کم عمری کی شادی؛ شرع اور طب کی روشنی میں۔

ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
(ایڈیٹر: ہفت روزہ آبِ حیات بھوپال، ایم پی)
مودی حکومت نے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 18 سال سے بڑھا کر اکیس سال کر دی ہے۔ کابینہ نے اس تجویز کی منظوری بھی دے دی ہے۔ سال 2020 میں یوم آزادی کے موقع پر اپنے خطاب میں وزیراعظم نریندر مودی نے اس بارے میں اشارہ دیا تھا، اب حکومت نے اس پر عمل درآمد کر دیا ہے۔ اب تک ہمارے ملک میں لڑکیوں کی کی شادی کی عمر 18 اور لڑکوں کے لئے 21 سال مقرر تھی؛ لیکن پارلیمینٹ میں ایک قرارداد پاس کرکے اسے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ چائلڈ میرج پر ہیبشن (ترمیم) بل2021لاکرچاٸلڈ میرج ایکٹ 2006 میں تبدیلی کا فیصلہ مرکزی حکومت نے کر لیا ہے۔
اس بل کے ذریعہ ہندوستانی عیسائی شادی ایکٹ 1872، پارسی شادی اور طلاق ایکٹ 1936، مسلم پرسنل لا (شریعت) درخواست ایکٹ 1937، اسپیشل میرج ایکٹ1954، ہندو میرج ایکٹ 1955، بیرون ملکی میرج ایکٹ1969 میں بھی تبدیلیاں کی جائیں گی۔ بھارت جیسے ملک میں لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کرنے کا قانون توبنایا جارہا ہے؛ لیکن اسے عملی طور پر نافذ کرنا شاید ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کی تبدیلی کے لیے سماج میں وسیع پیمانے پر ذہنی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لڑکیوں کو شادی کرنے سے پہلے انہیں شادی بالخصوص صحت سے متعلق معاملات اور مسائل نیز بچوں کی پیدائش کے حوالے سے ضروری معلومات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جلد شادی کرنے سے 37 سال کی عمر میں نیند کا معیار بہتر ہوتا ہےاگر تاخیر سے شادی ہوتی ہے تو اس عمر میں نیند کا معیار خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے جس سے بلڈ پریسر اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جس طرح بہت جلد شادی کرنا رشتے کے ٹوٹنے کے خطرہ کو بڑھاتا ہے اسی طرح شادی تاخیر سے کرنے میں بھی شادی اس قسم کے خطرے کی زد میں رہتا ہے۔
کمسنی کی شادی اور اس کے بعد ماں بننے کے لئے صرف جسمانی بلوغت ہی نہیں ذہنی بلوغت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ نوعمری اور لڑکپن میں جب بچیاں اپنے بچپن کا لطف لے رہی ہوتی ہیں اور جسمانی و ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوتی اس وقت اسے شادی کے بندھن میں جکڑدینا بہت ساری جسمانی جذباتی اور نفسیاتی ذمہ داریوں کا مطالبہ کرتا ہے بالکل مناسب نہیں ہے۔ ماہواری آنے کا یہ تصور کہ ماہواری آنے سے لڑکی مکمل عورت بن جاتی ہے، غلط ہے۔ اصل میں ماہواری نوجوان ہونے کے عمل میں ایک سنگ میل ہے؛ لیکن لڑکی کی ذہنی پختگی کا عمل تعلیم و تربیت گھر کے ارد گرد کے ماحول سے پروان چڑھتا ہے جو ماہواری سے پہلےاور ماہواری کے بعد بھی کافی عرصہ تک جاری رہتا ہے۔ نو عمر لڑکیاں اگر حاملہ ہو جائییں تو ان کو بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ چونکہ ان کے جسم کی ابھی مکمل نشو نما نہیں ہوٸ ہوتی اس لیے ان کی ہڈیاں چھوٹی ہوتی ہیں، اس لیےزچگی کے عمل میں انہیں بہت تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔اگر ایسی لڑکیوں کی زچگی دیہات میں دائی کے ہاتھوں میں ہو رہی ہو تو ان کی شرح اموات بڑھ جاتی ہے۔ اگر ان کی زچگی شہر میں کسی اسپتال میں ہورہی ہو تو پھر ان کا آپریشن ہوتا ہے۔ نا پختہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک سمجھدار اور ذمہ دار ماں بننے میں بھی عموماً ناکام رہتی ہے۔ کم عمری کی شادی کا سب سے زیادہ نقصان جسمانی اور طبی لحاظ سے ہوتا ہے کیونکہ لڑکی کے بدن کا نشونما 18 برس کی عمر تک ہوتا رہتا ہے۔وہ پندرہ سولہ سال کی عمر میں جوان ضرور دکھائی دیتی ہے لیکن رحم اور بچہ دانی کے نشو نما اٹھارہ برس تک ہوتی رہتی ہے اس کے نتیجے میں لڑکی اگر 18 برس سے کم عمر میں ماں بن جائے تو لڑکی کے بدن کی نشوونما رک جاتی ہے اس سے اکثر و بیشتر حمل ساقط ہوجاتا ہے جس سے بعد میں ماں بننے میں دقتیں پیش آتی ہیں۔
اسلام نے عمومی طور پر شادی کے لئے بالغ عاقل عمرہونے کوہی راجح اور زن وشو کے لئے معاشرتی اور طبی نقطہ نظر سے بہتر قرار دیا ہے۔ اسلام نے کم سنی کی شادی کی اجازت دیتے ہوئے بھی اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ کم عمری میں شادی ہونے کے باوجود مباشرت یا ہمبستری کا عمل اس وقت تک ٹالا جائے جب تک ایک لڑکی عورت نہیں بن جاتی۔مذھب اسلام نے کم عمری کی شادی کی رخصت تو ضروردی ہے مگر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔ کبھی حالات ایسے بن سکتے ہیں کہ شادی کم عمری میں کرنی پڑے البتہ شریعت اسلام نے اس عمل کو صرف جائز کی حد تک باقی رکھا ہے مذہب اسلام نے کم سنی کی شادی کی ترغیب نہیں دی ہے، بلکہ مستحسن یہی رکھا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی شادیاں عقل و شعور اور مکمل بلوغت کے بعد ہی کی جائیں جب عورت کے جسم ہر طرح سے پورا ہوچکا ہو اورجن جسمانی حصوں کی نشوونما تولد و ازدواج کے ساتھ خاتون کی صحت کے لیے ضروری ہے ان کی نشوونما کا عمل بھی مکمل ہو جائے۔ تاکہ معاشرتی زندگی میں آئندہ کسی بھی قسم کانقص باقی نہ رہے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں رحم اور بچہ دانی نامکمل ہونے کی وجہ سے پیڑوں کی نشونما مکمل نہیں ہوتی اس لئے بچہ کا سر بڑا ہو سکتا ہے۔ بچہ جننے میں رکاوٹ سے اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچ سکتا ہے،جس سےمثانےاور اوجھڑی میں کمزوری آجاتی ہے۔ اسی طرح کم عمری میں مجامعت سے رحم کے دہانے میں کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کم عمری کی شادی کی صورت میں عام طور پر حمل بہت جلد ٹہر جاتا ہے،جس سے عورت کی صحت برباد ہو جاتی ہے اور وقت سے پہلے اس پر بڑھاپا طاری ہوجاتا ہے۔ شادی کی صحیح عمر تو وہی ہے کہ جب انسان شادی کے قابل ہوجائے بلوغت کے بعد جب تک درستی عقل اور بدن میں کمال اور پختگی نہ پیدا ہو جائے شادی نہ کرنی چاہیے، اعضا میں پورا نمو (کمال پختگی) ہونے سے پہلے شادی کرنے میں قویٰ ضعیف ہو جاتے ہیں، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”بہت تھوڑی عمر میں شادی کردینے میں بہت سے نقصان ہیں، بہتر تو یہی ہے کہ لڑکا جب کمانے اور لڑکی جب گھر چلانے کا بوجھ اٹھا سکے اس وقت شادی کی جائے۔“
جس معاشرے میں تعلیم کا رجحان نہیں ہوتا وہاں جلدی شادی ہوجاتی ہے ہندوستان کے سماجی مسائل میں کم سنی کی شادی کا مسئلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے؛ کیونکہ کم عمری میں شادی کا رواج یہاں زیادہ تر پسماندہ ہندو سوسائٹی اور ہندو قوم کی نیچی برادریوں میں ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
کم سنی کی شادی مسلمانوں کا سماجی مسئلہ نہیں ہے بلکہ شادی میں تاخیر مسلمانوں کا سماجی مسئلہ ہے۔ کیونکہ کم سنی کی شادی کے واقعات مسلمانوں میں بہت کم ہیں۔ خاص بات یہ کہ اسلام میں اکثر حالات میں نابالغی کے نکاح کی صورت میں بالغ ہونے کے بعد لڑکے اور لڑکی کو خیاربلوغ حاصل ہوتا ہے اور وہ اس نکاح کو رد کر سکتے ہیں۔ اسلام نے کم سنی میں لڑکے یا لڑکی کے نکاح کی ترغیب نہیں دی ہے، البتہ اس سے منع بھی نہیں کیا ہے اور اس کی گنجائش رکھی ہے، جس کا ثبوت قرآن مجید سے بھی ہے، حدیث سے بھی ہے، آثار صحابہ سے بھی ہے اور اس امت کا اجماع اتفاق بھی ہے، نیز یہ کہ بعض مصالح پر مبنی ہیں جب لڑکے لڑکیاں بالغ ہو جاۓ تو ان کا نکاح جلد کر دینا چاہیے تاکہ وہ گناہ میں مبتلا نہ ہو علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شدت اشتیاق کے وقت نکاح کرنا واجب ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر نکاح نہ کرے تو زنا میں پڑ جانے کا اندیشہ بھی ہو، کیونکہ ہم بستری کی رغبت سے لازما زنا میں پڑ جانے کا اندیشہ نہیں ہوتا واجب ”لازم ”ہونا مراد ہے، لہذا یہ فرض اور اصطلاحی واجب دونوں کو شامل ہے۔ البحر الرٸق :241ج3، علامہ ابن قدامہ الحنبلی فرماتے ہیں :”جس کو نکاح نہ کرنے کی صورت میں کسی ناجاٸز فعل میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو، جمہور فقہاء کے قول کے مطابق اس کے لیے نکاح کرنا واجب ہے، کیونکہ اپنے آپ کو پاک باز رکھنا حرام سے بچانا واجب ہے اور اس کی صورت نکاح ہے۔“(المغنی، کتاب النکاح) آج وقت پر نکاح نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ہر جگہ بے راہ ر وی دیکھنے میں آرہی ہے معاشرے کا بگاڑ اپنی آخری حدیں پار کر رہا ہے، نوجوان نسل مغرب کی متعفن تہذیب کی طرف غیر محسوس طریقے پر کھینچے چلے جارہے ہیں۔جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں لو این ریلیشن شپ کا ناسور پیدا ہوگیا ہے۔ آج ہمارے معشرے میں مغرب کی اندھی تقلید کولوگ فخر سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ ہزاروں جوان لڑکے لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر30/35 کی عمر سے متجاوزہو جاتی ہیں لیکن وہ شادی بیاہ کے بندھنوں میں بندھنا نہیں چاہتے انہیں آزدانہ زندگی پسند ہوتی ہے۔
اسلام میں مرد عورت کے رشتہ محبت کی شکل نکاح تجویز کی گئی ہے۔ زنا فحاشی کے بارے میں قرآن صرف یہ نہیں کہتا کہ زنا نہ کرو بلکہ اس کے قریب تک نہ جانے کا حکم دیتاہے ناجائز تعلقات ہی نہیں بلکہ اس کے اسباب وجوہات جو بھی ہیں ان کے قریب بھی جانے سے منع کیا گیا ہے۔ غیر محرم مرد اور عورت کو تنہائی میں ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔
اسلام ایک فطری دین ہے بسااوقات خاندان اور نابالغ لڑکی کی مصالح کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس کی شادی کم سنی ہی میں کردی جائے۔ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس گناہ سے روک دیا جس سے خلاف عادت کم عمری میں ہی مرد عورت کو سامنا ہوتا ہے وہ عرف عام میں معلوم وقت سے پہلے مرد و عورت کا سن بلوغ کو پہنچ جانا اور شدت کے ساتھ شہوانی ضرورت کا محسوس ہو جانا ہے۔ اگر ایسے حالات ہوں تو گناہ سے بچانے کے لیے ضروری یہی ہوگا کہ دونوں کی شادی کرکے معاملہ پورا کردیا جائے، تاکہ اسلامی معاشرہ گناہ کے الزام سے محفوظ رہے۔
برطانیہ کے ایک11سالہ لڑکی اور13سالہ لڑکے کہ کم سنی میں والدین بننے کا واقعہ آپ کو بخوبی یاد ہوگا یہ خبر انٹرنیٹ پر آج بھی موجود ہے۔ اگر اسی طرح کا واقعہ اگرمسلم ممالک کے پسماندہ شہر یا دیہی علاقے کے بدو گھرانےمیں پیش آیا ہوتا کہ کم سنی کی شادی کے نتیجے میں ١٢ سال کی لڑکی ماں بن گٸ ہوتی تو لبرل میڈیا کی چیخ سے دنیا کیسے لرزتی انسان کے ہمدرد کیسے کیسے مروڑ کا شکار ہوتے۔
اس وقت مسلم پرسنل لا کو اس ملک میں خطرات درپیش ہیں۔ موجودہ حکومت پے درپے ہرکام دستور کے مغائر کر رہی ہے اسلام دشمن طاقتیں ہر طرف سے اسلامی شریعت پر حملہ آور ہیں خواتین کے حقوق کو بہانہ بنا کر اسلام کے عائلی قوانین پر حملہ کیا جا رہا ہے جبکہ اس ملک کا ہر شہری جمہوری دستور کا پابند ہے۔
مسلمان مذہب اسلام سے وابستگی کی بنیاد پر مسلمان بنتے ہیں اوران کی ایک مخصوص تہذیب ہے۔ مسلمانوں کی تہذیب و تمدن میں وہ تمام باتیں داخل ہیں جو نسلہا نسل سے مذہب کے واسطے وراثت میں آئی ہیں اور ان میں نکاح، طلاق، خاندان اور افراد خاندان کے حقوق اور ترکہ ووراثت کے معاملات شامل ہیں۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو پرسنل لا کے معاملات میں کسی اور قانون پر چلنے کے لئے کہنا یا مجبور کرنا ارتداد کی دعوت دینا ہےاوریہ سب کام اس لئے انجام دیا جا رہا ہےتا کہ مذہب اسلام جو فطرت کامذہب ہے اس کی فطرت کے ذریعے کھولے گئے حلال کے دروازے بند ہو جاٸیں دراصل ان سب کا مقصد یہ ہے کہ حلال کے دروازے بند ہوں گے تو حرام کے دروازے خود بخود کھلیں گے کیونکہ انسانی خواہشات اور ہارمونز کو بڑھنے سے آپ بیڑیاں ڈال کر نہیں روک سکتے۔ جب حلال پر قانونی پابندیاں لگاٸ جاٸیں گی تو ہارمونز حرام ذریعے سے خود بخوداپنا راستہ بنا لیں گے اور کمسنی کے حرام کاری کے واقعات بکثرت ہوں گے۔ درحقیقت اس خاص قانون بنانے کے پیچھے ایک خاص قسم کے معاشرے کو تشکیل دیا جا رہا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کے برہمنیت زدہ سماج میں کمزور غریب بچھڑے طبقات کے استحصال کا یہ ایک بڑا مٶثر اور کارگرہتھیار تیار کیا جارہا ہے جس سے طبقاتی نظام کے ناخدابھرپور طریقے پر فائدہ اٹھاٸیں گے اس لیے کہ شادی کے جھمیلوں میں پھنسنے کا مطلب ہے کہ سماجی یا معاشی ترقی اور ان کے امکانات کو ختم کرکے ہمیشہ کے لئے پس ماندگی اور پست حالی کو اپنا مقدر بنا لیں اور ان کی نسلوں کی نسلیں اعلیٰ طبقہ کی غلامی اور چاکری کے دام میں گرفتار ہیں۔
Comments are closed.