گڑگاؤں نماز جمعہ معاملہ ؛یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
زائد از تین مہینے ہوگئے گڑگاؤں میں ہر ہفتے نماز جمعہ کے وقت ہندو تنظیموں کی جانب سے رخنہ اندازی اور احتجاج ہوتا ہے ۔ کبھی ان تنظیموں نے نماز کی جگہ پر گوبر بچھا دیا کبھی گاڑیاں پارک کردیں اور کبھی پوجا پاٹ شروع کی نعرے بازی کی۔گڑگاؤں میں مسلمان کئی سالوں سے خالی پلاٹس اور پارکوں میں تقریباً ۱۰۸ مقامات پر نماز جمعہ ادا کرتے آئے ہیں اور یہ سب انتظامیہ سے اجازت لے کر ہورہا تھا ۔ مئی ۲۰۱۸ میں پہلی بار اس طرح نماز کی ادائیگی کے خلاف ہندو تنظیموں کی طرف سے احتجاج درج کروایا گیا جس کے بعد نماز کے مجوزہ مقامات ۱۰۸ سے کم کرکے ۳۷ کر دئے گئے معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا اور اب ستمبر سے ہندو تنظیموں کے دوبارہ مسلسل احتجاج کے بعد انتظا میہ نے مقامی رہائشیوں کی مخالفت کے نام مزید ۸ مقامات کی اجازت ختم کردی ۔ لیکن معاملہ اب بھی ختم نہیں ہوا ہندو تنظیموں نے بقیہ مقامات پر بھی احتجاج جاری رکھا جس کی وجہ سے یہ مقامات مزید کم ہوکر صرف بیس رہ گئے ۔ انتظامیہ نے ایک طرف ہندو تنظیموں کے احتجاج کی وجہ سے کھلی جگہوں پر نماز کی اجازت واپس لیتے لیتے اسے ۱۰۸ سے بیس کردیا اوردوسری طرف مسئلہ کو دو طرفہ بات جیت کے ذریعہ حل کرنے کے لئے پولس افسر اور ایس ڈی ایم اور ہندو و مسلم تنظیموں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ۔ اور دسمبر کی ابتدا میں یہ خبر بھی آئی تھی کہ اس کمیٹی کے توسط سے یہ مسئلہ حل ہوچکا ہے اس طرح کہ ہندو اور مسلمان دونوں اٹھارہ مقامات پر نماز کے لئے راضی ہوگئے ہیں ۔ ان اٹھارہ مقامات میں سے ۱۲ تو مساجد یا وقف آراضی ہیں بقیہ چھ عوامی مقامات ہیں اور وہاں بھی نماز پڑھنے کے لئے مسلمانوں کو کرایہ یا مینٹیننس فیس ادا کرنی ہوگی ۔ لیکن معاملہ یہاں بھی حل نہیں ہوا اگلے جمعہ کو پھر ہندو تنظیموں کی جانب سے نماز میں رخنہ اندازی اور احتجاج کی کوشش کی گئی ، وہاں نماز کے لئے آئے ہوئے مسلمانوں کو بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگانے کے لئے دباؤ ڈالا گیا ۔ کہا گیا کہ مسلمان غلط جگہ پر آگئے تھے یعنی یہ جگہ ان مقامات میں شامل نہیں تھی جن پر مذکورہ کمیٹی کی میٹنگ میں ایک رائے بنی تھی ۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ مذکورہ کمیٹی میں مسلمانوں کے ان نمائندوں کو نہیں بلایا گیا تھاجو ان کے اصل نمائندے ہیںبلکہ یہ معاہدہ آر ایس ایس کے ’مسلم راشٹڑیہ منچ‘ کے ساتھ ہوا ۔یعنی مسئلہ کچھ اور لوگوں کا ہے اور فیصلہ کچھ اور لوگوں نے کرلیا!
یہ صرف کھلی جگہ پر نماز کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک میں عام ہوتی مسلم منافرت کی ایک کڑی ہے ، اور اس کی بنیاد پر سیاسی روٹیاں سینکنے والوں کا ۔ گڑگاؤں میں نماز کئی سالوں سے اسی طرح جاری تھی نہ کبھی نمازیوں کے ذریعہ کسی قسم کی لاء اینڈ آرڈر کی کوئی پامالی کی خبر ابھی تک آئی نہ کسی قسم کے جرائم کی اور نہ ہی سرکاری جگہ پر ناجائز قبضہ کی۔ ملک میں مسلم منافرت اکثریت کے دلوں میں بہت شدت سے گھر کر گئی ہے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کا رجحان اتنا عام ہو گیا ہے کہ اب اسے کسی بھی قسم کے تحرک یا اکساہٹ کی ضرورت نہیں رہی اور سیاسی پارٹیوں نے اپنے آپ کو مسلم منافرت سے اس قدر جوڑ لیا ہے کہ وہ اس کے علاوہ نہ سیاست کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے ذریعہ ورغلائے ہوئے اذہان اور ان کا روایتی ووٹ بنک اس کے بغیر ان کے ساتھ بنا رہ سکتا ہے۔ اس معاملہ میں ہریانہ میں تو سیاست ہو ہی رہی ہے دوسری ریاستوں میں بھی شروع ہو چکی ہے ۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ کھلی جگہوں پر نماز برداشت نہیں کی جائے گی ۔ انہوں نے اسے شکتی پردرشن ( قوت کا اظہار ) کہہ دیا ۔ ایک طرف ضلعی انتظامیہ اس مسئلہ کو بات چیت سے حل کرنے کی بات کررہا ہے اور دوسری طرف وزیر اعلیٰ اسے سرے سے مسترد کئے دے رہے ہیں ۔ بلکہ ان کے اس بیان کے بعد اس جمعہ کو تو کھلے میں نماز کے خلاف پولس میں شکایت درج کروائی گئی ہے ۔ بہار میں بھی ایک وزیر نے اس طرح نماز کی ادائیگی بند کروانے کی بات کی تھی حالانکہ وہاں کے وزیر اعلیٰ نے اس سے انکار کیا لیکن ہوسکتا ہے الیکشن کے وقت وہاں بھی اس کے ذریعہ سیاسی پارہ چڑھایا جائے ۔خود مرکزی وزیر داخلہ نے بھی اترا کھنڈ میں اس کے ذریعہ سیاست گرمانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے اسے کانگریس کی مسلم منھ بھرائی کی سیاست قرار دیا۔ حالانکہ اتراکھنڈ میں فی الوقت بی جے پی کی حکومت ہے لیکن انہوں نے کانگریس کے دور اقتدار کا واقعہ سنایا کہ اس وقت جب وہ اتراکھنڈ آئے تھے تو ہائی وے پر جمعہ کی نماز کی وجہ سے ان کے کارواں کو رکنا پڑا تھا ۔یعنی گڑگاؤں ہریانہ کا یہ معاملہ نہ صرف آس پاس کی ریاستوں بلکہ وقت پڑنے پر قومی سیاست کا بھی گرم اشو بنایا جا سکتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ گڑ گاؤں میں مسلمان کھلے مقامات ہر نماز پڑھنے کو کیوں مجبور ہیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلمانوں کو یہ مسئلہ مساجد کی کمی کے باعث درپیش ہے ، کہیں مسجد کے لئے زمین نہیں ہے تو کہیں مسجد کی تعمیر میں بھی مخالفت کا سامنا ہے ۔اگر یہی بات ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں میں ہمارے یہاں مساجد کی تعمیر بہت بڑھی ہے۔ محلوں اور گلیوں میں مساجد تعمیر ہوئی ہیں ۔ پہلے جہاںگنی چنی مساجد تھیں اب وہاں کئی نئی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں ۔ پچھلے کچھ سالوں میں ہم میں مساجد کی تعمیر کے متعلق بیداری بھی بہت آئی ہے لوگ باگ اس میں اپنے اپنے حساب سے بھر پور تعاون کی کوشش کرتے ہیں ، اپنے گاؤں یا شہر ہی نہیں دوسرے مقامات بلکہ دور دراز علاقوں اور اجنبی لوگوں کو بھی مسجد کی تعمیر کے لئے اپنے سے جو بن پڑتا ہے اس سے بھی زیادہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے کچھ بڑے لوگ تو بہ فضل خداواقعی اتنے بڑے ہیں کہ مساجد کی تعمیر کے لئے خطیر رقوم عطیہ دیتے ہیں بلکہ ایسے بھی واقعات سننے میں آئے ہیں کہ کسی ایک گمنام شخص نے پوری مسجد تعمیر کروائی ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں مسجد مدرسوں کے نام پر چندے کا دھندہ بھی ہوتا ہے لیکن جینیوین کام کے لئے لوگ دیتے ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے ۔ ہمارے یہاں مساجد کی تعمیر مسلکی فرقہ واریت کی مرہون منت بھی ہے کہ ایک ہی محلے میں الگ الگ مسالک کی الگ الگ مساجد بھی تعمیر ہورہی ہیں لیکن ہر معاملہ ایسا بھی نہیں ہے ۔اگر ملت اسلامیہ اجتماعی طور پر گڑگاؤں میں ضروری مساجد کی تعمیر کی ٹھان لے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں کہ ہو نہ سکے۔ اگر ہم سب نے مل کر ایسا کرلیا تو یہ گڑگاؤں میں نمازیوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا حل بھی ہوگا اور اس معاملہ کو سیاسی طور پر استعمال کرنے والوں کے منھ پر طمانچہ بھی ۔
Comments are closed.