اختلاف کریں ، افتراق نہیں

 

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
آج امت مسلمہ ایک عجیب وغریب دور اور افسوسناک صورتحال سے دوچار ہے۔ اگر کسی کو کسی سے اختلاف ہوجائے تو وہ فریق مخالف کو زیر کرنے ان کی پگڑیاں اچھالنے ، سب وشتم کرنے ، بے آبروورسوا کرنے، ہر طرح کی الزام تراشی کرنے ، بہتان باندھنے اور افتراپردازی ودروغ گوئی میں کسی بھی حد تک چلے جانے سے گریز نہیں کرتا، اور اسی کو اپنی قابلیت ودانائی اور دین کی خدمت اور شہرت پانے کاعظیم سرمایہ تصور کرتا ہے۔
شریعت اسلامیہ نے واضح طور پر اختلاف کرنے کے حدود وآداب متعین کئے ہیں، جس سے بنیادی طور پر کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا، غزوئہ بنی قریظہ کے موقع پر اللہ کے نبی صلعم کسی صحابہ کی ان کے اجتہاد کرنے پر سرزنش نہیں کی بلکہ ہر دو فریق کی ستائش کی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے جب غزوئہ احزاب سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ آئے تو آتے ہی ہمیں حکم دیا کہ کوئی شخص نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ میں اب راستے ہی میں عصر کا وقت ہوگیا اور نماز کا وقت نکل جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم تو اس وقت تک نماز نہیں پڑھیں گے جب تک کہ وہاں پہنچ نہ جائیں، اور دوسروں نے کہا کہ نماز پڑھ لیتے ہیں، اللہ کے نبی صلعم کا مقصد راستہ میں نماز پڑھنے سے روکنے کا نہیں بلکہ جلدی پہنچنے کا ہے اور انہوںنے راستے ہی میں نماز ادا کرلی۔ جب اللہ کے نبی صلعم کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلعم نے کسی کی سرزنش نہیں کی بلکہ ہر دو کی تصویب فرمائی۔ (متفق علیہ)
اس کے بعد صحابہ کرام اور تمام سلف صالحین اسی راہ پر گامزن رہے، اور اسی چشمہ فیض سے سیرابی حاصل کرتے رہے، وہ رسول اللہ صلعم کے اس فرمان کے مجسم تصویر تھے جس میں رسول اللہ صلعم نے فرمایا ہے کہ:
اگر کوئی حاکم خوب اجتہاد کے بعد کوئی فیصلہ کرتا ہے اور وہ اپنے اجتہاد میں درست وحق بجانب ہے تو اسے دہرا اجر ملے گا اور اجتہاد میں اس سے غلطی ہوتی ہے تو بھی اسے ایک اجر ملے گا۔ (متفق علیہ )
ہر دور اور ہر زمانہ میں امت مسلمہ کا ایمان ویقین رہا ہے کہ ایسا مجتہد جس کے اندر اجتہاد کی شرطیں پائی جاتی ہوں اگر اجتہاد میں اس سے غلطی بھی ہوجائے تو بھی اسے ثواب ملے گا۔ بشرطیکہ اس کی نیت درست اور مقاصد اونچے ہوں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف رائے کا پایا جانا فطری ہے، اور ایسے امور ومعاملات میں انسان کی رائیں مختلف ہوسکتی ہیں، جہاں فہم وادراک کا دخل ہے، اصل چیز یہ ہے کہ مقصد کے اندر اختلاف رائے نہیں ہونا چاہیے، ائمہ مجتہدین میں سے ہر ایک کا مقصد وارادہ اور مقصود اجتہاد وشارع کی موافقت ہوتی تھی، اس لئے کسی خاص معاملہ یا مسئلہ میں اگرچہ ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا تھا، مگر مقصود کے اندر ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا بلکہ سب کا مقصد شریعت اسلامیہ کی موافقت ہوتا اور شارع کی مراد تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہوتا تھا۔
اختلاف رائے کبھی بھی سلف صالحین کے زمانہ میں عداوت ودشمنی ، بغض وعناد ، کینہ وکدورت ، حسد وجلن ،باہمی رساکشی ، رنجش ونفرت اور ایک دوسرے کی تحقیر وتذلیل کا سبب نہیں بنا بلکہ ہمیشہ انہوں نے وسعت صدر کے ساتھ دوسروں کی مخالف رائے کو قبول کیا۔ ہر کوئی سمجھتا تھا کہ اس کی رائے اگرچہ درست ہے مگر اس میںغلطی کا امکان ہے اور دوسرے کی رائے میری نگاہ میں اگرچہ غلط ہے مگر اس کے درست ہونے کا احتمال ہے، اسی لئے ان کے اندر پائے جانے والے یہ اختلاف رائے ان کی کمزوری پھوٹ وانتشار ، الزام تراشی اور جوتیوں میں دال بٹنے کا سبب نہیں بنا۔ بلکہ یہی اختلاف رائے ان کی عزت ووقعت ، شرف ووجاہت ، قدر دانی ورفعت ، تعظیم وتکریم ، اور ان کی فکری بلندی پرواز کا سبب بنا۔
فقہ کے فروعی احکام ومسائل میں ائمہ کرام اور ہمارے پیشوائوں کا بڑا اختلاف رہا ہے بلکہ آج سے زیادہ ان کے درمیان اختلافات تھے، مگر کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ایک نے دوسرے کے خلاف فتوے جاری کئے ہوں بلکہ ان کی روش تو یہی رہی ہے کہ وہ اختلاف رائے رکھنے والے کی عزت وقدر دانی کرتے ، ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرتے اور آداب وقدر ومنزلت کا پورا خیال رکھتے تھے ،امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک بار امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قبر پر حاضری دی اور وہاں کی مسجد میں نماز ادا کی تو نماز فجر میں انہوں نے دعا ء قنوت نہیں پڑھا جبکہ وہ فجر میں اسے سنت سمجھتے تھے، لوگوں نے ان سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اس صاحب قبر کے احترام میں ایسا کیا ، اور اس کے بعد انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں کچھ اشعار کہے۔
لقد زان البلاد ومن علیہا
امام المسلمین ابو حنیفہ
باحکام وآثار وفقہ
کآیات الزبور علی الصحیفہ
فما بالمشرفین لہ نظیر
ولا بالمغربین ولا بکوفہ
فرحمۃ ربنا ابدا علیہ
مدی الایام ما کربت صحیفۃ
مسلمانوں کے امام ابو حنیفہ نے ملکوں اور وہاں کے لوگوں کو خوشنما وآراستہ بنا دیا ، احکام ، آثار اور فقہ کے ذریعہ ، جیسے صحیفہ پر زبور کی آیتیں ہوں، تو نہ مشرقین میں ان کی کوئی نظیر ومثال ہے اور نہ ہی مغربین اور کوفہ میں، ہمارے پروردگار کی رحمت ہمیشہ ہمیش ان پر اس وقت تک ہوتی رہے جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بے شمار مسائل میں امام شافعی سے اختلاف تھا، مگر ایک بار انہوں نے فرمایا کہ چالیس سال سے میں نے کوئی ایسی نماز نہیں پڑھی جس کے بعد میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کے لئے دعا نہ کی ہو۔ ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن احمد بن حنبل نے پوچھا کہ امام شافعی آپ کے نزدیک کیوں اتنے قدر ومنزلت کے ہیں، کہ آپ پابندی سے ہر نماز کے بعد ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میرے بیٹے امام شافعی دنیا کے لئے سورج کی مانند ہیں جیسے جسم کے لئے عافیت ۔
امام احمد کی رائے ہے کہ جسم سے خون کا نکلنا ناقض وضو ہے، مگر جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں جس نے پچھنے لگوایا ہو، (حجامہ کرایا ہو) اور وضو نہ کیا ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا، سبحان اللہ، بھلا میں امام مالک بن انس اور سعید بن المسیب جیسوں کے پیچھے کیوں کر نماز نہ پڑھ سکتا ہوں ۔
امام شافعی نے ایک مرتبہ امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا: اگر علمائے عظام کا ذکر کیا جائے تو امام مالک روشن ستارے ہیں، انہوں نے ہی امام ابو حنیفہ کے بارے میں فرمایا کہ لوگ فقہ کے بارے میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چیں اور محتاج ہیں۔
اختلاف کے باوجود ووسرے کے ادب واحترام کا اندازہ اس خط سے لگایا جاسکتا ہے جو حضرت لیث بن سعد نے امام مالک کے نام لکھا تھا۔ اس میں غایت ادب واحترام کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ مسائل میں ان کے درمیان شدید اختلافات تھے، حضرت لیث امام مالک کا جواب دیتے ‘ ان کا رد کرتے ‘ہمارا سلوک کیسا ہونا چاہیے ، اور ہمارے اختلافات وحدت امت میں مخل نہیں ہونا چاہیے ، مگر نہایت مہذب وعلمی انداز میں ان کی تحریروں کو دیکھ کر اندازہ ہوگا کہ اختلاف رائے کے باوجود ان کے دل میں امام مالک کی کتنی محبت والفت اور عقیدت واحترام پنہا تھی اور وہ اہل علم سے کتنی محنت کرنے والے تھے۔
اسی سے ہمیں یہ بھی اندازہ کرنا اور سیکھنا چاہیے کہ مخالفین کے ساتھ ہمارا طرز عمل معاندانہ نہیں بلکہ مخلصانہ ہونا چاہیے ، ہمارے دین ومذہب نے اور ہمارے اسلاف نے ہمیں علمی وعملی طور پر بتایا اور سکھایا ہے کہ ہمیں دوسروں کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ اہل علم کی عزت وتوقیر کرنی چاہیے ، ان سے حسن ظن رکھنا چاہیے، اور اگر ہم کسی بات کو غلط تصور کررہے ہیں تو انہیں اس میں معذور سمجھنا چاہیے اور اختلاف رائے کے باوجود ادب واحترام اور عزت وتوقیر کا دامن ہمارے ہاتھ سے کبھی چھوٹنا نہیں چاہیے، اگر کوئی ہماری رائے کے برعکس رائے رکھنے والے ہوں تو بھی ہمیں ان سے بدگمان نہیں بلکہ حسن ظن رکھنا چاہیے،
آج جب ہم اپنی برادری اور اپنے سماج کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ شریعت اسلامیہ کے بنائے ہوئے ان آداب اور رہنمایانہ خطوط واصول سے ہم کتنا دور ہوگئے ہیں، ہم اسلامی کلچر اور اپنے اسلاف کے طریقہ سے کس قدر ہٹ چکے ہیں اوردینی کتابیں پڑھنے پڑھانے کے باوجود ہم جہالت ونادانی کی کتنی گہری کھائی میں اوندھے منہ گرے ہوئے ہیں۔
ناموافق میرے اندر کی فضا کیسی ہے
ٹوٹ جائے ، بکھر جائے کی صدا کیسی ہے
ایسا کیوں ہوا، اور ہورہا ہے؟ شاید اس کی وجہ سستی شہرت کی طلب ، مفاد پرستی ، دنیا طلبی اور دنیوی مال ومتاع کو ہی اپنی زندگی کا محور ورمرکز بنالینا اور کسی خاص گروہ یا جماعت یا افراد کی الفت ومحبت یا عداوت ونفرت میں اندھا ہوجانا ہے۔ یا فریق مخالف کے اقوال وافعال ، حرکات وسکنات اور جدوجہد وسرگرمیاں ان کے دنیوی مفادات سے ٹکراتے ہوں، اور وہ سمجھتا ہو کہ اس کی باتوں سے ہمارے ذرائع آمدنی ، ذرائع شہرت اور جاہ ومنصب کی راہ دشوار ہوسکتی ہے۔
آج اگر کسی کی مخالفت کی جاتی یا کسی کی رائے کو رد کیا جاتا ہے تو بلا تکلف گالی گلوج کی جاتی، سب وشتم کا سہارا لیا جاتا، ایک دوسرے پر طعن کئے جاتے ، تہمت والزام تراشی کی جاتی اور نیتوں کے درست نہ ہونے کے دلائل پیش کئے جاتے ہیں جبکہ اسے جس کا علم صرف اللہ کو ہے، مخالفین کو شریر ، اوباش ، چاپلوس، نادان، جاہل ، نفس پرست اور اس طرح کے بے شمار القاب سے نوازا جاتا ہے جو واضح دلیل ہے کہ ان کا اختلاف دین ومذہب اور ایمان واسلام کے لئے نہیں بلکہ خالص دنیا داری اور اپنے اپنے دنیوی مفادات کی حصولیابی کے لئے ہے، انسان خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لے کہ اس کی دوسرے سے مخالفت دین کے لئے ہے یا دنیا کے لئے۔ محدثین نے ایک اصول وضابطہ مقرر کیا ہے کہ انسان اس سے خود اندازہ کرسکتا ہے کہ اس کا اختلاف دنیا کے لئے ہے یا دین کے لئے ، مخالفین کے ضرر ونقصان اور اس کے غم پر اگر ہمیں خوشی ہوتی اور اگر اس کی خوشی اور نفع پر ہمیں غم ہوتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے ہمارا ختلاف دنیا کے لئے ہے دین کے لئے نہیں، ، ہمارا مخالف اگر حادثہ کا شکار ہوجائے ، کسی آفت ومصیبت میں پڑ جائے ، کسی بیماری کا شکار ہوجائے اور ہمیں خوشی ہو اچھا ہوا اور اس کے مرنے اور مزید تباہ وبرباد ہونے کی تمنا کرنے لگیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے ہمارا اختلاف دنیوی اغراض کی وجہ سے ہے، محض اللہ کے لئے اور رب کائنات کی رضا وخوشنودی کے لئے نہیں ہے۔
ہمیں اپنی روش پر نظر ثانی کرنی چاہیے، گالی گلوج، بد زبانی ، الزام تراشی اور شخصیت کو مجروح کرنے کے عمل سے باز آنا چاہیے، اختلاف کے آداب کو ملحوظ رکھنا چاہیے، مسلمان سمجھدار ودانا ہوتا، وہ ابن الوقت اور سر میں سر ملا کر آواز نکالنے والا نہیں ہوتا، سچا مسلمان وہ ہے جسے خواہشات راہ حق سے نہ پھیر سکے، باطل اسے اپنے دام فریب میں نہ لے سکے۔ اور اسے باہم دست وگریباں نہ کرسکے۔
مجھے میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نوشت کے لئے
میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں۔
دین نام ہے، خیر خواہی کا، اور شریعت نے بھی خیر خواہی کو ہم پر لازم کیا ہے، اور اس کا تقاضا ہے کہ ہم حق اور صحیح منزل تک پہنچنے کے لئے باہمی گفت وشنید کا راستہ اختیار کریں، مخالف رائے کا احترام کریں، گالی گلوج اور الزام تراشی کرنے والے فساق وفجار سے کنارہ کشی اختیار کریں، اوران سے برأت کا اعلان کریں اور سمجھیں کہ ان کا طریقہ خلیج کو پاٹنے کا نہیں بلکہ اسے گہرا کرنے کا ہے،اس کا طریقہ دلوں کو جوڑنے کا نہیں بلکہ توڑنے کا ہے، امت میں اتحاد ویگانگت پیدا کرنے اور شیرازہ بندی کا نہیں بلکہ شیرازہ منتشر کرنے اور امت کی دیوار میں شگاف پیدا کرنے کا ہے جبکہ ہمیں دلوں کو جوڑنے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کا حکم دیا گیا، ہمیں دشمنان اسلام کی سازشوں سے آج ہوشیار رہنے کی اشد ضرورت ہے، ہماری مسلم حکمراں مسلمانوں کو بانٹنے اور توڑنے کی ہزار کوششیں کریں ہمیں باہمی الفت ومحبت کو قائم رکھنا چاہیے، فروعی مسائل میں ہزار اختلاف کے باوجود کلمہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے شیرازہ کو منتشر ہونے سے بچانے کی اپنی حد تک ہر ممکن کوشش کرنی ہمارے پیش نظر رہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجائو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال:46)
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

Comments are closed.