اب بچیوں کی شادی ٢١/ کی عمر میں۔

 

محمد صابر حسین ندوی

سرکار نے مجوزہ قانون پیش کرنے کا اعلان کردیا ہے کہ اب لڑکیوں کی شادی ٢١/ سال کے بعد ہی ہوسکتی ہے، اگر کسی نے اس سے پہلے بچیوں کی شادی کی تو وہ َبال وِواہ کے زمرے میں مجرم قرار پائے گا، یہ تبدیلی ٢٠٠٦ (child marriage act) اور ١٩٥٥ء (hindutva marriage act) میں کی جائے گی، یہ بحث سرکاری شعبہ نیتی آیوگ کے ذریعہ دسمبر٢٠٢٠ء میں طے کی گئی ایک ٹاسک فورس کی ریسرچ پر مبنی ہے، اس کی نمائندگی جیا جیٹلی کر رہی تھیں، انہوں نے اپنی رپورٹ میں زچگی کے دوران خواتین کی موت، غذائیت کی کمی اور کمزوری نشاندہی کی ہے، ان کی تیار کردہ رپورٹ تفصیلات پر مبنی ہیں، بی بی سی نے اس رپورٹ پر ایک اچھی گفتگو ہے، بہرحال یہ کس قدر بے تکی بات ہے کہ ایک بچی ١٨/ کے بعد ووٹ دے سکتی ہے، اپنا وزیراعظم، وزیر اعلی منتخب کر سکتی ہے، معاہدات پر دستخط کرسکتی ہے، سرکاری لون بھی لے سکتی ہے، تجارت کرسکتی ہے، بیع وشراء کے سارے مراحل پورے کرسکتی ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ (live in relationships) بھی کر سکتی ہے، مطلب یہ کہ وہ بناشادی کے ہی کسی لڑکے کے ساتھ جسمانی تعلقات بناسکتی ہے، اپنی مرضی کے مطابق جب تک چاہے کسی مستقل (separate) کمرے میں رہ کر زندگی سے لطف اندوز ہوسکتی ہے؛ بَس وہ شادی نہیں کرسکتی، اس لئے کہ اگر وہ شادی کرے تو جسمانی کمزوری لاحق ہوجائے گی، عموماً debate میں یہی بات کہی جارہی ہے کہ عورت کا جسم کمزور ہوگیا ہے، زچگی شرح موت بڑھی ہے، فضائی آلودگی، کھان پان میں کمی اور تربیتی مراحل میں دشواریوں کی وجہ سے وہ اس لائق نہیں کہ شادی کر سکے، گویا ساری کمزوری شادی کے وقت ہی رہ جاتی ہے، باقی تمام امور یونہی طے کر لئے جاتے ہیں، اس میں ایک بحث اور اچھالی جارہی ہے، بلکہ پارلیمنٹ میں بھی اسے دہرایا گیا ہے کہ یہ مسئلہ (gender equality) جنسی برابری کا ہے، بلاشبہ عورت مرد حریف نہیں ایک دوسرے کے حلیف ہیں، ان میں برابری کا تصور اگر اس اعتبار سے ہو کہ انہیں مردوں کو کے برابر کردیا جائے تو اس سے زیادہ ان کے ساتھ اور کیا ناانصافی ہوگی؟
انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان کے قوی و اعضاء کے مطابق ہی انہیں متحمل کیا جاتا، مگر درحقیقت یہ سب ایک ڈھونگ ہے، عورتوں کو سنہرا خواب دکھا کر معاشرتی تانا بانا توڑنے کی سازش ہے، اگر یہ سیاست دان اتنے ہی مخلص ہیں تو پھر پارلیمنٹ میں خواتین کیلئے پچاس فیصد سیٹوں کا ریزرویشن کیوں نہیں دیتے؟ یہ مجوزہ قانون سالوں سے ان کی ٹیبل پر پڑا ہوا ہے؛ خود بی جے پی اسے پاس کروانے کا وعدہ کر چکی ہے مگر اب تک کوئی شنوائی نہیں ہے، حقوق نسواں کی کمیٹی نہ جانے کونسے حقوق کی بات کرتی ہے، انہیں سارے مسائل چھوڑ کر خواتین کو مضبوط کرنے کیلئے صرف ایک شوشہ ملا کہ ان کی شادی ٢١/ سال میں کروائی جائے، حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے معاشرے کو تباہ کرنا، ہندوستانی ریت، سماجی روایات کو پامال کرنا مقصود ہے، یقیناً اس سے مسلمانوں کے گھرانوں پر برا اثر پڑے گا، مگر یہ بھی درست ہے کہ مسلمان اس سے نکلنے کے راستے نکال لیں گے، خود ١٨/ سال کی عمر مسلمانوں کے درمیان آج تک قابل اعتبار نہیں رہی، مگر مشکل یہ ہے کہ اس فیصلے سے سماج میں بے راہ روی کا دروازہ سرپٹ کھل جائے گا، فطری ضرورت کی تکمیل کیلئے گھروں کی بندشیں ناکام ہوجائیں گی، والدین کی بے چین و بے قراری میں اضافہ ہوگا، مغربی فکر اور مزاج کی پرداخت ہوگی، خواتین live in کو ترجیح دیں گی، girlfriend اور boyfriend کا رواج مزید تقویت پائے گا، بڑے بزرگوں کی وقعت گرے گی، پولس اور کچہری سے انسانی سوسائٹی کا ٹکراؤ بڑھے گا، ایسے کیسز کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جائے گا، منافقت عام ہوگی اور اس طرح معاشرتی امن و سکون جہنم رسید ہوجائے گا، ضرورت ہے کہ اس بل کے خلاف مضبوط آواز اٹھے، سماج کے منصف مزاج سخت نوٹس لیں، اور ملک تحریک چلائیں۔

[email protected]
7987972043

Comments are closed.