تبلیغی جماعت، سعودی عرب اور علماے ہند و عرب کا کردار

ڈاکٹر عمیر انس
تبلیغی جماعت پر سعودی بیان پر گفتگو بے سود ہے۔ میں آپ کی توجہ دوسرے پہلو کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، عالم اسلام میں ہندوستانی علماء کا مقام اور مرتبہ سعودی علماء سے کہیں زیادہ ہوا کرتا تھا، سعودی عرب میں اسلامی علوم اور تعلیم تو پیٹرول کی آمد سے ہوئی ہے ورنہ شام، ترکی، مصر، اور ہندوستان ہی علوم اسلامی کے بڑے مراکز ہوا کرتے تھے، ہندوستانی علماء عالمی سیاست میں گہرا اثر رکھتے تھے، لیکن آج ہندوستانی علماء عالمی اسلامی برادری میں اپنا مقام اور اثر کھو چکے ہیں، چند ایک علماء کو چھوڑ دیا جائے تو اسلام کی ترجمانی کا کام مکمل طور پر مصر اور خلیج کے علماء کرتے ہیں، ہندوستانی علماء کسی معاملے پر کیا رائے رکھتے ہیں اس بات سے لبنان بحرین جیسے چھوٹے چھوٹے ملكوں کے مولویوں کو بھی فرق نہیں پڑتا، میں یہ نہیں کہتا کہ عرب ممالک کے علماء میں علم اور فضل نہیں ہے لیکن بیس کروڑ کی آبادی والے مسلم معاشرے کے علماء کی اور ان کی آراء کی کوئی حیثیت نہیں ہے میں اس بات سے بہت مایوس رہتا ہوں، استنبول میں ایک اسلام پسند ہیں، اسلامی امور پر کافی سیمینار کرتے ہیں، میں چار سال پہلے ان سے ملا اور میں نے پوچھا آپ کو کیوں لگتا ہے ہندوستان سے اسلام ختم ہو چکا ہے، کہنے لگے ہرگز نہیں، میں کہا تو آپ اپنے پروگراموں میں دنیا بھر کے علماء کو بلاتے وقت ہندوستانی علماء کو بلانا کیوں بھول جاتے ہیں، میں ان صاحب کی کسی کانفرنس میں آج بھی نہیں جاتا، کیوں کہ ان کے تصور کے عالم اسلام میں ہندوستانی مسلمان موجود ہی نہیں ہیں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس وقت عالم عرب انگریزوں کے جوتے کھارہا تھا تو ہندوستانی علماء سر بکف حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے انگریزوں سے لڑ رہے تھے، اور آج اگر ان عربوں کو ہندوستانی علماء کی حرمین شریفین کے لیے پیش کی گئی قربانیاں یاد نہیں ہیں تو ایسے عرب صرف احسان فراموش ہی نہیں بلکہ بد قسمت بھی ہیں، اور اہل عرب کا غرور اور انکی ناشکری کا عالم خلیج میں رہنے والی مسلمانوں سے بہتر کون جانتا ہوگا! ہندوستانی علماء کی کمزوری کی اس بڑی دلیل ہو گی کہ پانچ ہزار سے زیادہ مدرسے، ہزاروں فارغین اور اساتزہ ہونے کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوستانی سیاست بلکہ عالمی سیاست جانب سے عربی میں کوئی ذکر کام نہیں کیا گیاہے، اگر مدارس کی تعلیم صرف میلاد شریف پڑھنے اور نجاست کے آداب بتانے کے لئے ہے لئے مدارس کی کیا ضرورت ہے، اس کام کے لئے تو اب انٹرنیٹ پر سیکڑوں ایپس ہی کافی ہیں، فارغین ندوہ کو تو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ محض انصاف پسند برادران وطن کی تحریروں کا ہی عربی میں ترجمہ کردیتے، تو ظاہر ہے کہ مدارس اور ان کے علماء نے اپنے لئے جس کنارہ کشی کا انتخاب کیا ہے وہی انہیں حاصل ہو رہا ہے۔
عالم اسلام میں علمائے ہند کا وقار اور عالمی دبدبہ کیوں ختم ہوا؟
پہلی وجہ، ہندوستانی علماء جو پہلے اپنی عظیم تصنیفات اور اجتہادات کے لیے معروف تھے ساٹھ ستر سالوں سے وہ صرف چندہ جمع کرنے والوں کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، اور اس چندہ جمع کرنے کی انڈسٹری نے علماء کے وقار کو ختم کر دیا ہے، اس انڈسٹری نے تین خطرناک کام کیے، پہلا یہ کہ ہندوستانی علماء زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کرنے کے لیے ایک دوسرے مکتبہ فکر کے خلاف عرب علماء کو بد ظن کرنے لگے، آپ اگر گلف میں بیٹھے کئی ہندوستانی علماء کی حرکتیں دیکھیں تو شرمندہ ہو جائیں گے کہ انہیں علماء نے کبھی دیوبند کے خلاف، کبھی اہل حدیث کے خلاف، کبھی تبلیغ اور کبھی جماعت اسلامی کے خلاف گلف میں مہم چلائیں، اور آج سارے مکتبہ فکر سعودی حکومت کے سامنے ذلیل ہیں، جو نہیں ہیں ان کی باری آنے میں زیادہ وقت نہیں بچا ہے، دوسرا اثر یہ ہوا کہ ہندوستانی علماء نے علم کے بجائے اپنی ذاتی مملکتیں بنائیں، اور اپنی ذاتی دوستیاں اور ذاتی رسوخ قائم کیا، اور انہوں نے اپنے ذاتی رسوخ کو بنائے رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی حرکت کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا، گلف میں بیٹھے ایک دو مولویوں کی حد سے زیادہ گھٹیا تقریریں سن کر تو ایک عام انسان کو قے ہو جائے، اور یہ سب انہوں میں اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کے لیے کر رکھا ہے، آقا بدلا تو غلام بھی بدلے، تیسرا اثر یہ ہوا کہ خلیجی علماء نے علم و فضل اور تدبر و تفکر پر اسلامی علوم کے سیکھنے اور سکھانے میں ریاست کو خدا کے مقام پر فائز کر دیا، ریاست کے سربراہ کی رائے کے مطابق ان کے فتوے بدلتے رہے، اس سے اسلام کی تعبیر اور تشریح میں ریاست کی مداخلت کو جواز حاصل ہوا، اور ہندوستانی علماء نے نہ صرف اس مداخلت کو قبول کیا بلکہ اس سے ہونے والے وقتی فائدے اٹھانے کی فکر میں لگے رہے، محمد بن سلمان اور شاہ فہد میں اس معنوں میں کوئی فرق نہیں کہ دونوں اسلام کی تعبیر و تشریح کو ریاست کے حکمران کے مزاج گرامی پر منحصر بنا دیا تھا، اسلام کی تعبیر اور تشریح ایک آزادانہ ماحول میں علماء کے درمیان صحت مند بحث و مباحثہ اور علمی مذاکرات سے ہوناچاہیے، کسی بھی ریاست میں سبھی قسم کی اسلامی رایوں کو ظاہر کرنے اور انکو درست سمجھنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے، عملی مسائل میں ریاست سے مشاورت کے بعد ایک درمیانی بات پر متفق ہونا کو مشکل کام نہیں، عورت کا گاڑی چلانا اسلام کے خلاف ہے یہ فتویٰ کل بھی غلط تھا جیسے یہ فتویٰ غلط ہے کہ عورت گاڑی چلا سکتی ہے؛ کیوں کہ دونوں فتوے علمی دلائل کے بجائے ریاستی اقتدار کی خوشنودی کی وجہ سے دیے گئے، بہر حال ہندوستانی علماء کا جرم یہ ہےکہ وہ اس تبدیلی کو تسلیم کرکے اس سے فائدے اٹھاتے رہے، اب وہی نظام شیر بن کر آپ کو کاٹ رہا ہے تو آپ کو تکلیف ہو رہی ہے،
علماء ہند کا عالمی کردار ختم ہونے کی دوسری وجہ علمائے ہند کا عالمی سیاست کا غلط فہم ہے، استعمار کے خاتمے کے بعد والی دنیا پر علمائے ہند نے باقاعدہ مطالعہ کرنے اور اس کو سمجھنے پر توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا، وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہوئے کہ عالمی طاقت کا قبلہ بدل رہا ہے، عالمی طاقت کی تعریف اور اس کے مرکبات بھی بدل رہے ہیں، عالمی سیاست میں ہندوستانی علماء کے کرنے کے بہت سارے کام تھے اور بہت سارے امکانات تھے؛ لیکن وہ ان امکانات سے بے خبر رہے، مثلا ہندوستانی علماء نے مغربی دنیا سے، روس اور چین سے یہاں تک کی جاپان اور سینٹرل ایشیا سے بے توجہ رہے، ایک ایسے وقت میں جب علمائے ہند معمولی محنت سے امریکہ اور برطانیہ میں بڑے بڑے مراکز قائم کر سکتے تھے، وہاں مقیم ہو کر وہاں دعوت دین کا کام کر سکتے تھے۔ ہندوستانی علماء گلف ممالک کی طرف مبذول تھے، بلکہ عام مسلمانوں کو بھی گلف پر منحصر رکھنے میں مدد کی، آج امریکہ اور یورپ میں ہندوستانی مسلمان اور ہندوستانی علماء موجود ہی نہیں ہیں، وہاں مصر اور شام کے علماء گئے اور انہوں نے اپنا اثر قائم کیا اور اس کا فائدہ انہیں ہوا، یہ کیا کم حیرت کی بات نہیں کہ کبھی انڈونیشیا اور ملائیشیا تک اثر رکھنے والے ہندوستانی علماء کی رائے اب ان علاقوں میں بھی اپنا وزن کھو رہی ہے، اس پوری کمزوری کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ مدارس اسلامیہ نے چینی، انگریزی، جاپانی، اسپینش، جرمن، فرنچ پڑھانے سے زیادہ فارسی پڑھانا ضروری سمجھا، میں سمجھتا ہوں کہ اگر مدارس اسلامیہ ابھی بھی اپنے یہاں ان زبانوں کو پڑھانا شروع کردیں تو بہت کچھ نقصان کی تلافی ممکن ہے، اگر ہندوستانی فارغین مدارس یورپ اور امریکہ، روس اور چین، سینٹرل ایشیا کا رخ کریں تو وہ عالمی سیاست کو بہتر رخ دے سکتے ہیں، انہیں خلیجی ممالک کے تباہ ہونے تک خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے، مصر اور خلیج کے علماء اگرچہ وضو اور طہارت کے آداب بتانے میں کوتاہی نہیں کر رہے ہیں؛ لیکن ان کا ریاستی اقتدار کی خوشنودی کے لیے فتوے دینا سب سے بڑی مصیبت ہے،
آپ تبلیغی جماعت کے ناقد ہوں؛ لیکن میں اس بات کو غلط سمجھتا ہوں کہ ان کو صحیح کرنے کے لیے کوئی ریاستی ڈنڈا چلایا جائے، تبلیغی جماعت بلکہ ہر جماعت کی کمزوریاں دور کرنے کا اکیلا جائز راستہ معاشرے میں علماء کے درمیان صحت مند مذاکرات ہیں، علماء جتنے صحت مند طریقے سے سبھی مسائل پر علمی بحث کریں گے اسی سے معاشرہ اپنے آپ کو بدلے گا، لیکن اگر کسی فرقے کا عالم دوسرے فرقے کو ختم کرنے کے لیے ریاست کا استعمال، فوج کا استعمال یا غیر اخلاقی راستے اختیار کرےگا تو اللہ تعالیٰ اس فرقے اور جماعت کو بھی اسی طرح سے ذلیل اور رسوا کرےگا، آج جو لوگ سعودی عرب کے خلاف انتہائی بہادری سے زبان درازی کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ اسی سعودی حکومت کے کبھی دیوانے ہوا کرتے تھے، ان کی کل کی دیوانگی بھی غلط تھی اور آج ان کا سیاپا بھی، کل جن علماء نے سوڈان کے عمر البشیر کو اور پاکستان کے ضیاء الحق کو اسلامی حکمران قرار دیا تھا آج وہ تاریخ کے بے رحم فیصلے سے غلط ثابت کیے جا چکے ہیں، ایران میں اسلام کو ریاستی مصلحت کا غلام بنانے کا نتیجہ بھی وہی ہوا ہے جو خلیجی ممالک میں ہوا ہے، اس لیے علمائے ہند کے لیے زیادہ اہم غور و فکر کا موضوع تبلیغی جماعت پر پابندی نہیں ہونا چاہیے؛ بلکہ یہ بات ہو کہ خلیجی اور عرب علماء کا اپنی ریاستی مصلحتوں کے زیر اثر فتوے دینے کا رویہ حلال ہے یا حرام، جائز ہے یا ناجائز؟
اگر وقت رہتے ہندوستانی علماء نے مصری، خلیجی، اور دیگر عرب علماء کی گرفت نہیں کی اور ان کے باطل کو باطل نہیں کہا، اور اپنے ذاتی اور مسلکی مفادات کے لیے ان کی مجبوری ہے، مصلحت میں دیے گئے فتووں کی تائید کرتے رہے تو ہندوستانی مسلمان اور علماء دونوں کو بھی ایک دن اسی عذاب سے گزرنا ہوگا؛ لیکن اگر ہندوستانی علماء ایمانی جرأت کے ساتھ خلیجی علماء کا تعاقب کریں گے اور ضرورت پڑنے پر ان کے فتوے رد کریں گے تو یہ ان کی اصلاح کے لیے بڑا مناسب ہوگا۔
Comments are closed.