اسلام دولت کے ارتکاز کا مخالف کیوں؟

یعنی اسلام ان کاموں کا مخالف کیوں جن سے دولت سمٹ کر چند لوگوں کے پاس رہ جاتی ہے
ظفر لکھیم پوری
بصیرت آن لائن
6281316557
کیونکہ انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ معاشیات کا ہے،انسان چاہتا ہے کہ اسے مکمل آزادی ہو کہ جس طرح چاہے کمائے، جس طرح چاہے کھائے، اس کے لئے کوئی حد بندی نہ کی جائے، شریعت کی جانب سے کسی بھی قسم کی روک ٹوک نہ ہو،جبکہ اسلام اس نظریہ کا سخت مخالف ہے ، کیونکہ یہ سوچ انسانی بقاء اور خدا کے بندوں کے درمیان توازن کے خلاف ہے، اس نظریہ کا سیدھا نتیجہ یہ ہوگا کہ دولت سمٹ کر چند لوگوں کے درمیان رہ جائے گی، خوب یاد رہے کہ جب دولت سمٹ کر چند لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے تو دنیا میں فسادات کی راہیں کھلتی ہیں، امن و سکون ختم ہوجاتا ہے، غربت و افلاس بڑھتی ہے، حتیٰ کہ عام لوگ غذائی اجناس اور زندگی کی بنیادی ضروریات کے بھی محتاج ہوجاتے ہیں۔
سوال یہ ہےکہ دولت کا ارتکاز ہوتا کس طرح ہے؟
معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام نے لوگوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لئے اجتماعی نظام حیات بنایا ہے کہ کسی بھی طرح دولت چند لوگوں کی مٹھی میں سمٹ کر نہ رہے بلکہ عام لوگوں تک بھی ان کی محنت کے بقدر پہونچے ، المیہ یہ ہے کہ مغرب نےدنیا کو جو اقتصادی طور پر ابھرنے کے لئے طریقے پیش کئے ،دنیا نے ظاہر کو دیکھ کر قبول کرلیا حالانکہ یہ صرف فریب ہے، حقیقت میں یہ سب محنت کشوں اور عوام کی دولت کو غلط راستوں سے ہتھیانے اور فطرت کے مقرر کردہ اصول و قوانین سے بغاوت کرنا ہے ۔
اسلام نے ان تمام راستوں کا سد باب کیا اور سختی سے روک لگائی ہے جن سے دولت سمٹ کر چند لوگوں کی مٹھی میں رہ جاتی ہے۔
دولت کے ارتکاز کے چند بنیادی ذرائع
۱۔سودی کاروبار معاشرے کے لئے ناسور
سودی کاروبار کہ ایک انسان زندگی بھر بآسانی روپئے کماتا ہے جبکہ دوسرے لوگ عمر بھر محنت و مشقت کے بوجھ تلے دب کر قرضے ادا کرتے رہتے ہیں یعنی کئی سارے لوگوں کی کمائی ہوئ دولت ایک فرد کی مٹھی میں چلی جاتی ہے، یہ قدرت کے مقرر کردہ توازن کو توڑنا ہے ، کیونکہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے جو نظام محمد عربی ﷺ لیکر آئے تھے اس میں سودی کاروبار کو قطعی طور پر حرام بتایا گیا ہے، خدائی اعلان ہے کہ سودی کاروبار بے برکتی کا باعث ہے ، اللہ نے صدقات، زکوۃ، کے نظام کو مقرر کیا اور فرمایا کہ یہ تمھاری ترقی کا باعث ہے، یہ سکون و اطمینان کا ذریعہ ہے ،جو بظاہر سمجھ سے باہر کی چیز ہے لیکن باریک بینی سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ واقعی قدرت نے اس نظام میں انسانوں کے لئے ترقیات کے دروازے کھولے ہیں ، مثلاً جب زکوٰۃ کا مال ایک جیب سے نکل کر چند لوگوں کی جیبوں میں منتقل ہوتا ہے تو لوگوں کے درمیان چیزوں کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، معیشت ترقی کرتی ہے، تجارت بڑھتی ہے، اسلام نے کتنے انوکھے انداز میں فرمایا:
وفى اموالكم حق للسائل والمحروم
کہ تمھارے مالوں میں فقراء اور مفلسین کا بھی حق ہے
فرمایا،زکوٰۃ کو حق سے تعبیر کرکے زوردیا کہ لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی میں سستی نہ کریں ۔
اسلام نے ایک طرف سودی کاروبار کو حرام قراردیا تو دوسری طرف زکوٰۃ کے نظام کو مقرر کیا کیونکہ سود دولت کے ارتکاز کا سبب ہے جس کی وجہ سے امن و سکون ختم ہو جاتا ہے جبکہ زکوٰۃ دولت میں توازن باقی رکھتی ہے جس سے ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
۲ ۔لاٹری نہیں بربادی
لاٹری کے دام فریب میں آکر لمحوں میں بخت کے تخت پر یکلخت بیٹھنے کا خواب دیکھنے والوں نے تو خاندان کے خاندان میں دہشت پھیلائی ہوئی ہے، لوگوں کا چین سکون ختم ہو چکا ہے ، گھروں کے گھر اجڑ گئے ہیں، کیونکہ ہزاروں لوگ اپنی محنت کی کمائی کو داؤ پر لگاتے ہیں تو کسی ایک دو کو ہی لاٹری نکلتی ہے ہوتا یہ ہے کہ اتنے لوگوں کی کمائی گئی دولت جب دو چند لوگوں کی جیب میں پہونچتی ہے تو پھر لڑائی جھگڑے، اختلافات ہوتے ہیں، جنون اس درجہ بڑھ جاتا ہے کہ چوری، ڈاکہ زنی ، لوٹ مار کرنے بھی نہیں گھبراتا ہے، جس سے بدامنی پھیلتی ہے، چونکہ لاٹری میں بھی دولت کا ارتکاز ہے مزید یہ کہ دیگر بہت ساری خرابیاں ہیں اسلئے اسکو بھی حرام قرار دیکر سختی سے روکتا ہے۔
صدقات پرامن زندگی کےضامن ہوتے ہیں
اسلام نے غریب، نادار لوگوں کی امداد کرنے کے لئے نہایت عظیم الشان نظام دنیا والوں کے سامنے صدقات کی شکل میں متعارف کروایا
اور احسان یہ کہ اللہ تعالی نے بندوں کے اطمینان کی خاطر انفاق فی سبیل للہ کو قرض حسن سے تعبیر کیا تاکہ لوگ مطمئن ہوکر اللہ کی راہ میں خرچ کریں ، پھر یہ کہ صدقات کو انفاق فی سبیل للہ کہا تاکہ غرباء کو عار محسوس نہ ہو ۔
الحاصل! یہ ایسا نظام قدرت ہے کہ اگر اس ہر عمل آوری کیاجائے تو دنیا میں سکون و اطمینان باقی رہے گا اور چوری، ڈکیتی، جیسی واردات کی شرحوں میں گراوٹ بھی ہوگی کیونکہ جب ہر صاحب ثروت غرباء کا خیال کرے گا تو کہیں کوئی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہی نہ رہے گا کہ یہ جرائم کرنے کی نوبت آئے۔
نظام میراث
ظہور اسلام سے قبل دولت کو مرتکز کرنے کا سب سے بڑا ذریعے یہ تھا کہ باپ اپنی زندگی میں ہی کسی ایک وارث کو اپنی پوری جائداد اسی پر نامزد کرجاتا جس سے دوسرے ورثہ میں میراث کی تقسیم کا تصور ہی ختم ہو جاتا تھا ،اسی طرح ان کے ہاں بیٹیوں کے میراث میں حقدار بنانے کا بھی کوئی تصور نہ تھا، جس کی وجہ سے آپسی نااتفاقیاں، لڑائیاں اور فتنے پھیلتے تھے ۔
اسلام نے ’یوصیکم اللہ فی اولادکم الخ‘ کے انصاف پسند ضابطے کے ذریعے اس رسم بد کی روک تھام کی ،کیونکہ شارع کو معلوم تھا کہ جب دولت کسی ایک تالاب میں مرتکز ہوکر ٹھہر جاتی ہے تو پانی سڑک کر پورے ماحول کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔
مزید یہ کہ اسلام نے تفصیل سے حصے متعین کرکے وراثت کو موت پر موقوف کردیا تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی، ہمدردی اور محبت کسی لالچ کے تحت نہ ہو۔
لڑکیوں کے نکاح ، مناسب رشتوں کے ملنے پر کرنے اور عقد ثانی پر زور
لوگ اس ڈر سے کہ کہیں گھر کی دولت تیسرے خاندان میں نہ چلی جائے غیر مناسب جگہ اپنی مرضی کے مطابق رشتے کرتے یا پھر روک کر رکھتے ،اسلام نے سختی سے ایسا کرنے سے روکا، اور مناسب رشتے ملنے ہر نکاح کرانے کا حکم دیا تاکہ معاشرے میں حیاء، پاکیزگی باقی رہے ،اسی طرح عقد ثانی پر بھی زور دیا تاکہ مسائل نہ کھڑے ہوں ،معاشرہ پاک رہے ، صاف رہے کیونکہ لوگ دولت کے کہیں چلے جانے کے ڈر سے نکاح کی اجازت نہیں دیتے اور روک کر رکھ لیتے کہ جب یہ مرےگی تو اسکے کل مال کے ہم مالک ہوجائیں گے،
یا نکاح کراتے بھی تو بہت زیادہ مہر باندھ دیتے تاکہ ڈھیر ساری دولت ہاتھ لگے اور پھر وہ پئسے اپنے پاس ہی رکھ لیتے۔
وصیت کا نظام
دولت کے مرتکز کرنے کا ایک راستہ وصیت بھی ہو سکتا تھا کہ مرنے والا مرنے سے پہلے وصیت کرجاتا کہ میرے فلاں فلاں مال کا فلاں وارث اور میرافلاں رشتہ دار محروم، شریعت نے اس راستے کو بھی بندکردیا فرمادیا گیا کہ:
’لا وصیۃ لوارث‘
کہ وارث کیلئے کوئی وصیت نہیں ہے
پھر ممکن تھا کہ کوئی کسی کو محبت کی بنیاد پر وصیت کرجاتا کہ دوسرے ورثہ کا حق دبا لیاجاتا اسلام نے اس راستے کو بھی بند کرکے ایک تہائی سے زیادہ وصیت کی اجازت ہی روک لی۔
الحاصل!اسلام دولت کی تقسیم میں اعتدال اور انصاف کا قائل ہے اس لئے وہ تمام راستے بند کر دئے گئے جہازوں دولت کے سمٹ جانے کا خدشہ تھا، شریعت نے ایسے اصول مقرر کئے کہ حلال معیشت میں اضافہ ہو دولت چند لوگوں کی جیب کی زینت نہ بنے بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچے اور خلق خدا کے درمیان توازن باقی رہے۔
Comments are closed.