تبلیغی جماعت ، خدشات ،خطرات اور مستقبل کا عالمی منظرنامہ

عمر فراہی
مملکت سعود میں تبلیغی جماعت پر لگی پابندی پر سوشل میڈیا اور ملک کے علماء کے درمیان مختلف زاویے سے بحث ہو رہی ہے لیکن اصل نظریے تک رسائی کی کوشش اور رہنمائی کوئی نہیں کر رہا ہے ۔کوئی اسے مسلکی عصبیت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے تو کوئی اسے عقائد کی گمراہی کی نگاہ سے ۔اگر یہ پابندی عقائد کی گمراہی سے ہے تو پھر ریاض سیزن ٹو Riyadh season ..2کے نام سے ریاض شہر میں پچھلے ماہ جو فحاشی کی محفل منعقد ہوئی جس کی ویڈیو یو ٹیوب پر بھی موجود ہے اس رقص و سرور کی محفل کو وہاں کے علماء اور حکمراں دین کے کس پیمانے اور چشمے سے دیکھیں گے ۔یہ معاملہ مسلکی عصبیت کا بھی نہیں ہے ۔مملکت سعود کے حکمرانوں نے یا علماء نے اگر کبھی مسلکی عصبیت کا مظاہرہ کیا ہوتا تو شاہ فیصل ایوارڈ مولانا مودودی اور علی میاں ندوی کے بجائے صرف سلفی علماء کو دیا جاتا مگر میری معلومات کے مطابق بر صغیر میں یہ اعزاز کسی سلفی عالم دین کو نہیں حاصل ہوا ۔ ہاں مملکت سعود کا اپنا ایک الگ مسلک ضرور رہا ہے اور وہ یہ کہ اقتدار صرف آل سعود کے خاندان میں ہی رہے اور مملکت کے لوگوں میں کوئی تحریک سیاسی بیداری کی بات نہ کرے ۔جنھوں نے سیاسی اتھل پتھل کی بات کی ان کا حشر اچھا نہیں ہوا ۔
جہاں تک معاملہ مملکت سعود کا مغربی رنگ میں رنگنے کا ہے تو یہ پیشن گوئی روڈ ٹو مکہ کے نو مسلم مصنف محمد اسد صاحب نے سعود حکومت کے شروعاتی دور میں ہی کر دی تھی جبکہ اس وقت کے حالات کو دیکھ کر عام آدمی کیلئے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ مملکت سعود میں کبھی اس حد تک بھی بدلاؤ آ سکتا ہے ۔ریاض سیزن ٹو کو دیکھنے کے بعد موجودہ حکمراں کے جو عزائم ہیں اب جزیرۃ العرب کے مستقبل کیلئے صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں حدیث میں ویلل عرب ، مہدی اور دجال کی جو پیشن گوئیاں آئی ہیں دنیا تیزی کے ساتھ اس طرف قدم بڑھا رہی ہے ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دجالی فتنوں نے نام نہاد مسلم سلطنتوں اور خلافتوں کے خاتمے کےبعد ہی اپنا پر پھیلانا شروع کر دیا تھا اور ہم خوش تھے کہ دنیا میں ایک نیا جمہوری انقلاب آرہا ہے اور اب بغیر خوف و خطر کے علماء اپنی اسلامی دعوت کیلئے آزاد ہوں گے ۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی تحریک کسی بھی ملک میں کبھی آزاد نہیں تھی ۔شیطان اور اس کے قبیلے پچھلے سو سالوں سے ان تحریکوں پر نظر رکھے ہوۓ تھے اور انھیں ٹھنڈے بستر میں سمیٹنے کی سازش بھی کر رہے تھے مگر دعوت و تبلیغ میں مصروف تنظیموں کو اس کا ادراک نہیں تھا ۔آج بھی کچھ تحریکوں کے سربراہان سازش اور سازشی نظریے کو عمر فراہی جیسے قلمکاروں کی بکواس مانتے ہیں ۔ہندوستان میں دینی تنظیموں نے پچھلے ستر سالوں سے خود اپنے آپ اپنے اوپر پابندی لگا رکھی تھی ۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ساری جماعتیں کس طرح ایک دوسرے پر لعن طعن کرکے ملت اسلامیہ ہند کو معزور کر رہی تھیں اور اب یہ بے چاری ملت ایک قائد سے بھی محروم ہے ۔یہ کام باقاعدہ یہاں کی ایجنسیوں کے ذریعے ہی ہو رہا تھا مگر ہمیں اس کا شعور نہیں تھا ۔دوسری جماعتوں پر تبلیغی جماعت کے لوگوں کی دہشت سے بھی کون انکار کر سکتا ہے ۔آج بھی جماعت کی مسجدوں میں کسی دوسری جماعت کے لوگوں کی تقریر یا اللہ کی کتاب کا درس نہیں ہو سکتا ۔اب مملکت سعود نے اپنے مفاد کیلئے کچھ فیصلہ لیا ہے تو یہ بھی ان کا حق ہے کیوں کہ طاقتوروں کا ہمیشہ جلوہ ہوتا ہے ۔
یہ عنوان بھی اپنے آپ میں ایک وسیع بحث و مباحثہ کا متقاضی ہے کہ عالمی حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اب کچھ سیاسی فیصلے سعودی حکومت کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہیں ۔جن طاقتوں کا اوپر ہم نے تذکرہ کیا ہے انہوں نے ایک زمانے سے ورلڈ بینک اور مختلف فسادات اور جنگوں کی تصنیف کے ذریعے دنیا کی معیشت پر اپنے اختیارات کو مضبوط کرنا شروع کر دیا تھا ۔ ان طاقتوں نے نہ صرف دنیا کے معاشی حالات میں اتھل پتھل پیدا کر کے بہت سے ممالک کو ختم کر دیا جو بدعنوان حکمراں ان کے قابو میں رہتے ہوۓ اچھے بچوں کی طرح ان کی فرمانبرداری کر رہے ہیں ان ممالک میں وہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کیلئے مجبور بھی کرتی ہیں ۔موجودہ کویڈ یا کرونا بحران اور فساد کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔دجالی طاقتیں جہاں ابھی تک ورلڈ بینک کے ذریعے سیکولر ممالک کو قرض دیکر اپنے شکنجے میں قید کر چکی ہیں اب ان کے نشانے پر عرب حکومتیں بھی ہیں ۔2012 کی عرب بہاریہ سے عربوں کی اپنی معیشت بھی زبردست بحران کا شکار ہے ۔عراق شام مصر فلسطین اور لیبیا جو کبھی خوشحال ممالک ہوا کرتے تھے مسلسل خلفشار کی زد میں ہیں اور یمن کا بحران مملکت سعود کیلئے بھی مستقل سر درد بنا ہوا ہے ۔ انہیں اپنے صہیونی آقاؤں سے ہدایت مل چکی ہے کہ دبئی اور لبنان کی طرح اپنے شہروں کو خوبصورت اور رنگین بنائیں ۔تھیٹر کھلیں گے تو فلمیں بھی بنیں گیں ۔فلمیں بنیں گیں تو عربی لڑکیاں اپنے جسموں کا مظاہرہ کریں گی ۔ہوٹل بنیں گے اور شراب خانوں میں مہنگی شراب کی فروخت ہوگی اور دنیا شراب اور شباب پر ہی بے انتہا پیسے خرچ کرتی ہے ۔اس طرح دبئی کی طرح مملکت سعود کی معیشت بھی ترقی کے عروج کو پہنچ سکتی ہے ۔ 2012 کی عرب بہار تحریک سے مملکت سعود کو تو راحت مل گئی تھی مگر اب نئے ولی عہد محمد بن سلمان نے جس طرح اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی نظر بند کر کے بغاوت کا ماحول پیدا کر لیا ہے وہ مستقبل کی ہر ممکنہ بغاوت سے خود کو محفوظ کر لینا چاہتے ہیں ۔چونکہ تبلیغی جماعت کو اس کے غیر سیاسی نظریے کی وجہ سے باآسانی کہیں بھی آنے جانے اور اجتماع کی اجازت مل جاتی ہے اس لئے وہ طاقتیں جو حریت پسندوں سے خوفزدہ ہیں انہیں لگتا ہے کہ کہیں وہ تبلیغی جماعت کی آڑ میں ان کیلئے خطرہ نہ بن جائیں نہیں چاہتیں کہ اب تبلیغی جماعت کو بھی آزادانہ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اجازت دی جاۓ۔ تقریبا ایک سال پہلے "شیطان اور اس کے قبیلے "کے عنوان سے موجودہ حالات کے تناظر میں ہم نے ایک مضمون لکھا تھا کہ تبلیغی جماعت کے افراد بذات خود لوگوں کو سیاسی طور پر معزور کر کے دجالی نیو ورلڈ آرڈر کے لئے ہی معاون ثابت ہوۓ ہیں لیکن جو عالمی اسلامی تحریکیں اس دجالی نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف سیاسی طور پر بیدار ہیں اور مزاحمت کر رہی ہیں اور ان کے خلاف دجالی طاقتوں نے جس طرح گھیرا تنگ کر رکھا ہے کہیں یہ لوگ چور دروازے سے تبلیغی جماعت کو ایک پلیٹ فارم یا دروازے کے طور پر استعمال نہ کر لیں اس لئے اب ان کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا جاۓ گا ۔اس مضمون کو 22 جنوری کی تاریخ میں ہماری فیس بک ثائم لائن پر پڑھ لیں جس کا لنک کمنٹ باکس میں موجود ہے اور اسی کے ساتھ کسی انگلش اخبار کے Gate of terrorism کے جملے پر بھی غور کریں جس نے صاف طور پر لکھا ہے کہ تبلیغی جماعت پر پابندی لگانے کی اصل وجہ وہی ہے جس کا تذکرہ ہم اپنے مضمون میں کر چکے ہیں ۔
Comments are closed.