"اپنا شاہد میں”_______ایک اجمالی جائزہ

"اپنا شاہد میں”_______ایک اجمالی جائ
زہ
ثمر یاب ثمر یاب ثمر
کہیں کا غصہ کہیں کی گھٹن اتارتے ہیں
غرور یہ ہے کہ کاغذ پہ فن اتارتے ہیں
کاغذ کے جزیرہ پر ایک نیا جہان تشیکل دینا پھر اس میں تخیلات کے تجسیم شدہ کرداروں کو اپنی منشا اور خواہش کے مطابق آباد کرنا __اتنا ہی مشکل امر ہے جتنا کہ تتلی کے پروں سے رنگ لیکر کاغذ کے پھولوں میں بھرنا، اور سطح مریخ پر انسانی زندگی کی نشوونما کے آثار تلاشنا__اگر یہ مشکل ترین کام کما حقہ کیا گیا ہو تو تخلیق کار کا ناز و افتخار تو بنتا ہے!! _
غزل امیر خسرو کے دور میں بھی جواں تھی اور آج بھی اس کی دوشیزگی اسی طرح برقرار ہے، کیونکہ ہر دور کے شعراء نے __خواہ وہ سنگ وشکم کے مراحل سے گزرے ہوں یا ان پر حالات نے کوڑے برسائے ہوں_ غزل کے چہرے پر جھریاں نہیں آنے دیں_خود کی حیات بھلے ہی پیوند زدہ رہی ہو، لیکن لباس ِ غزل کو کبھی رفو کی بھی احتیاج نہیں ہونے دی___ خود کی خودی پر بھلے ہی آنچ آئی ہو، لیکن غزل کے وقار اور عزت نفس کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا___ دربار میں گئے تو غزل کو شہزادی کی خلعت میں لیکر پہنچے____ عوام کے روبرو پیش کیا تو لباسِ فاخرہ میں پیش کیا____ خلوتوں میں محبوبہ کی طرح اسکے گیسو سنوارے___ جلوتوں میں اسکے اقدار کو پیش نظر رکھا____ جو رنگ اس پر جچا وہی مہیا کیا گیا____ جیسے جیسے دنیا کا طرزِ زندگی بدلا ویسے ویسے غزل کی ہئیت میں بھی تغیر کے آثار نمایاں ہوئے___وہ جس چولے کی مقتضی ہوئی وہی عطا کیا گیا____ شعرا نے اس کی تجسیم کی اور ہمیشہ اسے سینے سے لگائے رکھا____عشق بھی کیا اور اس کے ہمراہ محبت کی حسیں وادیوں میں سیر بھی کی-
غزل کے بےشمار عاشق ، ادب کے منظر نامے پر نمو پذیر ہوئے جنھوں نے اپنے فنی شعور، فہم و ادراک اور فکری صلاحیتوں سے غزل کے لئے نئے محل تعمیر کئے،اور اس کے حسن کے ابواب میں اضافہ کیا،اس کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا ایسے ہی تجربہ کار اور بے لوث عشاق میں سے ایک نام علاقۂ اودھ ___جو شروع ہی سے کویوں سنتوں اور شعرا کا مرکز رہا ہے __میں نمودار ہوا __جو اپنے اسلوب، طرز تحریر، پرواز تخیل،طرزِ تکلم، تفحص الفاظ اور اپنی فنی بصیرت سے بہت جلد افق ادب پر چھاتا چلا گیا_ جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ غزل کے پہلو میں گزارا، جس نے اپنی تشبیہات و تمثیلات، علامات و استعارات خود متعین کئے، جس نے روایات سے مربوط رہکر نئی زمینیں تلاشیں اور ان میں بہترین کاشت کی،جو مجروح سلطان پوری اور معراج فیض آبادی کے وراثت میں حصہ دارا ٹھہرا –
ہاں! میں بات کر رہا ہوں ایک ایسے پختہ کار اور ہمہ جہت شاعر کی جسے ادبی دنیا "شاھد جمال” کے نام سے جانتی ہے-
شاہد جمال کا ادبی سفر کم وبیش تین دہائیوں پر مشتمل ہے تاہم ادبی دنیا میں” شاہد جمال” کی تلاش و جستجو اس وقت تیز ہوئی جس وقت پوری کائنات بابری مسجد کے جبری نہدام پر شرمندگی کے آنسو بہارہی تھی، اور پورا عالم اسلام سوگ میں ڈوبا ہوا تھا، مسلمان اپنے سینے میں غم کا ایک بارِ گراں لیے گھوم رہے تھے، بالخصوص ہندوستانی مسلمان اپنی بےبسی اور لاچاری کا رونا روتے نہیں تھک رہے تھے، جو اپنے لٹ جانے کے غم میں ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھے، عین اسی وقت ادبی حلقوں میں چار مصرعے اچانک بڑے گردش کرنے لگے___ جو ہر اس دل کی آواز تھے جس میں بابری مسجد کے گرے گنبد اور ٹوٹی میناروں کی تصویریں معلق تھیں___جنھوں نے بابری مسجد کے اس غم کو لازوال بنا دیا تھا، ایسے اشعار وہی کہہ سکتا ہے جس نے بابری مسجد کی مظلومانہ شہادت کو بہت قریب سے دیکھا ہو-
تو نے بخشے ہیں جو آزار کہاں رکھوں گا
ٹوٹے گنبد، گرے مینار کہاں رکھوں گا
اپنے بچوں سے میں ہر زخم چھپا لوں گا مگر
چھ دسمبر ترے اخبار کہاں رکھوں گا
اس وقت پتا چلا کہ یہ لہو آمیز آنسو بابری مسجد کی دیواروں کے سائے میں پلے بڑھے نوجوان کے ہیں جسے آگے چل کر ادبی دنیا شاھد جمال کے نام سے جانے گی-
"اپنا شاھد میں ” شاھد جمال کے اب تک کے شعری سفر کا مکمل سفرنامہ ہے،اگرچہ شعری مجموعے ہردن منصۂ شہود پر حشرات الارض کی مانند رینگتے نظر آتے ہیں، اور ایک ڈھیر لگا ہواہے تاہم شاھد جمال کے شعری مجموعہ "اپنا شاہد میں” سے ہر پہلو تنوع اور انفراد کی روشنی پھوٹتی دکھائی دیتی ہے یعنی نام بھی منفرد اور کام بھی منفرد_
شاھد جمال صاحب نے روایت سے ہٹکر کسی بڑے ادیب یا مشہور قلم کار، ناقد یا مبصر کی دہلیز پر عاجزانہ دستک نہیں دی__ کہ وہ ان کے شعری مجموعہ پر اپنے تکلفانہ تاثرات رقم کریں، یا مصنوعی حوصلہ افزا کلمات سے دلجوئی فرمائیں،بلکہ پطرس بخاری کے اس قول کو پیش نظر رکھتے ہوئے __جس میں انھوں نے کسی شاعر کے مجموعۂ کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھے تھے_ "کہ اگر اپنی شاعری پر بھروسہ تھا تو چار کاندھوں پر سوار ہوکر آنے کی کیا ضرورت تھی” __شاھد جمال نے خود اعتمادی کا وہ ثبوت پیش کیا جس کی نظیر خال خال ہی ملتی ہے، اپنے بارے اور اپنے مجموعہ کے بارے خود قلم اٹھایا گرچہ یہ کام نہایت ہی مشکل تھا___
قدِّ آدم آئینہ اور اپنا پیکر دیکھنا
کس قدر مشکل ہے یارو خود کو پڑھ کر دیکھنا
____ لیکن! کیا…، اور مجموعے کو جمہور کے سامنے ایسے خواب کی شکل میں پیش کیا جس کی تعبیر وقت کے ابن سیرین خود بتائیں گے جس کی سمت اور جہت کا تعین وقت کے کولمبس خود طے کریں گے-
شاھد جمال کا فنی شعور، پختہ خیالی، مضمون آفرینی، تفحص الفاظ،بندش، چست تراکیب، تلازمہ کاری، پیکر تراشی، لب ولہجہ، طرز تکلم،فکری وسعت،اور اسلوب انھیں اپنے معاصرین سے منفرد بناتا ہے، ان کے کینوس پر جو موضوعات نمو پاتے ہیں وہ شدت احساس کی کیفیت سے لبریز ہوتے ہیں، ان کا رنگ و آہنگ خود بتاتا ہے کہ یہ لمبی مسافت طے کرکے آیا ہوا مسافر ہے، وہ اسٹیج پر بھی انتہائی ہی مقبول ہیں، اور جرائد و رسائل کی دنیا بھی انھیں اتنا ہی چاہتی ہے –
شاھد جمال نے اپنے شعری مجموعے کی ابتدا حسب روایت رب کریم کی حمد سے کی ہے، لیکن انفراد کا دامن یہاں بھی نہیں چھوڑا، دوسرے شعراء کی طرح اوپر حمد نہیں لکھا بلکہ اس کو بھی قارئین کے سپرد کردیا __ وہ پڑھ کر خود فیصلہ کریں گے ___کہ ہاں حمد ہی پڑھی جارہی ہے –
کوزہ کوزہ دریا دریا تو ہی تو
آنکھیں ہوں تو قطرہ قطرہ تو ہی تو
نہریں ندیاں ساگر جھرنے اور تالاب
ہے سب کا بس ایک وظیفہ تو ہی تو ہی
چیخ رہے ہیں اندر دھنش کے سارے رنگ
لال ہرا اور پیلا نیلا تو ہی تو ہی تو
حمد کے بعد نعت کا رخ کرتے ہیں تو یہاں بھی تنوع، جدت و ندرت کا وہی مذکورہ نمونہ ملتا ہے.
قریب آئی جو مٹی بھی بن گئی سونا
بنادی آپ نے کتنوں کی زندگی سونا
نبی پاک کی قربت جو ہوگئی ہے نصیب
ہوا ہے کوئلے جیسا بھی آدمی سونا
ایسی شاہکار نعت وہی کہہ سکتا ہے جس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے ہر پہلو کا مطالعہ کیا ہو ، جس نے حجۃ الوداع کے موقع پر دئے گئے اس تاریخی خطبہ__لافضل لعربی علی عجمی،ولا لعجمی علی عربی ،ولا لأبیض علی أسود ولا لأسود علی أبیض إلا بالتقویٰ‘‘کسی عربی کو عجمی پر،کسی عجمی کوعربی پر،کسی گورے کوکالے پر،کسی کالے کو گورے پرکوئی فوقیت نہیں ،مدارِفوقیت اورمعیارِ برتری صرف تقویٰ ہے، پرہیزگاری اور اللہ کاخوف ہے___ کے الفاظ کو لوح قلب پر مرتسم کر رکھا ہو-
آئیے "اپنا شاھد میں” سے کچھ انتخاب آپ کی بصارتوں کے حوالے کرتا ہوں تاکہ آپ بھی شاھد جمال کی شعری بساط کا اندازہ لگا سکیں.
جو بھی ملتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہوں میں
کیا کروں مجبوریاں ہیں گاؤں سے آیا ہوں میں
___________________________
سیاسی لوگوں سے امید کیسی خاکِ وطن
وطن کا قرض کہیں راہزن اتارتے ہیں!!
______________
پہاڑ ہونے کا سارا غرور کانپ اٹھا
بس اک ذرا سی تجلی سے طور کانپ اٹھا
_________________
سچ کو سچ کہنے کی ہمت جو نہیں ہے مجھ میں
زندگی بھر کے لئے ہونٹوں پہ تالے پڑ جائیں
__________________
زندگی میں نے گزاری ہی درختوں کی طرح
مجھ سے سیکھے کوئی ہر حال میں رہنا خاموش
____________________
یہ معجزہ بھی فقط عشق میں دکھائی دیا
کہ لب ہلے بھی نہیں اور سب سنائی دیا
_____________________
ہزاروں داغ ملے آج اس کے دامن پر
ہمیشہ جس نے ہمیں درس پارسائی دیا
______________________
لمحے لمحے کی ہر اک رد وبدل کا مرثیہ
کیا ہمیں کہنا پڑے گا اب غزل کا مرثیہ
_______________________
سوال اٹھتا ہے اسکی وطن پرستی پر
جو قبر میں بھی ہے خاک وطن لپیٹے ہوئے
___________________________
جس کمائی سے بگڑ جاتا ہو نسلوں کا مزاج
دوستو! بھول کے تم ایسی کمائی نہ کرو
______________________
ہیں سجدوں کے نشاں پیشانیوں پر
مگر روحِ عبادت مر چکی ہے
_________________________
بخش نے والے کی جب حد ہی نہیں ہے کوئی
خواہشیں رکھے بھی کیوں دل میں ادھوری انسان
________________________
ہوگئی بھولے سے اک نیکی تو رکھتے ہیں حساب
ساری دنیا بن چکی ہے کارو باری کس قدر
____________________________
شعر گوئی بھی ہے کیا فن کہ اسی فن کے طفیل
لوگ افسانے بھی لکھ جاتے ہیں کم کاغذ پر
____________________________
یہ میرا ذوق ادب تھا کہ آگیا زد میں
مجھے تو بھیڑ سے وحشت ہے پاگلوں کی طرح
_________________________
چائے خانوں سے کارخانوں تک
مر رہا ہے کہاں کہاں بچپن
_____________________________
کس کو ہے ٹوٹی پھوٹی سی کشتی کی فکر آج
لے کر کھڑے ہیں ہاتھ میں پتوار سب کے سب
_____________________________
سب نے اس شہر میں سمجھا ہے مسیحا جس کو
اس نے ہی سر پہ مرے نیزوں کی بارش کی ہے
___________________________
جسے تو وقت کے اندھے کنویں میں چھوڑ گیا
وہ مرگیا کہ ہے زندہ کبھی قیاس بھی کر
________________________
میں سلامت مرا آنگن بھی شجر بھی میرا
آندھیو! دیکھ لو آکر کبھی گھر بھی میرا
_____________________________
میرا گھر ہے کہ کتابوں سے بھرے ہیں کمرے
سوچ! اس میں بھلا ہتھیار کہاں رکھوں گا
___________________________
عزت مآب، قبلہ وکعبہ اٹھا کے رکھ
دنیا بدل چکی ہے یہ لہجہ اٹھا کے رکھ
___________________________
بانٹا جنہوں نے ملک نہ محسوس کر سکے
اک تاج تھا جو سر سے الگ کر دیا گیا
_____________________________
سازشیں، مجبوریاں، رسوائیاں، بربادیاں
ساتھ رہتی ہیں مرے کیا کیا بلائیں ان دنوں
_____________________________
کل تک جو بانٹتا تھا پارسائی کہ سند
کر رہا ہے خود خطاؤں پر خطائیں ان دنوں
________________________
وہ جس کی گفتگو پر جان دیتی ہے ہر اک محفل
پہنچتا ہے وہی جب اپنے گھر چپ چاپ رہتا ہے
_____________________________
لوگ پہناتے رہے جھوٹ کو ہر دور میں تاج
اور صلیبوں پہ لٹکتے رہے عیسی ہر روز
__________________________
زندگی دن بھر کڑی محنت کا نام
رات بھر کا رتجگا بھی زندگی
________________________
کیسے کیسے پتھروں کے درمیاں
بن کے ابھری آئینہ بھی زندگی
____________________________
کوئی صدا دے نہ ساحل سے اب پکارے مجھے
میں جانتا ہوں کہ لگنا ہے کس کنارے مجھے
_____________________________
قد آدم آئینہ اور اپنا پیکر دیکھنا
کس قدر مشکل ہے یارو خود کو پڑھ کر دیکھنا
_____________________________
عظمت، وقار، غزت و نام و نسب کی بات
اس دور میں بھی کرتے ہیں کچھ لوگ کب کی بات
یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اس مختصر سے مضمون میں "اپناشاھد میں ” کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا اور شاھد جمال کے ادبی سفر کا مکمل جائزہ لینا ناممکنات میں سے ہے تاہم مجموعی طور پر یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے انکے یہاں ندرت خیالی بھی ہے اور وہ عصری حسیت سے مالا مال بھی ہیں، زندگی جینے کا فلسفہ بھی ہےاور جبر کے لمحوں کو انگیز کرنے کا پیغام بھی، "کلمۃ حق عند سلطان جائر” کی ہمت بھی اور بیباکانہ جرآت اظہار کا جذبہ بھی، صداقت بھی ہے اور ایمان و ایقان کی بادِ بہاری بھی، دینی حمیت بھی اور اسلامی غیرت بھی، غزل کی دھندلاتی تصویر کا مرثیہ بھی، اور ادبی دنیا میں بے شعوروں کی آمد پر اضطراب و بےچینی کا احساس بھی.
انشاء اللہ تفصیلی مضمون جلد ہی
ثمریاب ثمر______سہارنپور
Comments are closed.