نیا سال اور عورت کی ذمہ داری

 

آمنہ جبیں، ڈاہرانوالہ

نئی چیزیں پرانی چیزوں کی جگہیں لے لیتی ہیں۔ نئی چیزیں، نئے منظر پرانی دراڑوں کو ڈھانپنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ تغیر جب بھی آتا ہے۔ تلخیوں اور ماضی کے جھروکوں میں یادیں چھوڑ کر آتا ہے۔ جب ویرانے سے سبزہ اگتا ہے۔ تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ جب کونپل سے پھول نکلتا ہے، رنگ زہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔ صحرا میں مینہ برپا ہو تو دل کی بےتاب زمین سیراب ہو جاتی ہے۔ کچھ بدلاؤ ، کچھ نیا، ایک اختتام سے ایک آغاز کا جنم لینا مسحور کن احساس برپا کرتا ہے۔ ہر اختتام تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے۔ لیکن ہر اختتام کچھ نویدیں، کچھ مواقع، اور بہت کچھ مزید دے کر جاتا ہے۔ تغیر تو اس کائنات کا حصہ ہے۔ جیسے کائناتی نظام صبح وشام، دن ورات کے تغیر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اسی طرح اوقات بھی تغیر سے لبریز رہتے ہیں۔ پہلے صبح شام کا تغیر پیتی ہے۔ دن رات کا بدلاؤ دیکھتا ہے۔ دن مہینوں کی گردش میں آتے ہیں۔ اور مہینے سالوں کے تغیر میں جکڑے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مل کر بڑا خطہ بناتے ہیں۔ ہر ٹکڑا ستھرا ہو تو خطہ خوبصورت جنم لیتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہر سال ایک خطے کی مانند ہوتا ہے۔ اور یہ خطہ مہینوں اور دنوں کے ٹکڑوں سے مل کر وجود پاتا ہے۔ ہر انسان سال کے اس خطے کو بہترین بنانے کے لیے، اپنی مرضی سے دنوں اور مہینوں کے ٹکڑوں پہ فصل بوتا ہے۔ کہیں اپنی ذات کی کھیتی اگاتا ہے۔ کہیں حبِ للہ سے مزین پھولوں سے ان ٹکڑوں کو آراستہ کرتا ہے۔ کہیں تلخیاں بوتا ہے۔ اور کہیں قہقہوں کا سامان کرتا ہے۔ اس طرح سال کے اختتام پہ کہیں سوکھی من موجی اور کہیں ہریالی سے بھرپور کھیتی وصول کرتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ زندگی کے ہر سال دن و ماہ کے ٹکڑوں کو صرف اپنے نفس کی خواہشوں سے آراستہ کرتے ہیں۔ اور ہمیشہ ناکام سال گزار جاتے ہیں۔ ان کی کھیتی صرف چند سوکھے خوشے ہی سنبھال پاتی ہے۔ بہترین سال بنانے کے لیے ہر دن کو بہترین بنانے کی کوشش لازم ہے۔ دن بہترین ہو گا، تو مہینہ بہترین پروان چڑھے گا۔ اور مہینوں کا بہترین اور اچھا گزرنا آپ کو اچھے سال سے نواز جائے گا۔

جیسے ہر سال گزر جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح 2021 بھی اپنے اختتام کے سفر پہ گامزن ہے۔ یقینا وقت کی منڈیر پہ بیٹھا انسان خوشیوں اور غموں کا زہر پیتا ہے۔ کوتاہیوں اور غلطیوں کے جال میں پھنسا چیختا رہتا ہے۔ہر انسان کا سال کسی تلخ یاد کی وادی میں گم، کسی غم کے سائے میں اٹا، کسی خلش سے بھرپور، کسی قہقہے میں لپٹا، کسی آرزو سے آراستہ، کسی آہ میں ڈوبا ، کسی چاہ سے ڈھکا آخرکار گزر گیا ہے۔ جب چیزیں اختتام پاتی ہیں۔ تو بیٹھ کر جائزہ لیا جاتا ہے۔ کہ گزر جانے والی راہ میں کتنی غلطیاں کی ہیں۔ کتنے سبق سیکھے ہیں۔ کتنی خوشیاں سمیٹیں ہیں۔ کتنا صبر کیا ہے۔ کتنا کچھ کھویا اور کتنا کچھ پایا ہے۔ جب ہم سال کے اختتام پہ یہ جائزہ لیتے ہیں۔ تو ہم اپنی ذات سے مل پاتے ہیں۔ اپنے آپ کو پڑھ کر آگے بڑھنے کی چاہ خود میں اتار پاتے ہیں۔ یہ جائزہ اگر نہ لیا جائے تو آنے والے سال کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ اور گزر جانے والے سال کا کوئی ملال نہ ہو۔

ہمارے ہاں عموماً نئے سال کے آغاز پر بہت جوش و خروش سے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ روشنیاں جلائی جاتی ہیں۔ شہروں،گلی کوچوں کو رنگ برنگی بتیوں سے مزین کیا جاتا ہے سالِ نو کی آمد پہ محفل ِ یاراں لگائی جاتی ہے۔ سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے مہمانوں کی آمد و رفت گھروں میں شروع ہو جاتی ہے۔ گھروں کی صفائیاں عروج پہ پہنچ جاتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہ گھروں سے پچھلے سال کا کاڑکباڑ باہر پھینک دیا جائے۔ پچھلے سال کی غلاظتوں سے اپنی رہائش گاہ کو محفوظ کر لیا جائے۔ یوں کہ ہر طرح سے بیرونی خوشی کا اظہار ممکن بنایا جاتا ہے۔ لیکن دلوں کی غلاظتیں کم ہی دور کی جاتی ہیں۔ گزرے سال کی تلخیاں اور کوتاہیاں کم ہی گنی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان کی اپنی ذات کبھی درست نہیں ہو پاتی۔ انسان اپنے لیے کبھی مثبت نہیں سوچ پاتا۔ جیسے اور جس گرد میں وہ گزرے سال میں اٹا رہا ہے۔ نئے سال میں بھی اسی گرد سمیت داخل ہو جاتا ہے۔ یوں اس کا نہ کل بہتر تھا نہ آج بہتر ہو گا۔ نہ گزرے سال میں فرق تھا کوئی، نہ ہی نیا سال کوئی تغیر لے کر آیا۔ کیونکہ جس انسان نے بیٹھ کر شعور کی گرہیں ہی نہیں کھولیں۔ کہ میں ایک نئے سال میں داخل ہو رہا ہوں۔ ایک نئے موقع کی طرف گامزن ہونے والا ہوں۔ خود کو درست کرنے کی ایک اور سمت میرے انتظار میں کھڑی ہے۔ جس نے یہ سب سوچا ہی نہیں، اس کے گزرے اور نئے سال میں فرق کیسے ہو سکتا ہے۔

اسلام میں بھی نئے سال کے لیے مثبت اور پر امن ہونے کے لیے دعا پڑھنے کا حکم ہے۔ اور اس مثبت پن کو لانے کے لیے سوچ کو بھی مثبت کرنا ، اپنا جائزہ لینا بے حد ضروری ہے۔

یوں تو ہر نیا سال بچوں، مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ چونکہ مرد کا تعلق خرچ کمانے سے ہے۔ اور اسے ہر روز یہی کرنا ہوتا ہے صبح سے شام تک اپنی محنت کی چَکی چلانی ہوتی ہے۔ لیکن عورتیں جو کہ گھر کا سائبان اس کی محافظ ہوتی ہیں۔ نیا سال ان کے لیے سب سے اہم ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں عورتیں کاموں میں لت پت اس سوچ کو بھی اپنے پاس بھٹکنے نہیں دیتیں، کہ وہ نئے سال میں داخل ہو رہی ہیں۔ بہت سی عورتوں کے لیے نیا سال پچھلے سال کی طرح گزر جاتا ہے۔ لیکن گھر کے امور کا جائزہ کون لے سکتی ہے۔ گھر کی بہتری کے لیے ایک مثبت پلان کون بنا سکتی ہے۔؟ عورت یہ کبھی نہیں سوچتی،

آج کی عورت سمجھے کہ وہی وہ ہستی ہے۔ جسے ہر سال کے آغاز پہ گھر کی بہتری کے لیے ایک منظم پلان ترتیب دینا ہے۔ جس کے تحت نیا سال پر امید، اور بہت کچھ نیا کرنے کے عوامل پہ مبنی ہو سکتا ہے۔ گھر کی صفائی ستھرائی تو عورتیں بخوبی کر ہی لیتی ہیں۔ لیکن اس کی خوشحالی کے لیے نہیں سوچ پاتیں۔ اگر بچے ہیں تو ان کے لیے کوئی نیا پلان نہیں بنا پاتیں۔ زندگی کب اختتام پا جائے کسے خبر ہے۔ لیکن ظاہر سی بات ہے۔ ایک امید کے تحت ہم نئے سال میں داخل ہوتے ہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے۔ کہ ہم اس سال میں کسی منصوبے کے بغیر داخل ہو جائیں۔ آج کی عورت کو سال کے آغاز پہ سب سے پہلے بیٹھ کر پچھلے سال کے تمام ان امور کی لسٹ بنانی ہے۔ جس سے گھر میں خوشحالی آئی۔ جن امور سے گھر میں محبت اور امن کی فضا قائم ہوئی ہے۔ اس کے بعد عورت کو ان امور کی لسٹ بنانی ہے۔ جس کی وجہ سے گھر میں کشیدگیاں ابھریں۔ لڑائیوں نے جنم لیا، جہاں جہاں غلطیاں کی گئیں، ان سب کاموں کی لسٹ تیار کرنی ہے۔ کیونکہ مرد باہر کی دنیا سے آگاہ ہے۔ تو عورت مرد سے زیادہ گھر کی دنیا اور اس کے امور سے آگاہ ہوتی ہے۔ بچوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی لسٹ تیار کرنی ہے۔ عورت کو نیے سال کے آغاز پہ اپنے بچوں کی کمیوں کا جائزہ لینا ہے۔ وہ کمیاں جو صرف آپ کی ناقص تربیت کی وجہ سے رہ گئیں ہیں۔بچوں کے وہ رویے جن پہ آپ نے غور نہیں کیا اور وہ ان کی ذات میں پیوست ہو گئے ہیں۔ آپ نے ان سب کو کاؤنٹ کرنا ہے۔ وہ برے کام جو بچوں میں ایک ماں کی لاپرواہی کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا جائزہ لیں۔ اور اگلے سال میں ان کی درستگی کا مکمل ارادہ اور سامان پیدا کریں۔ آپ پچھلے سال میں کیسی بیوی رہی ہیں۔ آپ کے کون سی غلطیاں کی ہیں۔ آپ نے کتنا اپنے شوہر سے اچھا برتاؤ کیا ہے۔ آپ کے رشتے میں کہاں کہاں اور کس کس وجہ سے خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اور وہ کون سی وجوہات ہیں۔ جن کی وجہ سے آپ کا رشتہ مضبوط ہوا ہے۔ ان سب کاموں کی بیٹھ کر لسٹ بنائیں۔ وہ خوشی جو آپ نے بچوں کو دی، وہ خوشی جو آپ نے ایک دوسرے کو دی،سال کے اختتام پہ اس پہ ایک دوسرے کا شکریہ ادا کریں۔ پھر تمام افراد اپنے بچوں اور شوہر کو پاس بٹھائیں، اور ان کے ساتھ اس جائزے کو شیر کریں۔ جو آپ نے پورے پچھلے سال کا لیا ہے۔ پھر بحثیت بیوی اور ماں اپنی غلطیوں کو مان کر ان کو سدھارنے کے لیے نیے سال میں پر امید رہیں۔ بچوں کو ان کی غلطیوں کی نشاندھی کروائیں۔ اور انہیں ان کو درست کرنے کے لیے ارادہ اور نیت کرنے کی تلقین کریں۔ شوہر کے ساتھ پچھلے سال کے رویوں پہ معافی طلب کریں۔ اور اس کے ساتھ مل کر نئے سال کے پلین بنائیں۔ اس پلین اور منصوبے میں ترجیح یہ دیں،کہ خود کو اور بچوں کو ہر طرح سے سدھارنے کے لیے کوشش کرنی ہے۔ نئے خواب دیکھنے ہیں۔ اور بچوں کو بھی دیکھنا سکھانے ہیں۔ بچے نئے سال میں کیا کرنا چاہتے ان سے ضرور پوچھیں، اور ان کا ساتھ دینے کی ہامی بھریں۔ کیونکہ جب ایک عورت مثبت قدم بڑھاتی ہے۔ تو مرد آگے بڑھ کر اسے تھام لیتا ہے۔ یوں وہ مثبت قدم بچوں میں منتقل ضرور ہوتا ہے۔ اپنے بچوں اور شوہر کے سامنے یہ نشان دہی کریں۔ کہ پچھلے سال کن وجوہات پہ گھر میں خوشحالی آئی۔ اور کن کی وجہ سے پریشانی برپا ہوئی۔ کہاں کہاں فضول خرچی کی ہے۔ کہاں کہاں بےصبری دکھائی ہے۔ پھر انہیں ایک چارٹ پہ ترتیب کے ساتھ لکھ کر دیوار پہ چسپاں کریں۔ تا کہ تمام افراد کو معلوم ہو، کہ ہم نے پچھلے سال کی کوتاہیاں اس سال میں نہیں کرنی ہیں۔ عورت اپنے آپ کو غیر زمہ دار نہ بنائے۔ کیونکہ ایک گھر عورت سے چلتا ہے۔ جتنا وہ گھر کی باریک بینیوں سے آگاہ ہوتی ہے۔اتنا کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ ہی غفلت برت گئیں۔ تو آپ کے بچے اور شوہر نئے سال میں کچھ نیا کرنے کا کم ہی سوچ سکتے ہیں۔ آپ ہی ہیں، جو اپنے بچوں کو نیے سال کے آغاز پہ نئے خواب دیکھنے، نئی خواہشیں اپنانے کی طرف راغب کر سکتی ہیں۔ آپ ہی ان کو بتا سکتی ہیں ۔ کہ نئے سال کا ہر دن نیا ہو گا۔ اور ہر دن کا ہر لمحہ نیا ہو گا۔ اپنے بچوں کو سمجھائیں جس طرح وقت نے ہمیں نئے لمحوں اور نئے مواقعوں سے نوازا ہے۔ ہم نے سوچ سے بھی ان لمحوں کو نیا کرنا ہے۔ پرانی بری سوچ کو اکھاڑ کر خود میں نئی سوچ پیدا کرنی ہے۔ کیونکہ اگر سال کے آغاز پہ آپ اپنے بچے کو یہ سکھائیں گی۔ تو وہ اپنا ہر سال احتیاط سے گزارے گا۔ ہر سال نئے خواب بُنے گا۔ اور ہر لمحہ خوبصورت بنانے کے لیے کوشش کرے گا۔ اپنے بچوں کو انفرادی طور پہ اپنے سال کا جائزہ لینے اور اسے بہتر کرنے کی ترغیب دیں۔ پچھلے سال کی ناراضگیاں دور کرنے کی طرف ان کا دھیان دلائیں۔ تا کہ ان کو صحیح معنوں میں یہ معلوم ہو کہ نیا سال کتنی بڑی نعمت ہے۔ اور ہم نے اس نعمت کا ضیاع بالکل نہیں کرنا بلکہ اسے خوبصورت بنانے کے لیے پرانے سال سے سبق سیکھنا ہے۔ اور آگے بہترین کرنا ہے۔ اپنی اور بچوں کی روحانیات کا جائزہ لے کر نیے سال میں اللّٰہ سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے خود کو پرعزم بنائیں۔ گزرے سال کے گناہوں کی اللّٰہ سے معافی مانگیں۔ اور بچوں کو بھی تلقین کریں۔

ماں بچوں کو نئے سال کی دعا سکھائے۔ اور اس کے معنی و مفہوم سمجھانے کی بھرپور کوشش کرے۔

 

اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ .

 

ترجمہ: اےاللہ اس چاند کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمن کی رضامندی اور شیطان کےبچاؤ کے ساتھ داخل فرما۔

بچوں کو بتائیں کہ

اس دعا کے اندر جو جو دعا کی جاتی ہے۔ اس کے تحت اپنا جائزہ لے کر نئے سال میں خود کو بہتر بنانے کی مکمل کوشش اور محنت کرنا بے حد ضروری ہے۔ صرف دعا سے نہیں ارادے اور یقین سے انسان منزل پاتا ہے۔ اس لیے ہر سال کے آغاز پہ جب آپ زندگی کے ایک اور موقع سے ملنے جا رہے ہوتے ہیں۔ تو دعا کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو سنوارنے اور نئے سال میں بہت کچھ مثبت اور نیا کرنے کی تیاری ہی آپ کی زندگی خوبصورت بنا سکتی ہے۔ ورنہ ہر موقع پر سال گزر جائے گا۔ آپ موت کی لپٹ میں آ جائیں گے۔اوڑ زندگی فضول گزر جائے گی۔

Comments are closed.