اترپردیش میں ٹکراؤ کی سیاست

 

محمد صابر حسین ندوی

 

 

سیاست پر دو ٹوک رائے قائم کرنا کوئی عام بات نہیں، بالخصوص ہندوستان کی کثیر آبادی، مختلف جماعتیں اور انتخابات کے طرز وطریقے، ہندو مسلم، سکھ عیسائی اور خارجی عناصر کے درمیان کسی ایک رائے اور جماعت کو مکمل حمایت دے دینا کھیل نہیں ہے، اس وقت ہندو اور ہندوتوا، ہندو اور مسلم، ہندو اور دلت کی نامعلوم جنگ میں پوراملک سلگ رہا ہے، سیاست کے ماہرین نے ایسا اسٹیج سجا دیا ہے کہ پوری آبادی اس تماشہ کا حصہ بن گئی ہے، فی الحال سب سے بڑا میدان اترپردیش ہے، اتر پردیش کے انتخابات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، یہ مرکزی حکومت کی پہلی سیڑھی ہے، اگر یہاں کوئی جماعت پچھڑ جائے تو پھر اس کیلئے مرکز میں جگہ بنانا مشکل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت سارے سیاسی گروہ وہیں پر براجمان ہوگئے ہیں، یوگی آدتیہ ناتھ کی حالت دگر گوں ہے، صرف ہندوازم کے نام پر چار سال گزارنے کے بعد اب فلاحی کاموں اور دیگر رفاہی پروجیکٹ کی شروعات کی جارہی ہے، جن میں زیادہ تر کام اور منصوبے گزشتہ سرکار کے ہیں، اکھیلش یادو لگاتار کہہ رہے ہیں کہ یوگی جی صرف پھیتا کاٹنے یا سنگ بنیاد کی تجدید کرنے میں لگے ہوئے ہیں، مگر یوگی جی جانتے ہیں کہ ابھی جو کچھ ہے وہ سب سمیٹ لینا ہے، جس کیلئے وزیراعظم مودی جی کو دعوت دی گئی ہے، وہ دہلی چھوڑ کر ہمیشہ کی طرح چناوی راجیہ میں پیر گاڑ چکے ہیں. اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ٢٠١٩ء میں مرکزی انتخابات اور اب یوپی کے انتخابات میں بہت سی چیزیں مشترک پائی جارہی ہیں؛ بلکہ اس دفعہ ہندوتوا کا ڈوژ بڑھا دیا گیا ہے، مودی جی اور وزیر اعلی نے یہ صاف کردیا ہے کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹ کی چنداں حاجت نہیں ہے، اس لیے ان کے سارے دورے ان علاقوں میں کئے جارہے ہیں جہاں ہندوؤں کی کثرت ہے یا پھر انہیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔

مودی خاص طور پر بنارس میں ہندوؤں کو لبھانے میں لگے ہوئے ہیں، کبھی گنگا میں ڈوبکی لگاتے ہیں، آرتی پوجا کرتے ہیں، تو کبھی جوگی کے لباس میں ماتھے پر تلک لگا کر بھگوان کی جے جے کر تے ہیں، انہیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ وہ سیکولر ملک کے وزیر اعظم ہیں، جس ملک کا سرکاری طور پر کوئی دھرم نہیں ہے، نیز انتخابی نعروں میں مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنا، ان سے خوف دلانا، تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا بھی شامل ہے، اس وقت بی جے پی کے اکثر وبیشتر سیاست دان اسی کام لگے ہیں، امت شاہ کی ریلیاں ٹیلی کاسٹ کی جاتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک سماج کو دھمکی دے رہے ہیں، انداز، ہاؤ بھاؤ سے کہیں تک یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ بھی سیکولر ملک کے گرہ منتری ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ سیکولرازم ایک دھوکا ہے؛ لیکن اس دھوکے کو مخفی رکھاجاتا رہا ہے، اب یہ حال ہے کہ اعلی و ادنی ہر گروہ اور شعبے سے اسے علی الاعلان ظاہر کیا جاتا ہے، اسی کا رد عمل ہے کہ دوسری ذاتیں اور قومیں بھی بڑھ چڑھ کر اسی روش کو اختیار کر رہی ہیں، ان میں مسلمانوں کو بھی شمار کرنا چاہیے! اترپردیش میں بعض جماعتوں کے سینئر سیاست دان جس طرح مسلم علاقوں میں جا کر خطابات کر رہے ہیں، مسلمانوں کو زبردستی کی بیساکھی تھما رہے ہیں، تن مردہ میں جان ڈالنے اور بے شعوری میں شعور یا شاید جنون کی باتیں کر رہے ہیں؛ اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے، ان دونوں کے درمیان تقابلی جائزہ لیا جائے تو یقیناً یہ کہا جاسکتا کہ ملک ایک نئی کروٹ لینے کو ہے، سیاست میں اتھل پتھل اور اترپردیش کے نتائج کا اعلان ایک نیے سیاست کی راہ کھولے گا، سیکولزم تو پہلے ہی سے منہ کی کھا چکا ہے، اب رہی سہی جمہوریت بھی بے یار و مددگار ہوجائے گی۔

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.