر اس کے علاوہ ملک کے حق میں ایک بہت بڑی بات کہی گئی تھی کہ ویکسین کیلئے لاکھوں کڑوروں روپے خرچ کیے گئے ہیں، اب اس میں جھوٹ کیا ہے، یقیناً کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں مگر لاکھوں کڑوروں نہیں کیے گئے، مودی جی نے الفاظ کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے اور اپنا قد بڑھا کر پیش کیا ہے؛ کیونکہ RTI سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انہوں نے صرف چھیالیس کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔

٤- جملے بازی کا سب سے اہم دور انتخابات کا ہوتا ہے، ان دنوں اترپردیش میں انتخابات کی جنگ جاری ہے، یوگی آدتیہ ناتھ کی گاڑی میں ہندوازم کا پیٹرول ہے، اس کے علاوہ ان کے پاس ایسا کچھ نہیں جس کو دکھا کر ووٹ مانگ سکیں، چنانچہ جب اشتہار کی باری آئی تو کبھی چین کی ترقی یافتہ عمارتوں کا استعمال کیا گیا تو کبھی بنگال کی صاف وشفاف سڑکیں دکھا کر لوگوں کو رجھانے کی سعی گئی، بڑی بات یہ ہے کہ اعلی اخبارات جن پر لوگوں کا بھروسہ ہے، ایک خطیر رقم جن پر خرچ ہوتی ہے، ان کے پہلے صفحے پر اس طرح کی واہیات شائع کی گئیں، اسی سلسلے میں مودی جی نے ایک بہت بڑی بات کہی، ١٥/ جولائی ٢٠٢١ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش نے جس طرح کورونا وائرس کا مقابلہ کیا ہے وہ – ابھوت پوروا – ہے؛ یعنی نایاب ہے، قابل تعریف ہے، حالانکہ کہ دنیا نے دیکھا کس طرح ایک لڑکی اپنے والد کیلئے اسپتال کے باہر تڑپتی رہی؛ لیکن اسے آکسیجن نہ ملا، ایک اعلی طبقے کی خاتون انتظامیہ کے پیر پڑنے لگی مگر اسے بنیادی چیزیں میسر نہ ہوئیں، چنانچہ علاج اور آکسیجن تو کبھی ڈاکٹروں کی کمی کی بنا پر ہزاروں لوگ مر گئے، جن پر کوئی شنوائی نہ ہوئی؛ حتی کہ افسوس کا ایک جمل تک نہ کہا گیا، سب سے زیادہ دل اندوز بات کہ گنگا ندی میں سینکڑوں لاشیں تیرتی ہوئی دیکھی گئیں، جنہیں کورونا کے بعد یونہی پھینک دیا گیا تھا، جب انہیں گنگا کنارے دفن کیا گیا اور ان پر زعفرانی رنگ کی چادر ڈالی گئی تھی؛ تاکہ ایک علامت رہے، چونکہ وہ علامت بہت زیادہ نمایاں نظر آتی تھی، میڈیا والے اس پر کیمرے لے جاتے اور رپورٹس تیار کرتے، یہ دیکھ کر ان قبروں پر پڑی چادر تک نکلوا دی گئی، اس کے باوجود یوگی کی تعریف کی گئی۔

٥- بنگال میں ہی انتخابات کے دوران ایک دلچسپ چیز دیکھنے کو ملی، ویسے تو یہ پورا انتخابی مہم ہی تاریخی ہے، جس میں عوام اور ملک کی ترقی کو نظر انداز کیا گیا، عین کورونا وائرس کی دوسری لہر میں جب کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے تو وزیراعظم اور پوری دلی سرکار وہاں ریلیاں کر رہی تھی اور ممتا بنرجی کو شکست دینے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہی تھی، شکر ہے کہ وہاں عوام نے انہیں دھول چٹادی، اس دوران ہی مودی جی کی تصویر کے ساتھ ایک اشتہار شائع ہوا تھا، اس میں ایک خاتون لکشمی نامی کی بھی تصویر تھی، دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ پردھان منتری اواس یوجنا کے تحت اس خاتون کو اور ساتھ ہی چوبیس ہزار لوگوں گھر بنوا کر دیا گیا ہے، جب جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس خاتون کو اس کے بارے میں کچھ پتہ بھی نہیں ہے، اور وہ اس وقت پانچ سو روپے دے کر ایک کرائے کے گھر میں رہتی ہے ؛ بہرحال مودی جی ایک جادوئی شخصیت کے مالک ہیں، ان سے کچھ بھی بعید نہیں ہے، اب یہی ہندوستان کی سیاست ہے اور یہی جمہوری تماشا اور ہم سب تماشائی یا تماشہ بین ہیں۔

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.