ایک طرف PFI کارکنان پہ پولس کی بربریت, دوسری جانب SDPI رہنما کے ایس شان کا بہیمانہ قتل ۔

 

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن ۔۔۔۔۔

جس ملک میں محافظ یمراج بن جائیں، خاکی وردی ظالموں کی ڈھال بن جائے وہاں امن نہیں خونی تانڈاؤ ہوتا ہے اور بےگناہ نوجوانوں کو پولس حراست مین کبھی تھرڈ ڈگری ٹارچر کرکے پیشاب پینے پہ مجبور کرتی ہے تو کبھی جھوٹے اینکاؤنٹرس کئے جاتے ہیں یون محافظ کہلانے والی پولس معصوم نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلتی نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔
ایسی ہی ایک ہولی حال ہی میں منگلور کے اپننگاڈی پولس نے پی ایف آئی کے کارکنان کے خون سے کھیلی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
منگلور 14 دسمبر جب اپنگیڈا کی مقامی پولس نے منگل کی رات مظاہرین پر لاٹھی چارج کرکے انہیں لہولہان کردیا جو مبینہ طور پر ایک حالیہ حملہ کے کیس کے سلسلے میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) کے تین رہنماؤں کی حراست کے خلاف پولیس اسٹیشن کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔ اس واقعے میں 10 سے زائد افراد بہت ہی بُری طرح سے زخمی ہوچکے ہیں
خبروں کے مطابق، مقامی پولیس نے PFI اپنگیڈا کے صدر عبدالحمید ماجسٹک، ایس ڈی پی آئی صدر زکریا، اور اپنگیڈا بلاک صدر مصطفیٰ لطیف کو ایک حملہ کے کیس میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا اور بعد میں ان تینوں رہنماؤں کو حراست میں لے لیا ۔
جس کی مخالفت میں پی ایف آئی کے کارکنان پولس اسٹیشن کے باہر جمع ہوگئے اور فوری رہائی کا مطالبہ کرنے لگے
اس کے بعد مقامی ڈی وائ ایس پی نے موقع پر پہنچ کر مظاہرین کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ تینوں گرفتار افراد کو رہا کردیں گے۔
لیکن یہاں پر دو افراد کو حراست مین رکھ کر صرف ایک کو رہا کیا گیا
جس کی وجہ سے مظاہرین دوبارہ تقریبا دو سو کی تعداد میں جمع ہوکر پرامن احتجاج کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے رہنماؤں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنے لگے
لیکن اس بار پولس کا سنگھی چہرہ کھُل کر سامنے آتا ہے جب شام ڈھلتے ڈھلتے پولس احتجاجیون کو ڈرانے دھمکانے لگتی ہے، جب اس سے بھی بات نہیں بنتی تو خاکی وردی کو داغدار کرتے ہوئے مظاہرین پہ اندھا دھن لاٹھیاں برسانی شروع کردی جاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مظاہرین کو لہولہان کردیا جاتا ہے، یہ پولس کی جانب سے مظاہرین پر ایک قسم کا حملہ تھا ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ یہان اگر پولس کا مقصد محض مظاہرین کو روکنا، یا جائے وقوع سے ہٹانا ہوتا تو وہ پیرون پہ لاٹھیاں برساتی نہ کہ نوجوانوں کے سروں پہ لاٹھیاں مار کر سر پھوڑے جاتے۔۔۔۔۔۔
اس دوران موقعہ کی ایسی کئ ویڈیوز بھی سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں جس میں پولس موقعہ پر نماز پڑھ رہے مظاہرین کو اکساتی ہوئی، دھمکیاں دیتی اور بےبنیاد الزامات لگاتی نظر آرہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ان سب کے بیچ پولس کی جانب سے خود کے بچاؤ میں مظاہرین پہ ایک خاتون پولس اہلکار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ، پولس تھانہ اور پولس اہلکار پر چاقو سے حملہ کئے جانے جیسے چھچورے و بےبنیاد الزامات لگائے گئے ۔۔۔۔۔۔
لیکن ان الزامات کو ثابت کرنے کے لئے پولس کے پاس کسی قسم کا ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا یہان تک کہ موقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج تک نہیں ہے اس کے علاوہ خود کو زخمی ہونے کا دعوی کرنے والے پولس افسر پرسنا کا جھوٹ اُس وقت بےنقاب ہوا جب موقعہ کی ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں خود کو زخمی بتانے والا پولس ٹھیک ٹھاک پولس گیری کرتا دکھائی دے رہا ہے ، اس دوران اس کو ہاتھوں پر نہ بینڈیس لگی ہے نہ ہی جسم کے کسی حصہ پر کسی قسم کا زخم نظرآرہا ہے
ایسے میں اس حملہ کے پیچھے پولس کی منشہ پولس کی نیت صاف نظر آتی ہے کہ یہان پولس کا مقصد ایک مخصوص کمیونٹی کو ٹارگیٹ کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال ابھی یہ معاملہ تھما نہیں تھا، ابھی پی ایف آئی مظاہرین کے زخم بھرے بھی نہیں تھے کہ اسی دوران
ہفتہ کی رات سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے رہنما کے ایس شان کا قتل کر دیا گیا۔
کے ایس شان پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ بائک سے اپنے گھر جا رہے تھے۔ اس دوران ایک کار نے انہیں ٹکر مار دی۔ جس کے بعد کے ایس شان سڑک پر گر گئے اور کار میں سوار بدمعاشوں نے انہیں قتل کردیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ حملے کے بعد کچھ لوگ انہیں گورنمنٹ میڈیکل کالج لے گئے جہاں چند گھنٹوں کے علاج کے بعد ان کی موت ہو گئی۔ ان کے جسم پر 40 سے زائد زخموں کے نشانات تھے۔ فی الحال پارٹی نے اس قتل کے لیے آر ایس ایس کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔۔۔۔۔
یون کہیں آر ایس ایس کی سنگھی خونی بھیڑ کے ہاتھوں تو کہیں سنگھی پولس کے ہاتھوں بےقسور نوجوانوں کو زدوکوب کیا جارہا ہے اور ان کا ناحق خون بہایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس پہ ستم ظریفی اپنوں کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے والے یہ نوجوان اکثر اپنوں ہی کے ستائے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ایسے مین انصاف کا مطالبہ کریں بھی تو کس سے ؟ اس خونی راج میں آگے بڑھ کر عوام کے تحفظ کو یقینی کون بنائے ؟
جہاں منصف ہی قاتل ہو اور ظالموں کے سر پہ حکمرانوں کی دست گیری ہو ۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.