عزت نفس بہت قیمتی دولت ہے، ہم اس کی حفاظت کریں

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ، نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
خودی، خوداری، خود اعتمادی،حیاء، غیرت، حمیت، شجاعت، صداقت، عدالت، حق گوئی، بے باکی اور عزت نفس یہ اور اس طرح کے الفاظ وہ ہیں، جن کو ہم کثرت سے بولتے اور سنتے ہیں،کہ یہ وہ اوصاف ہیں ، جن سے ایک انسان کو خاص طور ایک مومن بندے کو ضرور متصف ہونا چاہیے اور ان خوبیوں اور صفات کا اظہار ان کے اخلاق و کرادر میں ضرور شامل ہونا چاہیے، انسان کو ان صفات کا پرتو ہونا چاہیے۔۔۔ ان خوبیوں میں ایک عزت نفس بھی ہے، انسان کو عزت نفس کا ہر طرح سے خیال رکھنا چاہیے، انسان کو چاہیے کہ اپنی عزت نفس کا سودا کبھی نہ کرے، کیونکہ ہماری زندگی میں عزت نفس بہت قیمتی دولت اور سرمایہ ہے، بلکہ گنجہائے گرانمایہ ہے،اسے سنبھال کر رکھنا اور سربلند ہوکر عزت اور خود داری کے ساتھ جینا ہماری ذمہ داری اور فرض ہے۔۔۔ ہم یہاں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جو دنوں پہلے میری نظر سے گزرا ہے، جس سے ہم اور آپ اندازہ کر سکتے ہیں ، کہ عزت نفس کیا ہے؟ اور اس کی کتنی اہمیت ہے اور اس کی حفاظت کس قدر ضروری ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی افریقہ کے جنگ آزادی کے ہیرو و سابق صدر نیلسن منڈیلا جس زمانے میں یونیورسٹی میں قانون اور لا کی تعلیم حاصل کر رہے تھے ، ان کے ایک استاد مسٹر پیٹر ان سے بڑی نفرت کرتا تھا ، ایک مرتبہ مسٹر پیٹر یونیورسٹی کے کینٹین میں لنچ کر رہا تھا ، نیلسن منڈیلا اپنا کھانا لے کر اس کے قریب ہی میز پر بیٹھ گئے ، پیٹر نے گھور کر دیکھا اور کہا :
“ منڈیلا ، تجھے پتا نہیں کہ سور اور پرندہ کبھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں کھاتے؟ “
منڈیلا نے اپنے استاد پر ایک نگاہ ڈالی اور اطمئنان سے اپنا کھانا اٹھایا اور نرمی سے کہا:
“ استاذ جی آپ بالکل پریشان نہ ہوں میں اُڑ کر آپ سے دور چلا جاتا ہوں “
منڈیلا کے جواب نے استاد کے تن بدن میں آگ لگادی ، سوچا اسے جلد ہی مزا چکھاؤں گا ۔ دوسرے دن استاد نے کلاس میں منڈیلا سے سوال پوچھا :
“ منڈیلا یہ بتاؤ اگر تم کو راہ چلتے ایک بکس ملے جس میں دو تھیلے رکھے ہوں ، ایک مال سے بھرا ہوا اور دوسرا عقل و دانائی سے ، دونوں میں سے کونسا تھیلا اٹھانا پسند کرو گے ؟
“ جناب مال والا تھیلا “ منڈیلا نے بلا تردد جواب دیا ۔
پیٹر نے خوب مذاق اڑایا ، ہنستے ہوئے کہا :
“ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو عقل و دانائی سے بھرا ہوا تھیلا اٹھاتا”
“ درست فرمایا ، منڈیلا نے سنجیدگی طاری کرتے ہوئے جواب دیا :
“ جس کے پاس جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ اسے ہی حاصل کرنا چاہتا ہے “
یہ سننا تھا کہ مسٹر پیٹر آگ بگولہ ہوگئے ۔ پر کیا کرتے ، غصے و نفرت میں پیچ و تاب کھاتے رہے ، ایک امتحان کا موقع آیا، مسٹر پیٹر نے اپنا غصہ اس طرح اتارا کہ منڈیلا کی کاپی پر صرف “ احمق” لکھ کر ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔
منڈیلا کچھ دیر تک تو خاموشی سے کاپی دیکھتے رہے پھر استاد کے سامنے ادب سے دست بستہ کھڑے ہوئے اور کہا :
“ استاد جی ، آپ نےمیری کاپی پر دستخط تو کردیا ، پر نمبر دینا بھول گئے “ ۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ پیغام ملتاہے کہ ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی عزت نفس کا سودا کبھی نہ کریں ، ہم اپنی پہچان و عزت نفس کو سب سے قیمتی پونجی سمجھیں،اسے سنبھال کر رکھیں اور سر بلند رہ کر جینا سیکھیں ۔
بعض وہ لوگ جو لوگ علم و تحقیق اور تقریر و خطابت وعظ و نصیحت اور تحریر و تصنیف کے میدان میں مشہور ہوتے ہیں،بلا کے ذہین ہوتے ہیں اور اس میدان کے ماہر ہوتے ہیں، لیکن خودی، خود داری و خود اعتمادی اور عزت نفس کی دولت سے محروم ہوتے ہیں اور درہم و دینار کے سامنے رجھ جاتے ہیں، تو خواص ہی میں کیا، عوام الناس میں بے بے اعتبار ہوجاتے ہیں اور ان کی تحریر و تقریر اور وعظ و نصیحت کی اثر و تاثیر ختم ہوجاتی ہے، ایسے واعظوں اور مقرروں کو لوگ صرف گفتار کا غازی سمجھتے ہیں اور کردار سے عاری سمجھتے ہیں، اس لیے جو لوگ ممبر و محراب سنبھالتے ہیں اور اپنی شیریں بیانی سے لوگوں کو مسحور کرنا چاہتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ عوام کی تھرما میٹر اور سی سی کیمرے کو بھی دھیان میں رکھیں، ان کی نگاہیں بہت تیز ہوتی ہیں وہ گفتار و کردار کے فرق کو بہت سمجھتی ہے۔۔۔ خدا ہم سب کو اپنی خود داری،خود اعتمادی اور عزت نفس کی حفاظت کی بھرپور توفیق دے آمین۔۔۔۔
( ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل ، سوسائٹی، جھارکھنڈ )
Comments are closed.