تولیدی شرح میں گراوٹ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آبادی اور رقبے دونوں کے اعتبار سے ہندوستان کا شمار دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے، آبادی کی بڑھتی شرح کو قابو میں کرنے کے لیے یہاں حکومتی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی کے عنوان سے مختلف قسم کے پروگرام چلائے جاتے ہیں، ’’دو یا تین بچے، ہوتے ہیں گھر میں اچھے ‘‘اور ’’پہلا بچہ ابھی نہیں، تین کے بعد کبھی نہیں‘‘ کے نعروں نے انسانی ذہن ودماغ پر جو اثر ڈالا ہے، اس کے نتیجے میں مانع حمل ادویات کا استعمال بڑھاہے، خاندانی منصوبہ بندی کے دیگر ذرائع نے بھی سماج میں پکڑ بنالی ہے، جس کا نقصان دہ اثر یہ ہوا ہے کہ عورتوں کی تولیدی صلاحیت وشرح میں رکارڈ کمی درج کی گئی ہے، ایک ہے منصوبہ بندی کے ذریعہ آبادی کا کنٹرول، گویہ بھی غیر شرعی ہے اور اس کے اپنے نقصانات ہیں، اس کی وجہ سے معاشی پیداوار میں کام کرنے کے لیے ہمیں افراد نہیں مل رہے ہیں اور دوسرا ہے صلاحیتوں کا ختم ہوجانا، یہ زیادہ تشویشناک ہے۔
قومی خاندانی صحت سروے ۔۵(نیشنل فیملی ہیلتھ سروس ۔۵)کی رپورٹ کے مطابق ملک میں افزائش نسل کی مجموعی شرح (ٹی ایف آر)فی عورت ۲ء ۲ سے گھٹ کر ۰ئ۲ پر آگئی ہے ، اس رپورٹ کے تیار کرنے میں ملک کی چودہ ریاستوں اروناچل پردیش، چنڈی گڈھ، چھتیس گڈھ، ہریانہ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، دہلی، اڈیشہ،پڈوچیری، پنجاب، راجستھان، تمل ناڈو، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کا سروے کیا گیا، اس سروے میں سات سو سات اضلاع کے تقریبا ۱-۶؍ لاکھ گھرانوں تک پہونچا گیا، سروے میں سات لاکھ چوبیس ہزار ایک سو پندرہ خواتین اور دس لاکھ ایک ہزار آٹھ سو انتالیس مرد شامل ہوئے، ایک سو اکتیس اہم اطلاعات ان سے حاصل کی گئیں، نیتی آیوگ کے رکن صحت ڈاکٹر وی کے پال اور مرکزی وزیر صحت اور خاندانی بہبود کے سکریٹری راجیش بھوشن نے، ’’فیکٹ شٹ‘‘ جاری کرکے ملک کویہ اطلاعات فراہم کی ہیں، عورتوں میں افزائش نسل کی صلاحیت اور شرح میں کمی کا ایک بڑا سبب مانع حمل ادویات کا استعمال ہے، جس کی شرح (سی پی آر )چون فی صد سے بڑھ کر سرسٹھ فی صد ہو گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی چودہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں یہ شرح ۴ء ۱ ؍ سے ۴ئ۲؍ تک ہے، چنڈی گڈھ میں لڑکیوں کی تولیدی شرح ۴ئ۱، اتر پردیش میں ۲۴؍ ہے۔
سروے کے پہلے مرحلہ میں بائیس ریاستوں کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تھا اور اس کی رپورٹ ۲۰۲۰ء میں سامنے آئی تھی، دونوں مرحلے کی رپورٹ کو سامنے رکھ کر جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بچوں اور خواتین میں خون کی کمی کا معاملہ بھی تشویش کا موضوع ہے۔
در اصل جب ہم قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کی نا قدری کرتے ہیں تو اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے، معاملہ مانع حمل ادویات کا ہو یا مستقل طریقۂ کار کے ذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کا ، دونوں انسانی فطرت اور قانون قدرت کے خلاف ہے، اور اس کا جسمانی صحت پر اچھا خاصہ اثر ہوتا ہے، اور دھیرے دھیرے صلاحیتوں کو دیمک لگ جاتی ہے، پھر اس کے جو مضر اثرات سامنے آتے ہیں، وہ انتہائی پریشان کن ہوتے ہیں، اس لیے خاندانی منصوبہ بندی کے لیے عام حالات میں جب عورت کی صحت کو خطرات لاحق نہ ہوں ، مانع حمل ادویات کے استعمال اور خاندانی منصوبہ بندی کے دوسرے مستقل اور غیر مستقل طریقوں کے اپنانے سے گریز کرنا چاہیے، یہ ہماری صحت وعافیت کے لیے ضروری ہے اور اسلامی مزاج اور تقاضوں کے عین مطابق بھی۔
Comments are closed.