نئی نسل کا نمائندہ شاعر : جمیل اختر شفیق

تحریر….انور آفاقی ،دربھنگہ
گلاب جہاں بھی کھلے اپنی خوشبو کی وجہ سے دور دور تک اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے ، لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور لوگ اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح جب کبھی ایک شاعر کا کوئی بھی خوبصورت شعر قاری کی نظر سے گزرتا ہے یا اس کی سماعت سے ٹکراتا ہے تو پھر اس کی طرف نہ صرف متوجہ ہوتا ہے بلکہ اس کے کلام کے مطالعے کا خواہاں بھی ہوتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت و حقیقت کا تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب یہ شعر
چراغ بن کے اندھیروں میں اک زمانے تک
میں جگنوؤں کو پریشان کرنے والا ہوں
میری نگاہوں سے گزرا تو سیدھا دل میں اترتا ہوا محسوس ہوا ۔ معلوم ہوا کہ یہ شعر ایک نوجوان شاعر جمیل اختر شؔفیق کا ہے ۔ پھر جمیل سے ملاقات کی خواہش پیدا ہوئی ۔ اور اتفاقا میری یہ خواہش 22 جولائی 2019 کو پوری بھی ہو گئی جب وہ میرےگھر تشریف لائے اور خوبصورت تحفہ اپنا شعری مجموعہ "دھوپ کا مسافر” بڑے خلوص و محبت سے پیش کیا ۔ ہر چند کہ یہ ملاقات بڑی مختصر سی تھی مگر اس مختصر ملاقات ہی میں انہوں نے اپنی نفیس شخصیت کا ایسا نقش چھوڑا جو کبھی دھندلا نہیں ہو سکتا۔ اسی مختصر سی ملاقات ہی میں مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ ایک صاف گو اور حق پسندنوجوان شاعر ہیں جس کی گفتگو میں ندرت اور جس کی فکر میں تازگی بھری ہوئی ہے ۔
جمیل اختر شفیق کا مجموعہ کلام ” دھوپ کا مسافر ” میرے ہاتھوں میں ہے جو اپنے نام کی وجہ سے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں یقینا کامیاب ہوگا اس کا مجھے یقین ہے کیونکہ اس نام میں بڑی کشش و جاذبیت ہے ۔غور کیجئے تو یہ نام انسان ، اس کی زندگی اور دنیا کا استعارہ ہے ۔ 207 صفحات کے اس مجموعہ کلام میں صفحہ تین پر انتساب ہے جو انہوں نے اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔ صفحہ چار سے بارہ تک فہرست اور پھر صفحہ 13 پرحرف آغاز کے تحت ان کا تعارفی مضمون ” میری خوددار طبیعت کا تقاضا ہے الگ ” ہے ،جس میں انہوں نے اپنا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے ۔ پھر تقریبا پچاس صفحات پر نو ادباء و شعراء کے اس شعری مجموعہ پر تاثرات و خیالات ہیں جو شؔفیق کو جاننے اور سمجھنے میں معاون ثابت ہوں گے ۔ صفحہ 81 سے 207 تک 110 غزلیں ہیں. گرد پوش کے اندرونی صفحات پر مختصر مگر گرانقدر آراء ہیں جو انور جلال پوری اور علامہ جلال الدین قاسمی کے رشحاتِ قلم کا نتیجہ ہے۔ بیک کور پر ناصر ناکاگاوا ، تنویر پھول اور ابن عظیم فاطمی کی مختصر تحریریں ہیں ۔
حرفِ آغاز کے تحت شؔفیق اپنی دادی جان کی باتوں کو جو ان کے حافظے میں محفوظ ہیں ، کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ ہر قاری کو پڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں میں نمی کا احساس ضرور ہوگا ۔وہ لکھتے ہیں: "کتنی بار دادی کی آنکھیں اشک بار ہوئی ہونگی کتنا ان کا کلیجہ پسیجا ہوگا احساسات کی کن کن زمینوں سے وہ گزری ہو نگی ۔ جب تک وہ حیات سے رہیں کبھی انہوں نے مجھے خود سے الگ نہیں کیا "۔
زمانہ ہو گیا دادی کو چھوڑے قبر میں لیکن
ابھی بھی ایسا لگتا ہے مجھے لوری سناتی ہیں
مندرجہ بالا شعر اپنی دادی مرحومہ کے لئے شفیق کا بہترین نذرانہ عقیدت اور ان سے انسیت و محبت کاتجدید نامہ ہے۔
کتاب نہایت خوب صورت ہے جسے فائن آرٹ پرنٹنگ پریس سیتامڑھی نے چھاپا ہے۔
جمیل اختر شؔفیق کا آبائی وطن سیتاجی کی جنم بھومی، سیتامڑھی ہے جو قدیم متھلا کا حصہ بھی
مانا جاتا ہے۔ وہ ضلع سیتامڑھی کے مشہور باجپٹی بلاک سے قریب ایک چھوٹے سے قصبہ سنڈ وارہ میں 10 فروری 1987 ء کو اس دنیائے آب و گل میں تشریف لائے ۔ وہ اپنے والدین اور دادی صاحبہ کی خاص نگہداشت میں پروان چڑھتے رہے ۔ بچپن میں اپنی امی سے پر ترنم نظموں اور لوریوں کو سنا جب عنفوان شباب کو پہنچے تو بھی لور یوں کی بازگشت کانوں میں رس گولتی رہی ، گونجتی رہی لہذا ابھی وہ 17 سال ہی کے ہوئے تھے کہ طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوگئی اور پہلا شعر
ترے چہرے کی نصرت سے بہت کچھ جان لیتا ہوں
ترا جو بھی ارادہ ہے اسے پہچان لیتا ہوں
کہا ۔ اور پھر شاعری کا ایسا چسکا لگا کہ باضابطہ شعر کہنے لگے ۔ شاعری میں جس صاحب فکر و فن سے اصلاح سخن لی ان کا اسمِ گرامی ابوالبیان رفعت ہے جن کا شمار استاد شعرا میں ہوتا ہے ۔ دھیرے دھیرے شاعری سے اس قدر الفت بڑھی کہ شاعری ان کا جنون بن گئی ۔ ان کو شاعری میں زندگی کی رمق اور درد و الم کا ساتھی مل گیا اور شاعری ان کے وجود کا جزولاینفک بن گئی۔
شاعری شؔفیق کے یہاں نہ تصنع اوقات ہے اور نہ ہی تفریح کا سامان ۔ کیونکہ ایک حساس شاعر و ادیب کو یہ زیب بھی نہیں دیتا ۔ شاعری ان کے ہاں ایک مقدس فریضہ ایک عبادت کی طرح ہے تب ہی تو وہ کہ اٹھتے ہیں
میں نے برسوں ،کی ریاضت تو ہنر آیا ہے
میری غزلوں میں نہیں یوں ہی اثر آیا ہے
شؔفیق کی شاعری کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ اس نوجوان شاعر نے اپنی کم عمری ہی میں زندگی کا گہرا مشاہدہ بہت غور اور قریب سے کیا ہے اور پھر دل کے درد کو شعر میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے ۔ زندگی کی ان تمام کڑوی سچائیوں کے مشاہدہ کے باوجود اس نے اپنی شاعری کو تلخی اور کڑواہٹ سے متاثر نہیں ہونے دیا بلکہ اپنے لہجے میں پہلے شیرنی ، نرمی محبت کو گوندھ کر دل کو موہ لینے والا انداز اپنایا پھر شعر خلق کیا ہے۔ اس میں محبت کے ساتھ ساتھ ایک دھیمی دھیمی آنچ کا احساس بھی ہوتا ہے یہی آنچ قارئین کو یک گونہ اپنا پن کا احساس بھی دلاتی ہے اور شاعر کو اس کی اپنی شناخت کا وسیلہ بھی عطا کرتی ہے۔
خواب کی سڑک ، درختوں کا بھرم ، یاد کی سڑک ، درد کا صندل ، غموں کے مکان ، غموں کی بھیڑ ، نوازشوں کے سمندر ۔
مندرجہ بالا تراکیب پر دھیان دیجئے ، غور کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ تراکیب ہیں جو شؔفیق نے اپنی شاعری کے لئے وضع کر کے اپنے اشعار میں ندرت اور دلکشی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس نرم و نازک لب و لہجہ اور خوبصورت تراکیب کے شاعر کے چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں
شؔفیق اس کے تصور کا یہ اثر دیکھو
حسین خواب کی سڑکوں پے چل رہا ہے بدن
کتنے پھل پھول ، درختوں کا بھرم ٹوٹ گیا
جب مرے ذہن میں افکار کے دانے نکلے
جب مجھے چھوڑ کے بے وقت نکل جاؤ گے
تم مری یاد کی سڑکوں پہ پھسل جاؤ گے
ہم نے غزل پہ درد کا صندل لگا لیا
ممکن نہیں کچھ بھی بتائیں زباں سے ہم
کب تک شؔفیق لاش کی صورت پڑے رہیں
نکلیں گے ایک روز غموں کے مکان سے ہم
غموں کی بھیڑ میں دنیا نے ساتھ چھوڑ دیا
خوشی ملی تو مسلسل رہا نشانے پر
نوازشوں کے سمندر بہائے پھرتے ہو
بلا سبب بھی گلے سے لگائے پھرتے ہو
شفیق نے اپنی غزلوں میں لفظ” زندگی” کو سب سے زیادہ استعمال کیا ہے اور جس کی مجموعی تعداد تقریبا تیس ہے ۔ ان کی یہ ” زندگی ” اپنی تمام تر گوناگوں کیفیتوں کے ساتھ ان کے اشعار میں نمایاں طور پہ نظر آتی ہے ۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں پہ ان کے اشعار کو پڑھ کر زندگی کی سچائیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسی زندگی جس میں دکھ درد ہے ، جس میں شام و سحر ہے ، جس میں سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں اخبار پر سوتے ہوئے مفلس بچے کی بے چینیاں ہیں ، جس میں چٹائیوں پر زندگی گزارنے والے بے بس و لاچار انسان کے آنسو ہیں اور جس میں دو وقت کی روٹی کے لیے تگ و دو کرتے ہوئے مجبور و بے کس ڈھیروں انسانوں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں ۔ انسانی حیات اور زندگی کا المیہ ، سماج میں بے سہارا دبے کچلے لوگوں کی کراہ ، مظلوموں کی کرب میں ڈوبی آہ ، زندگی کئی رنگوں میں نظر آتی ہے ۔ آئیےچند اشعار ملاحظہ فرمائیے
آج سوکھی ہوئی روٹی پہ قناعت کرلو
زندگی یوں بھی مری جان بسر ہوتی ہے
زندگی نے کر دیا ہے لا کھڑا اس موڑ پر
سب گزرتے ہیں جہاں سے ٹوکتا کوئی نہیں
ہم کو مخمل پہ کبھی نیند نہیں آئے گی
زندگی اپنی چٹائی پہ بسر ہوتی ہے۔
درد سینے میں پھر اٹھا ہے کیا
زندگی سچ میں اک سزا ہے کیا
زندگی تجھ سے محبت ہے نہ جانے کتنی
ہم تیرا بوجھ بہر حال اٹھانے نکلے
چیخ کر میں تھک گیا ہوں زندگی کے خوف سے
کس قدر سہما ہوا ہوں دیکھتا کوئی نہیں
تمہارے شہر میں کتنے غریب بچے ہیں
سڑک پہ آج بھی پیپر بچھا کے سوتے ہیں
وہ اپنے گاؤں کی رسمیں نبھا کے سوتے ہیں
غریب لوگ چٹائی بچھا کے سوتے ہیں
زندگی کا اور روپ دیکھیں ۔۔۔۔۔۔
کوئی مرجائے کہاں ان کو خبر ہوتی ہے
زندگی جن کی نمائش میں بسر ہوتی ہے
ہم زندگی کے ساتھ جدھر سے گزر گئے
دشمن تمام دیکھ کے صدمے سے مر گئے
اس طرح زندگی بھی گزر جائے گی
وہ اگر میرے گھر آنے جا نے لگے
اگر تم زندگی بن کر مری سانسوں میں بس جاتے
کبھی فرصت نہیں ملتی تمہیں آنسو بہانے کی
حوصلے اپنے نہ ٹوٹے ہیں نہ ٹوٹیں گے شؔفیق
زندگی بوجھ اگر ہے تو چلو ڈھوتے ہیں
زندگی بھلے جی لے معتبر نہیں ہوتا
جو کبھی پڑوسی سے باخبر نہیں ہوتا
شاعر بہت حساس ہوتا ہے لہذا جو وہ محسوس کرتا ہے اپنی شاعری کے توسط سے قارئین کی نذر کر دیا ہے ۔ان کی طبیعت میں خودداری اور انا کا عنصر غالب ہے جس کا اندازہ ان کے اشعار سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں
میری خودداری کہ میں نے گھاس تک نہیں ڈالی
اس کی کم ظرفی کے وہ جاتا ہے نیتا کی طرف
میری خود دار طبیعت کا تقاضہ ہے الگ
کیسے یہ سر کسی کم ظرف کا شانہ ڈھونڈے
ملے خیرات میں عہدہ تو فورا دور مت جانا
یہی ایک بھول قائد سے قیادت چھین لیتی ہے
ہمیں کچھ لوگ اپنے عہد کا باغی سمجھتے ہیں
سبب یہ ہے امیر شہر کو سجدہ نہیں کرتے
اپنے دکھ درد پر آنسو کی نمائش نہ کیا کر
زخم تو زخم ہے کچھ روز میں بھر جائے گا
ہم جس سماج اورمعاشرے میں رہتے ہیں اس میں دوست اور دشمن دونوں پائے جاتے ہیں ۔ دشمنوں کے رویے اور سلوک سے سامنا بھی ہوتا ہے اور ہم دفاعی طور پراس سے نپٹنے کے لئے تیار بھی رہتے ہیں مگر جب اپنےدوست احباب اور رشتہ دار بھی دشمنی اور شازشیں کرنے لگیں تو تکلیف اور ملال کا ہونا فطری امر ہے۔۔۔لہذا ایسے حالات میں ایک شاعر کس طرح اپنے احساس و جذبات کو شعری پیکر میں ڈھالتا ہے
اسکی جھلک شؔفیق کی شاعری میں کچھ اس طرح
ملتی ہے
کبھی دشمنوں کی عداوتیں کبھی دوستوں کی ہیں سازشیں
یہ جو سلسلہ ہے عذاب کا کبھی ایک پل کو رکا نہیں
ہمارے دوست کی عادت ہے دشمنوں جیسی
کبھی کبھی تو وہ قصدا بھی بھول کرتا ہے
غیر تو غیر ہیں اپنوں کو یہ احساس نہیں
میرے اندر کی گھٹن جان سے مارے گی مجھے
جمیل اختر شؔفیق بہار کے ان چند کامیاب نوجوان شعراء میں ہیں جن کی شاعری کے مطالعہ کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کا مستقبل تابناک ہے۔ اللہ کرے ان کا شعری ذوق یوں ہی پروان چڑھتا رہے اور جلد ہی ان کا دوسرا مجموعہء کلام ہمارے ہاتھوں میں ہو-
(بشکریہ روزنامہ اودھ نامہ، دہلی، لکھنؤ )
Comments are closed.