اترپردیش؛ اپوزیشن خالی ہاتھ ہے۔

محمد صابر حسین ندوی
جمہوری ملک میں اپوزیشن کا کردار سب سے زیادہ موثر ہوتا ہے، اگر ایک مضبوط اپوزیشن نہیں ہے تو اس کا مطلب وہ مضبوط جمہوری نظام نہیں ہے، افسوس کی بات ہے کہ اس وقت بالعموم اپوزیشن ناکارہ، نکما اور خالی ہاتھ ہے، ملک بھر میں ایک بھی مضبوط تحریک، جماعت اور کمیٹی نہیں ہے جس کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ موجودہ سرکار کے فیصلوں اور مجوزہ قوانین پر کڑی ٹکر دے رہا ہے، ان کو محاکمے پر مجبور کر رہا ہے، دستور کی بالا دستی اور زمینی حقائق رکھ کر سرکار کی چولیں ہلانے کی کوشش کر رہا ہے، سرکار کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ ذاتی مفاد سے اٹھ کر ملکی مفاد اور رفاہی کاموں پر دھیان دے، ہندو مسلم سے باز آئے اور ملک کی ترقی و تعمیر میں کردار ادا کرے؛ بالخصوص اترپردیش میں بھی کوئی بھی نہیں جس کیلئے افق صاف ہوتا دکھائی دے، اکھیلش یادو نوجوانوں کیلئے ایک پرکشش شخصیت ہیں، فی نفسہ ان سے اچھی امید رکھی جاتی ہے، پچھلا دور بھی بڑا نمایاں رہ چکا ہے؛ لیکن ان کی دقت یہ ہے کہ وہ خود اپنی خانگی زندگی سے پریشان ہیں، ملایم سنگھ اور ان کے چچا کی سوچ اور باہمی رسہ کشی ہر کسی کو معلوم ہے، گزشتہ دورانیہ حکومت میں انہوں نے یہاں تک اعتراف کر لیا تھا کہ وہ صرف ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے رہے اور گاڑی کوئی اور چلاتا رہا، اس کے علاوہ ان کے بولنے اور خطاب کرنے کا انداز بھی ہندوتوا کے سامنے پھیکا ہے، جس میں مدعی اور انداز دونوں شامل ہیں، معاشی نظام، سیاسی کمزوریاں اور دیگر اہم مدعا کو اٹھاتے اٹھاتے ان کی آواز بیٹھ جاتی ہے؛ نیز سیاسی سوجھ بوجھ میں نوعمری جھلکتی ہے، جس وقت انہیں سب سے زیادہ گٹھ بندھن کی ضرورت ہے وہ اسی وقت گٹھ بندھن سے دور بھاگ رہے ہیں، اور خود کو بنگال کی ممتا بنرجی سمجھ رہے ہیں، پورے یوپی میں اگر کوئی بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے تو وہ بلاشبہ اکھیلش ہی ہیں، مگر تن تنہا اس ڈگر کو عبور کرنا مشکل ہے، شاید انہیں لگتا ہے کہ بی جے پی کے تئیں لوگوں کا غصہ الیکشن میں ظاہر ہوگا، خاص طور پر مہنگائی، بدنظمی سے پریشان لوگ انہیں ووٹ دے دیں گے؛ لیکن وہ کتنے نادان ہیں! اتنی سی بات نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ اس وقت ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لوگوں کو پروپیگنڈوں میں الجھا دیا گیا ہے، ہندو راشٹر کے خواب نے سبھی کو سلا دیا ہے، اب ضرورت انہیں جھنجھوڑنے کی ہے، متحدہ محاذ تیار کرنے کی ہے۔
ان کے علاوہ مایاوتی ہیں، سچ کہا جائے تو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنی جماعت کا بیڑا غرق کیا ہے، مایاوتی مضبوط اور پاور فل وزیر اعلی رہ چکی ہیں، انتظام و انصرام میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے؛ لیکن ان کی عقل سیاست میں صرف مفاد دیکھتی ہے، تھالی کا بینگن بنی ہوئی کبھی اکھیلش تو کبھی مودی جی سے بغل گیر ہوتی ہیں، گزشتہ پانچ سالوں سے ان کی حیثیت نا کے برابر ہوچکی ہے، اگر خدا نخواستہ انہیں کچھ سیٹیں ملی بھی تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ضرور ہوگا؛ کیونکہ مایاوتی کئی مواقع پر علی الاعلان مودی جی کی حمایت کر چکی ہیں، دوسری طرف یہ ان کی ضرورت بھی ہے، دراصل یہ ڈوبتے کو تِنکے کا سہارا کی مانند ہے، ان دونوں کے علاوہ بقیہ جماعتیں انہیں دو ندیوں کی کیاریاں ہیں، جنہیں حکومت کے وقت ان میں ہی اپنا وجود خلط کر دینا ہے، اور اگر اس ندی تک نہ پہنچ سکے تو ان کا حال وہی ہوگا جو کہیں ٹھہرے ہوئے پانی کا ہوتا ہے، رہ گئی کانگریس! تو وہ اپنے وجود کیلئے لڑ رہی ہے، راہل گاندھی مودی جی کے سامنے اب بھی بہت چھوٹے ہیں، یوگی کی زعفرانیت بھی ان پر بھاری ہے، پرینکا گاندھی کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ وہ اندرا گاندھی جیسی دکھتی ہیں، مگر وہ ہے نہیں، اسی طرح اپوزیشن کے پاس یقیناً ایک سنہرا موقع تھا، کسان آندولن ان سب کیلئے میل کا پتھر ثابت ہوسکتا تھا، موجودہ سرکار یہ بات اچھی طرح جانتی تھی، انہیں معلوم تھا کہ اتر پردیش کی بڑی آبادی کسانی سے متعلق ہے، اگر کسان آندولن یونہی چلتا رہا تو ان کا دوبارہ حکومت میں آنا مشکل ہے، چنانچہ مودی جی نے اپنا سب کچھ ایک طرف رکھتے ہوئے اس آندولن کو ختم کروایا، کسانوں کی ہر بات مانی گئی اور انہیں گھر بھیج دیا گیا، اب بھی راکیش ٹکیت کہتے ہیں کہ وہ دورے کریں گے اور سرکار کے خلاف لوگوں کو بیدار کریں گے؛ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اب ان کے پاس کوئی مدعا نہیں رہ جاتا؛ بلکہ ممکن ہے کہ اس کا نتیجہ برعکس ہو، بہرحال اس قدم سے اپوزیشن کی ہوا اکھڑ گئی، فی الحال پورا اپوزیشن سکتے میں ہے، ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں، ان کے بیانات اور دورے بہت کچھ بتاتے ہیں، نتائج میں کوئی کرشمہ ہو جائے تو الگ بات ہے ورنہ قرائن تو کچھ اور ہی کہتے ہیں، بی جے پی نے اپنی ساری توانائی اترپردیش میں جھونک دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئی کرشمہ ہوتا ہے یا پھر زعفرانیت کا پرچم مزید بلند ہوا جاتا ہے۔
7987972043
Comments are closed.