آہ ماسٹر سید ظہیر اشرف صاحب…!

ایم_ایس_حسین
ماسٹر "سید ظہیر اشرف صاحب” (رحمه الله رحمة واسعة) بھی دارفانی سے داربقا کوچ کر گئے( إنا لله و إنا إليه راجعون).
"ظہیر سر” باشندگان سمری بختیار پور کے دل و دماغ اور افکار و خیالات کے نگار خانے میں رسنے بسنے والی ایک بےمثال لائق عزت و احترام قابل عظمت و وقار ، گوناگوں اور متنوع کمالات کے متحمل ، خلوص و وفا شعاری کے کوہ بےعدیل ، اخلاق حسنہ اوصاف حمیدہ اور کمالات جمیلہ کے پاسبان ، خوردہ نواز ، نرم خو ، شگفتہ رو ، پاک طینت ، تواضع پسند ، حلم و انکسار کے پیکر ، صدق مقال اور امانت و دیانت کے خوگر ، قناعت و استغنائیت سے مملو ، غیر معمولی عزیمت و علو ہمت کے مالک اور مثبت عملوں کے دھنی شخصیت تھی ؛ مرحوم کی شش جہات اور ہمہ گیر شخصیت محتاجِ بیان نہیں ، قدرت نے درجہ اول کا آدمی بن جانے کی تمام تر صلاحیتوں سے نوازا تھا ، جگت گرو قسم کے آدمی تھے ، آسمان پر تھگلی لگانے والی ذہانت و فطانت رکھتے تھے ، معاصرانہ چشمک اور باد مخالف کے جھکڑوں سے کبھی سہمے اور نہ دلبرداشتہ ہوئے اور نہ ہی قوت ارادی کو کبھی متزلزل ہونے دیا.
یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ مرحوم کا وجود مسعود سرزمین سمری بختیار پور کےلیے خدائے ذوالجلال کی نوازش اور خاص کرم فرمائی تھی ؛ پچھلے نصف صدی سے یہ نام اس علاقہ کے مسلمانوں کی پہچان ہے ؛ شاید ہی کوئی گھر یا خاندان ہو جس میں ان کے شاگرد موجود نہ ہو شاگردوں کا یہ کھیپ نسلوں پہ محیط ہے خود ہمارے گھر میں "والد ماجد”( اطال اللہ عمره) ان کے شاگرد ہیں پھر ایک لمبے وقفے کے بعد دو دو بڑے بھائیوں کو شرف تلمذ حاصل ہوا بلکہ ہمارے ہم عمر و ہم جلیسوں نے بھی طالب علمی کے ایام ان کے زیر سایہ گزارے ہیں.
تاریخ سمری بختیار پور میں مرحوم کا نام "اسلامیہ ہائی اسکول” سے اور اسکول کا نام ان کے نام سے یاد رکھا جائے گا ؛ جہالت کدہ میں باد مخالف کی پروا کیے بغیر ڈٹ کر چراغ علم و آگہی جلانا انہیں کو زیب دیتا تھا ؛ معاصرانہ چشمک کو خاطر میں نہ لاکر شعور کا سبق پڑھانا آپ ہی کا حوصلہ رہا ؛ فقر و تنگدستی میں قناعت و بردبادی کا درس دینا بھی آپ ہی کا حصہ بنا ، آسودگی کا ہر دروازہ بند ہونے کے باوجود فکری بالیدگی کا باب آپ نے ہی وا کیا ، اندرون تعلیم گاہ جال بچھانے والوں سے مسکرا کر گلے لگانا آپ ہی کی مجال تھی اور ہر اپنے غیرے کی بےجا مخالفت سے پائے استقامت میں جنبش نہ آنے دینا آپ ہی کا ہنر کمال تھا.
اس آموزش گاہ عالم میں مرحوم کی ساری زندگی استغنائیت و قناعت پسندی، صبر و شکر کے کڑوے گھونٹ پینے ، جہد مسلسل اور تہی دستی و برداشت میں گزری باوجودیکہ ہمدردی و غم خواری ، دلسوزی و غمگساری ، شفقت و محبت اور اپنائیت کی مثال بنے رہے ، چوٹ کھا کر دعائیں دی درد دینے والوں کو سینے سے لگایا وار کرنے والوں سے ہنس کر ملے ، المختصر ؛ بسا غنیمت! طَابَ حَيّاً طَابَ مَيْتاً .
خدا نت رکھے اس کے اقبال کو ۔ شہامت کو رفعت کو اجلال کو ۔
اللهم تغمده بواسع رحمته واجعل قبره روضة من رياض الجنه وارزقه الفردوس الاعلى (آمين يا رب العالمين).
Comments are closed.