مٹ گیا جب مٹانے والا، پھر سلام آیا تو کیا!

 

محمد صابر حسین ندوی

 

انسان کا حلق شدت پیاس سے خشک ہوا جارہا ہے، ایک ایک بوند کو وہ ترس رہا ہے، وہ دعائیں مانگ رہا ہے، آتے جاتے لوگوں سے گہار لگا رہا ہے کہ کوئی پانی کا ایک قطرہ منہ میں ڈال دے اور اس کے گلے کی خشکی دور کردے؛ لیکن دشمن کیا دوست بھی کنارے ہوگئے ہیں، ہر کسی نے ہاتھ کھینچ لیا ہے، وہ تڑپ رہا ہے، سسک رہا ہے، مگر کسی دل میں انسانیت نہ جاگی، کسی نے اسے پانی نہ دیا، وہ گڑ گڑاتا ،مچلتا اور رینگتا ہوا کہیں نہ کہیں پانی پالیتا ہے، اگرچہ کم ہے؛ لیکن اس سے حلق تر ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد ازراہے ہمدردی کہئے یا کچھ اور جانئے! وہ لوگ بھی پانی بھر بھر لاتے ہیں، اسے پلانا چاہتے ہیں، مگر وہ یہی کہتا ہے:

مٹ گیا جب مٹانے والا ، پھر سلام آیا تو کیا

دِل کی بربادی کے بعد اُن کا پیام آیا تو کیا

پیاس بجھ جانے کے بعد دریا بھی کسی کام کا نہیں، وقت پر اگر ایک گھونٹ میسر نہ ہو اور بعد ازاں نہریں اور جھرنیں بہادی جائیں تب بھی کیا فائدہ؟ انسانی معاشرے کی یہ بڑی پریشانی ہے کہ وہ معاملہ سنجیدہ ہوجانے کا انتظار کرتے ہیں، بہت سے صاحب ثروت اپنی جمع پونجی پر ڈنک مارے بیٹھے رہتے ہیں، منتظمین غفلت کی چادر تانے سوئے رہتے ہیں، احباب اپنے ہی دوستوں اور یاروں سے منہ موڑے خفا خفا رہتے ہیں؛ لیکن جب معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے، یا بہت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے، چہار جانب سے کبھی طعن و تشنیع تو کبھی بےعزتی اور بے گانگی عام. ہوجاتی ہے؛ تب وہ نیند سے بیدار ہوتے ہیں، پھر وہ سوچتے ہیں کہ جھٹ پٹ سب کچھ کردیا جائے، سابقہ کوتاہی کی تلافی کردی جائے، تلافی مافات کیلئے جھوٹ، منافقت اور ظاہر پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ وہ اس کردار سے ہر ایک کو بیوقوف بنا دیں گے، ہر کسی کی آنکھوں میں دھول جھونک دیں گے اور پھر سینہ چوڑا کرتے ہوئے اپنی کارکردگی کی نمائش کریں گے، مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ زخم گہرا ہو تو کتنا ہی کچھ کر لیجیے! دوائیں، انجیکشن اور پھر ٹانکیں بھی لگا لیں؛ لیکن اس کا اثر کبھی نہیں جاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ بہت سی باتیں وقت پر ہی جچتی ہیں، ایک شخص کسی کے گھر چکر لگا، لگا کر ایڑیاں رگڑ لے، پھر اسے مطلوبہ شئی ملے تو اس چیز کی قدر اور ضرورت بھی گھٹ جاتی ہے، جب دل میں ارمان مچل رہے ہوں، تقاضے سر پر کھڑے ہوں، ضرورت کی گٹھری کھلی ہوئی ہو؛ ایسے میں اگر کوئی ہمدم، معاون اور خیر خواہ ہاتھ بڑھادے، تعاون کرتے ہوئے آپ کی ضرورتیں پوری کردے، تو آپ اسے سدا یاد رکھتے ہیں، ہمیشہ اس کا تذکرہ خیر کرتے ہیں، وہ دل کی بستی میں بس جاتا ہے، مگر کوئی وقت پر منہ موڑ جائے، پانی جب سر سے گزر جائے اور پھر مدد کرے تو یقیناً اس تعاون کو سراہتے ہیں؛ لیکن زیادہ تر وہ رسمی ہی ہوا کرتا ہے، یہ تعلقات کو مضبوط نہیں کرتے، شکستہ دل کو جوڑتے نہیں ہیں؛ بلکہ بسااوقات وہ شخص دل میں کسک محسوس کرتا ہے، اس کی تکالیف اور زخم ہرے ہوجاتے ہیں، بعض اوقات مجبوریوں کی بنا پر کھوئی ہوئی اور مطلوبہ شئی کو یاد کر کے آنسو رواں ہوجاتے ہیں؛ کف افسوس ملتا ہوا کبھی وہ ان نامہ بر کو دیکھتا ہے تو کبھی اپنے نصیب کو پیٹتا ہے، آخر کیا کرے؟ ضرورت تو گزر گئی، وقت تو بیت گیا، جو ہونا تھا سو ہوگیا، واقعی ہمارے معاشرے میں اس طرح کا رویہ بھی بڑا رواج پایا ہوا ہے، رشتے دار و احباب کے درمیان بھی یہ بڑی کمی محسوس ہوتی ہے، یہ ایک عام سی بات ہے کہ ہر چیز کی قدر وقت پر ہوتی ہے، بارش اگر اپنے سیزن سے پہلے ہوجائے تو بھی نقصان دہ ہے اور اگر بعد میں ہو تو بھی فصلیں خراب ہی ہوتی ہیں، نظام کائنات ہی دیکھ لیجیے! ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر فٹ ہے، سائنس دان کہتے ہیں، جو عین قرآن کا نقطہ نظر ہے کہ اگر ذرا سا بھی ان کے درمیان تفوق، کمی و بیشی ہوتی تو سب کچھ برباد ہوجاتا، بھوکا صرف بھوک کے وقت پیٹ بھر کر اور لطف اندوز ہو کر کھاتا ہے، اگر شدت بھوک نہ ہو تو پھر لذیذ ترین کھانے بھی اہمیت نہیں رکھتے، شاعر نے یونہی نہیں کہا:

مٹ گیا جب مٹانے والا ، پھر سلام آیا تو کیا

دِل کی بربادی کے بعد اُن کا پیام آیا تو کیا

 

چھوٹ گئیں نبضیں ، اُمیدیں دینے والی ہیں جواب

اب اُدھر سے نامہ بر لے کے پیام آیا تو کیا

 

آج ہی مٹنا تھا اے دِل ! حسرتِ دیدار میں

تُو میری ناکامیوں کے بعد کام آیا تو کیا

 

کاش اپنی زندگی میں ہم یہ منظر دیکھتے

اب سرِ تُربت کوئی محشر خرام آیا تو کیا

 

سانس اُکھڑی، آس ٹوٹی، چھا گیا جب رنگِ یاس

نامہ بر لایا تو کیا، خط میرے نام آیا تو کیا

 

مِل گیا وہ خاک میں جس دِل میں تھا ارمانِ دید

اب کوئی خورشید وش بالائے بام آیا تو کیا ؟

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.