موہن بھاگوت کا بیان اور کرنے کے کام

محمد صابر حسین ندوی
آج موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ سارے ہندوستانیوں کا چار ہزار سال سے ایک ہی DNA رہا ہے، اس بیان سے یہ ثابت کرنا مراد ہے کہ فی الوقت ملک کی پوری آبادی ہندو ہے، اگرچہ لوگ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی و دیگر مذہبی دائروں میں منقسم ہیں؛ لیکن أصلاً ان سب کا مذہب ہندو ہونا ہی ہے، اس سے کچھ دن پہلے انہوں نے ایک مجلس میں باقاعدہ حلف دلوایا تھا کہ ہندو دھرم سے پلٹ جانے والوں کو گھر واپسی کروانا ہے، یہ ایک عام بات لگتی ہے؛ کہ جمہوری ملک میں ہر دھرم کو تبلیغ و اشاعت کا حق ہے، سو یہ بھی اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے، وہ دراصل ملک کی دوسرے سب سے بڑی آبادی کو ٹارگٹ کر رہے ہیں کہ ان کے پوروج، آباء و اجداد بھی ہندو تھے، جنہیں ڈر و خوف کے سایہ میں تبدیلی مذہب پر مجبور کیا گیا، چنانچہ اب انہیں ہندو مذہب میں واپس لانا چاہیے؛ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے جب موہن بھاگوت کی طرف سے ایسے بیانات دئے گئے ہوں، ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ صرف انہیں کا ماننا ہے؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عمومی لہر یہی پیدا ہوگئی ہے کہ مسلمان ہندو تھے، افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی بہت سے ایسے مل جاتے ہیں جن کا یہی دعوی ہوتا ہے، وہ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ ان کے آباء بھی ہندو تھے، اس اعتماد کے اندر وہ ملک میں رہنے کی وجہ اور اپنے وجود کی اکائی تلاش کر رہے ہوتے ہیں، وہ کسی بھی طرح Normalisation کا فارمولا استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا حل انہیں اتحاد مذہب میں ملتا ہے، یہی لوگ جو ماحول اور معاشرتی و سیاسی دباؤ میں نعمت خداوندی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں یا پھر ان کی اولادوں میں liberalism کا مادہ اس قدر سرایت کر جاتا ہے کہ وہ دہریت، ہندواحیائیت کی طرف بڑھ جاتے ہیں تو اس پورے عمل کو ہندوازم اپنی فتح سمجھتا ہے، پھر جب کوئی اسلام کو خیر باد کہہ دے تو اسے پورے ڈھول تاشے اور گاجے باجے کے ساتھ شمولیت کی سرٹیفکیٹ دی جاتی ہے۔
اس کے برعکس اگر کوئی ہندو آبائی مذہب چھوڑ کر اللہ تعالی کی رحمت کو اختیار کر لے تو پھر واویلا مچا دیا جاتا ہے، یہ منافقت علی الإعلان سڑکوں، چوراہوں اور جم غفیر کے ذریعہ احتجاجی مظاہروں سے ظاہر ہوتی ہے، سرکاروں کا کردار، قاعدے و قوانین بھی بدل جاتے ہیں، کورٹ کچہری کے چکر بھی لگانے پڑتے ہیں، fundamental rights کے باوجود اس شخص کو نچوڑ کر رکھ دیا جاتا ہے، ان سب حقائق کے دوران صد افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں اب بھی اس تعلق سے لاپرواہی برتی جارہی ہے، دعوت و تبلیغ کے نام پر اتنا بھی کرنے سے قاصر ہیں کہ اپنے بچوں، بچیوں میں توحید، رسالت، آخرت، جزا و سزا کا اسلامی concept ان میں جاں گزیں کردیں، ان کی فطرت میں یہ رچ بس جائے کہ کلمہ لاالہ کے سوا کچھ نہیں، شرک دنیا کا سب سے بڑا ظلم ہے، اپنے آقا و مالک کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہے، جس نے پیدا کیا، جو کھلاتا، پلاتا اور زندگی کے تمام سہولیات فراہم کرتا ہے اس کے ساتھ دوغلاپن ہے؛ بالخصوص اسکول و کالج جانے والے بچے اور بچیوں کیلئے ان بنیادی باتوں کو سینے سے لگانے اور دہریت و لادینیت؛ بلکہ ہندوازم کے پروپیگنڈوں اور فاشزم سے محفوظ رہنے کا گر سکھادیں، یقین جانیں! ہمارے پاس مواقع بہت کم ہیں، حالات کی سنگینی اور سیاسی جماعتوں کا دوغلاپن کے ساتھ اس مشن کو لیکر چلنا ہے، یہ وقت کا عظیم الشان فریضہ ہے، ہر ایک کو اپنے آس پاس اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ کیا اس کے دوست، رشتہ دار اور اقرباء و اعزاء دین کی بنیاد سے واقف ہیں یا نہیں، اگر نہیں ہیں تو اپنا کردار نبھائیے اور حکمت و دانائی کے ساتھ انہیں بتائیے کہ وہ مسلمان ہیں اور اسلام کی حقیقت کیا ہے؟
7987972043
Comments are closed.