آخرکب تک؟

سمیع اللہ ملک
انسانی نفسیات اورمزاج کاایک رخ یہ بھی ہے کہ وہ اکثردورانِ گفتگویاجوشِ خطابت میں جھوٹ بول جاتاہے۔کبھی اس عمل کے پسِ پشت محض زبان کاچٹخارہ ہوتاہے کبھی جھوٹی معلومات کے بل بوتے پراپناقدبڑھایاجاتاہے۔ایسابھی ہوتاہے کہ اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل میں اپنے مخالفین کے بارے میں ڈس انفارمیشن کواسٹریٹجک طریقہ کارسمجھ لیاجاتا ہے۔ایسے رویے شکست خوردگی کے احساس کی غمازی کرتے ہیں۔یہ کہنادرست ہوگاکہ جھوٹ،خودبولنے والے کے زاویہ نظرسے راست نسبت رکھتاہے۔اس ذہنی کج روی کی گواہی قرآن ان الفاظ میں دیتاہے کہ’’ص قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی،بلکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ماننے سے انکارکیاہے،سخت تکبراورضد میں مبتلا ہیں۔ (سور ۃص1۔2)
ایسے لوگ جوکچھ دیکھتے اورجوسنتے ہیں،اس کی تشریح اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق کرتے رہتے ہیں۔دل کی تنگی اورفہم و فراست کی پستی اس سطح پرآجاتی ہے کہ عقل وفہم کے حوالے سے وہ خودکواس بلندی کااہل ماننے لگتے ہیں کہ سمجھ کے پیمانے کوکل کی انتہاثابت کرنے پربضدرہیں اوراس انتہاتک جاپہنچتے ہیں کہ ہدائتِ ربانی میں بھی کھوٹ نکالناسوجھ بوجھ کی علامت گردانتے ہیں۔اس بزعمِ خودغلط سوچ کے حامل انسانوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
اپنی فطرت کے مطابق انسان نیک ہے۔اپنے منفی نفسِ ذات کے تحت کوئی فردنیکی کرنے سے گریزکرتاہو،تب بھی اس کی طبیعت نیکی سے نفرت پرمائل نہیں ہوتی،نتیجے میں نیکی کی بجائے نیکی کرنے والے کے خلاف اس کے دل میں منفی جذبات پیداہوجائیں۔اس کی یہ دلی خواہش ہوجائے کہ نیکی کرنے والابھی اس کے چلن پرچل نکلے۔قرآنِ اس نفسیاتی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کرتاہے کہ ’’بہت سے اہل کتاب اپنے دل کی جلن سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لا چکنے کے بعد تم کو پھر کافر بنا دیں‘‘(سور البقرہ:109)اس کے جواب میں نیک خوکولازم ہے کہ اپنے خلاف حسد کے اظہارمیں وہ اپنی متعین کردہ حدود سے تجاوزنہ کرے۔بحث میں الجھنے اورخوداپنے دل میں منفی خیالات کوجگہ دینے کی بجائے اس حکمت کواختیارکرے جس کی قرآنِ نے اس بیان میں نشاندہی کی ہے۔’’تم عفودرگزرسے کام لو،یہاں تک کہ اللہ خودہی اپنافیصلہ نافذکردے۔مطمئن رہوکہ اللہ ہرچیزپر قدرت رکھتا ہے(سور البقرہ۔109)
وہ لوگ جواپنی برتری یاجوشِ خطابت میں جھوٹ پراڑے رہتے ہیں،اس پہلوپرتوجہ نہیں دیتے کہ کہی گئی بات عقل کے کسی پیمانے پردرست نہیں بیٹھتی ہے۔تھک ہارکرالٹاوہ مخالف پرالزامات لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔سچائی سے چشم پوشی کے اس جرم پرقرآنِ کابیان ہے’’جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تم کو کچھ علم نہ تھا اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے تھے اور خدا کے نزدیک وہ بڑی بھاری بات تھی(سور النور:15)
اخلاقی تقاضوں کاایک رخ تویہ ہے کہ غلط بات کہی نہ جائے اوراگربے خیالی اورلاپرواہی میں کہی جاچکی ہے توخوداس کی تردیدکرنی چاہئے۔دل میں بسی منافقت پرپردہ ڈالنے اور اپنے غلط کودرست ثابت کرنے کی کوشش میں الزامات لگانے کی رِوش کوئی نئی نہیں ہے۔
مملکتِ مدینہ کے قیام کے ساتھ ہی مختلف واقعات کے تناظرمیں خطے کی سیاست میں انقلابی تبدیلی کی علامات ظاہرہونے لگیں۔اپنی انتہاپر’’صلح حدیبیہ‘‘ متعارف ہوئی،جس کواللہ نے’’کھلی فتح‘‘کانام دیا۔اس واقعے کے تسلسل میں یہ واضح ہوگیاکہ اب جزیرہ نماعرب کی بیش تربستیاں مملکتِ مدینہ کی پاسبانی کے بغیراپنا وجود کھوبیٹھیں گی۔اللہ کے وعدے کے مطابق پاسبانی کی خواہاں ان بستیوں کوفتح کرنااب آسان تھا۔اس مرحلے پرایسے لوگ جوگزشتہ مراحل پرجنگ میں شرکت سے جی چراتے تھے،اب مالِ غنیمت کی لالچ میں اورخطرات نہ ہونے کے سبب اپنی نام نہاد سرفروشی کے اظہارمیں پیش پیش ہوگئے۔سابقہ عدمِ شرکت پرانہوں نے یہ جھوٹاجوازگھڑلیاتھاکہ ان کی کلیدی پوزیشن سے حسدکے سبب ان کوشرکت کی دعوت ہی نہیں دی جاتی تھی۔ان کے رویوں کوقرآنِ نے ان الفاظ میں ردکیاہے’’نہیں،بلکہ تم لوگ ہم سے حسدکررہے ہو(حالانکہ بات حسد کی نہیں تھی)بلکہ یہ لوگ صحیح بات کوکم ہی سمجھتے ہیں(سور الفتح ۔15)
انسانیت کی فلاح وبہبودکیلئے ہدایاتِ ربانی پرعمل کرنے کے برعکس ہردورمیں مادیت پرستوں نے مالی،معاشرتی اورسیاسی میدان میں حصولِ مفاد کیلئے دروغ گوئی کوسائنسٹفک ذریعہ سمجھاہے۔ایک ایسی سیڑھی،جس کے استعمال پران کوکبھی شرمندگی نہیں ہوتی۔سچائی یہی ہے کہ جھوٹ کے پسِ پشت،جوشِ خطابت ہو،محض زبان کاچٹخارہ ہو،جھوٹی معلومات کے بل پراپناقدبڑھاناہویامخالفین کی ڈس انفارمیشن ہو،نفسیاتی پیمانے پرایسے تمام رویے شکست خوردگی کے احساس کی غمازی کرتے ہیں۔ایسی زندگی انسان کوکامیابی سے دورکر دے گی۔وہ جاہ وحشم جوکسی دروغ گوکوملا نظر آتاہے،ایک دھوکااور سراب ہے۔اس کی اصل وہی ہے جوقرآنِ میں اس اندازمیں بیان ہوئی ہے’’ان میں سے کوئی توایساہے، جوکہتا ہے کہ اے ہمارے رب!ہمیں دنیامیں سب کچھ دیدے(دیکھواس کے مانگنے پراس کودے تودیاجاتاہے لیکن)ایسے شخص کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں(سور البقرہ۔200)
عقل وخردکاتقاضہ ہے کہ وقتی تسکین اورخواہشات کی بجائے ہمیشگی پرنظررہے،صداقت اورراست گوئی کواپنالازمی شعار بنالیاجائے،یہی نجات اورفلاح کی راہ ہے۔ارشادِنبوی کے بہ موجب’’سچائی انسان کونجات دلاتی ہے اورجھوٹ اسے ہلاک کر دیتاہے‘‘۔
وطن عزیزقرضوں کی لعنت میںدھنس چکاہے۔آپ کے پڑوس میں افغان جواس وقت دنیاکے بدترین معاشی استحصال کاشکارہیں اورجن کی نصف سے زیادہ آبادی خوراک کی کمی کی بناء پرفاقوں میں مبتلاہوگئی ہے،بچوں کی کثیرتعدادمختلف بیماریوں میں مبتلاہوچکی ہے،ایسے ماحول میں چین نے مددکرنے کیلئے خاص رقم مختص کی لیکن اس مددکے ساتھ’’سروسز‘‘کے نام پرشرائط عائدکردیں جوکہ سودکے زمرے میں آتی تھیں ۔طالبان حکومت نے اسے قبول کرنے کی بجائے بھوکامرنے کوترجیح دی ہے۔مجھے یقین ہے کہ میرارب انہیں اس آزمائش میں بھی کامیاب فرمائے گالیکن ہم نے تواس معجزاتی ریاست کیلئے اپنے رب سے’’اوفوبالعہد‘‘کیاتھاکہ ہم اس خدادادریاست میں مکمل قرآن کونافذکریں گے لیکن مدینہ ریاست بنانے کیلئے ہم نے ریاست مدینہ کے سربراہ سے تین ارب ڈالرکاقرضہ چارفیصدسودسالانہ پرحاصل کرکے سودی نظام میں خودکوجکڑلیاہے توپھرخودہی سوچیں کہ آخرکب تک آپ اس ذلت کے عذاب سے بچ سکیں گے۔ آخرکب تک آپ اس قوم سے جھوٹ بولتے رہیں گے۔

 

 

Comments are closed.