تبلیغی جماعت پر پابندی کے آثار

 

محمد صابر حسین ندوی

 

وقت کیا کیا رنگ دکھاتا ہے، کل تک جو جماعت امن و شانتی کی مثال تھی، جس کو روک ٹوک کرنا پسند نہیں کیا جاتا تھا اب اس پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں اور عالمگیر پیمانے پر اس کی تشہیر کی جارہی ہے، بالخصوص ایسا لگتا ہے کہ اب ہندوستان میں اس کے دن لَد گئے ہیں، چنانچہ کل بروز اتوار Twitter پر #Bantablighummat ٹرینڈ کروایا جارہا تھا، شام سات بجے تک بلکہ اس کے بعد بھی اسے top trend میں دیکھا جاسکتا تھا، اسے ایک مشن کی طرح جاری کیا گیا تھا، اس ٹرینڈ کو کھنگالتے وقت اندازہ یہ ہوا کہ بات بہت آگے نکل چکی ہے، متشدد، فاشسٹ ہندو اور ہندواحیائیت کے دعویدار، سنگھ کے سینے سے دودھ پی کر پرورش پانے والے، اس کی گود میں کھیل کر بڑے ہونے والے اور اس کی لوریاں سن کر زندگی کاٹنے والے ہر کسی کا یہی دعویٰ تھا کہ جماعت تبلیغ پر پابندی عائد کر دی جائے، ان کا موازنہ آر ایس ایس کی تحریک سے کیا جارہا تھا، آزادی ہند سے لیکر اب تک ان دونوں کے درمیان اہم عناصر تلاش کئے جارہے تھے، ان کی خدمات کا دائرہ بتلایا جارہا تھا اور کمیاں شمار کروا کر چٹکیاں لی جارہی تھیں، عموماً لوگوں کا اس بات پر اصرار تھا کہ تبلیغی جماعت سے ملک کا کوئی فائدہ نہیں، یہ دہشت گردی عام کرنے اور نوجوانوں کو ورغلانے کا ذریعہ ہے، ایک پوسٹ یہ دیکھی کہ کورونا کے دوران آر ایس ایس اور تبلیغی جماعت کا تقابل کیا گیا تھا، دونوں تحریکوں کی معروف تصاویر لگا کر یہ لکھا گیا تھا کہ آر ایس ایس نے کورونا کے زمانے میں لوگوں کے درمیان راشن بانٹا اور تبلیغیوں نے کورونا وائرس. حالانکہ حقیقت اس سے کہیں دور ہے، آر ایس ایس کورونا کے دور میں سب سے زیادہ پچھڑی ہوئی تھی، سماج کے مابین ان کی تحریک کا کوئی نام ونشان بھی نہ تھا، لوگ جب مر رہے تھے، خاص طور پر جب آکسیجن کی کمی اور اسپتال میں علاج کے بنا بری حالت ہوئی جارہی تھی اس وقت یہ کہیں غار و کھوہ میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے، جب طوفان سر سے گزر گیا، ابر صاف ہوگیا تب یہ لوگ باہر نکلے، مگر ہمیں یہ بھی قبول کرنا چاہئے کہ تبلیغی جماعت کا شاذ و نادر ہی کوئی رفاہی کردار تھا، بلکہ اس کے برعکس بعض اوقات غیر سنجیدہ رپورٹس بھی موصول ہوئیں۔

ہوسکتا ہے یہ کہا جائے کہ یہ مذہبی جماعت ہے اس لئے اس سے ایسی امید کیوں کی جارہی ہے، یہ بات ہم تک درست ہے؛ لیکن عام اذہان اسے ہضم نہیں کر پائیں گے، مصیبت کے وقت مذہبی و غیر مذہبی کی کوئی قید نہیں دیکھی جاتی، لوگ صرف مددگار کو دیکھتے ہیں، چنانچہ جب دہلی میں تبلیغ کے ساتھیوں نے پلاژما دیا تھا، روزے کے دوران روزہ کھول کر خون کا عطیہ بھی دیا تھا تب ان کی خوب واہ واہی ہوئی تھی؛ بہرحال اس Twitter trend پر ایک مضمون بھی دیکھنے کو ملا، یہ مضمون vishva sanwad kendra Bhopal جو آر ایس ایس کا نمائندہ اخبار ہے اس میں شائع ہوا تھا، اس میں وشو ہندو پریشد کے اعلی حکام میں سے ایک آلوک کمار نے سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جماعت پر پابندی لگائی جائے، اس کی تمام تر تحریکات پر روک لگا دی جائے، نہ کوئی جماعت جائے اور نہ کوئی اجتماع ہو، اس مضمون کو بڑی تعداد میں شیر کیا گیا تھا، اسے شئر کرتے ہوئے لوگوں نے مکمل تائیدی جملے بھی لکھے تھے، یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ اب جماعت تبلیغ کا مستقبل تاریک ہے، اس وقت پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن جاری ہے، متعدد بل ٹیبل پر موجود ہیں، ممکن ہے کہ ان میں کوئی ایک ایسا بھی ہو جس کا تعلق تبلیغ سے ہو، یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگلے چھ ماہ بعد اترپردیش اور پنجاب کے انتخابات ہی اس کا فیصلہ کریں گے کہ اس مسئلے میں اگلا قدم کیا لیا جاتا ہے، ملک کے مسلمانوں میں کھلبلی ہے، سعودی عرب کے فیصلے سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلیں، اس سے زیادہ تبلیغی جماعت کے ذمہ داران نہ جانے کس واہمہ میں مبتلا ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو بَس کام کرنا ہے؛ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر میدان ہی نہ رہے گا تو کام کہاں سے کریں گے، یہ وہ دور نہیں کہ ہجرت کر جائیں! بلکہ اس دور میں سیاست اور اصلاح دونوں ایک گاڑی کے دو پہیے کی مانند ہیں، صرف ایک پہیے پر گاڑی نہیں چلتی، ایک دھڑے پر چلتے جانا اور انجام کی پرواہ نہ کرنا دانش مندی نہیں ہے، یہ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی خلاف ہے، مکی زمانہ، پھر مدینہ کا ابتدائی دور، درمیانی عرصہ اور پھر اخیر کا زمانہ سب مختلف ہیں، حکمت ودانائی مومن کا شیوہ ہے، اگر ان سے پرہیز کیا گیا (جیسا کہ اب تک کیا جاتا رہا ہے) تو پیروں تلے زمین کھسک جائے گی اور آپ بلبلاتے رہ جائیں گے۔

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.