تاریخ نزولِ قرآن مجید

مولانامحمدشاہدناصری الحنفی
مدیرماہنامہ مکہ میگزین وبانی صدرادارہ دعوۃ السنہ مہاراشٹرا
قرآن کریم دراصل کلامِ الٰہی ہے ، اس لئے ازل سے لوحِ محفوظ میں موجود ہے ، قرآن کریم کا ارشاد ہے :
بَلْ ہُوَقُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ۲۱ۙ فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۲۲ۧ [البروج : ۲۱-۲۲]
’’ بلکہ یہ قرآن مجید ہے ، لوح محفوظ میں۔‘‘
پھر لوحِ محفوظ سے اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ، ایک مرتبہ یہ پورا کا پورا آسمانِ دنیا کے ’’بیتِ عزت ‘‘ میں نازل کردیا گیا ، اس کےبعد آنحضرت ﷺ پر تھوڑا تھوڑا کرکے حسبِ ضرورت نازل کیا جاتا رہا ، یہاں تک کہ تیئیس سال میں اس کی تکمیل ہوئی، قرآن کریم میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں: ایک انزال اور دوسرے تنزیل ’’ انزال ‘‘ کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک ہی دفعہ میں مکمل نازل کردینا اور ’’ تنزیل‘‘ کے معنی ہیں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا، چنانچہ قرآن کریم نے اپنے لئے پہلا لفظ جہاں کہیں استعمال کیا ہے، اس سے مراد عموماً وہ نزول ہے جو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف ہوا، ارشاد ہے :
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ [الدخان : ۳] ’’ بلا شبہ ہم نے اس کو ایک مبارک رات میں اتارا ۔‘‘
اور ’’ تنزیل ‘‘ سے مراد وہ نزول ہے جو آنحضرت ﷺ پر بتدریج ہوا ، چنانچہ ارشاد ہے:
وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِيْلًا۱۰۶ [بنی اسرائیل : ۱۰۶]
’’ اور قرآن کو ہم نے متفرق طور سے اس لئے اتارا تاکہ آپ اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا۔‘‘
نزولِ قرآن کی یہ دو صورتیں خود قرآن کریم کے اندازِ بیان سے بھی واضح ہیں، اس کےعلاوہ نسائی ، حاکم ،بیہقی، ابن ابی شیبہ، طبرانی اور ابن مردوبہ رحمہم اللہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے متعدد روایتی ںنقل کی ہیں، جن کا خلاصہ یہی ہے کہ قرآن کا پہلا نزول یکبارگی آسمانِ دنیا پر ہوا اور دوسرا نزول بتدریج آنحضرت ﷺ پر ۔
پہلا نزول : حضرت ابن عباس ؆کی روایت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلا نزول لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا کے ایک مقام ’’ بیت عزت‘‘ پر ہوا جسے ’’ البیت المعمور‘‘ بھی کہا جاتاہے اور جو کعبۃ اللہ کے محاذات میں آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے ۔ ’’ بیتِ عزت‘‘ میں قرآن کا نزول کس طرح ہوا؟ اور اس نزول کی حکمت کیا تھی؟ اس بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی، البتہ بعض علماء مثلاً علامہ ابو شامہ نے یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ اس سے قرآن کریم کی رفعتِ شان کو واضح کرنا مقصود تھا اور اس مقام کے ملائکہ کو یہ بات بتانی تھی کہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے جو اہلِ زمین کی ہدایت کے لئے اتاری جانے والی ہے ۔ زرقانی نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ اس طرح دو مرتبہ اتارنے سے یہ بھی جتانا مقصود ہے کہ یہ کتاب ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے ، حضورﷺ کے قلبِ مبارک کے علاوہ یہ دو جگہ اور بھی محفوظ ہے ، ایک لوحِ محفوظ اور دوسرے بیتِ عزت میں، واللہ اعلم
بہرکیف! اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا احاطہ کون کرے؟ اسی کو صحیح علم ہے کہ اس کی اور کیا کیا حکمتیں ہوں گی اورہمیں ان کی تفتیش میں پڑنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ، البتہ ہمیں اتنا وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہےکہ یہ پہلا نزول لیلۃ القدر میں ہوا تھا۔
دوسرا نزول : اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ قرآن کریم کا دوسرا تدریجی نزول اس وقت شروع ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی عمر چالیس سال تھی، اس نزول کا آغاز بھی صحیح قول کے مطابق لیلۃ القدر ہی سے ہوا ہے اور یہی وہ تاریخ تھی جس میں گیارہ سال بعد غزوۂ بدر پیش آیا، چنانچہ ارشاد ہے :
وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ[انفال : ۴۱]
اس طرح نزولِ قرآن کے آغاز کے بارے میں مندرجۂ ذیل باتیں تو خود قرآن کریم سے ثابت ہیں:
۱- اس کی ابتداء رمضان کے مہینے میں ہوئی۔
۲- جس رات نزولِ قرآن کا آغاز ہوا وہ شب ِ قدر تھی۔
۳- یہ وہی تاریخ تھی جس میں بعد کو غزوۂ بدر پیش آیا۔
لیکن یہ رات رمضان کی کون سی تاریخ میں تھی؟ اس کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی، بعض روایتا سے رمضان کی سترہویں ، بعض سے انیسویں اور بعض سے ستائیسویں شب معلوم ہوتی ہے ۔
سب سےپہلے نازل ہونے والی آیت
صحیح قول یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں اتریں وہ سورہ علق کی ابتدائی آیات ہیں، صحیح بخاری میں حضرت عائشہ اس کا واقعہ یہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ پر نزولِ وحی کی ابتداء تو سچے خوابوں سے ہوئی تھی، اس کے بعد آپ ﷺکو خلوت میں عبادت کرنے کا شوق پیدا ہوا اور اس دوران آپ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں گزارتے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے، یہاں تک کہ ایک دن اسی غار میں آپ ﷺکے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتہ آیا ، اور اس نے سب سے پہلی بات یہ کہا کہ اِقْرأْ ( یعنی پڑھو)حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔‘‘ اس کےبعد خود حضورﷺ نے سارا واقعہ بیان کیا کہ میرے اس جواب پر فرشتے نے مجھے پکڑا اور مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھ پر مشقت کی انتہا ہوگئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور دوبارہ کہاکہ اِقْرأْ ، میں نے جواب دیاکہ ’’ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘ فرشتہ نے مجھے پھر پکڑا اور دوبارہ اس زور سے بھینچا کہ مجھ پر مشقت کی انتہا ہوگئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ کر کہاکہ اِقْرأْ ، میں نے جواب دیا کہ ’’ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘ اس پر اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑا اور بھینچ کر چھوڑ دیا ، پھر کہا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۱ۚ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۲ۚ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۳ۙ [علق : ۱-۳]
’’ پڑھو، اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا، پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے ۔‘‘
رسول کریم ﷺ ان آیات کو لے کر واپس گھر کی طرف چلے، تو آپ کا مبارک دل دھڑک رہا تھا، آپﷺ حضرت خدیجہ کے پاس پہنچے، اور فرمایا : زَمِّلُوْنِیْ ، زَمِّلُوْنِیْ ( مجھے کمبل اڑھاؤ، مجھے کمبل اڑھاؤ) گھر والو ںنے آپ ﷺ کو کمبل اڑھایا، یہاں تک کہ آپ ﷺ سے خوف جاتار ہا ۔
یہ آپ ﷺ پر نازل ہونےوالی پہلی آیات تھیں، اس کےبعد تین سال تک وحی کا سلسلہ منقطع رہا ، اس زمانے کو ’’ فرّتِ وحی‘‘ کا زمنہ کہتے ہیں، پھر تین سال کےبعد وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں آیا تھا، آپ ﷺ کو آسمان و زمین کے درمیان کھائی دیا اور اس نے سورہ مدثر کی آیات آپ کو سنائیں۔
یہ واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ تقریباً تمام کتبِ حدیث میں صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہے ، اسی لئے جمہور علماء کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ قرآن کریم کی سب سے پہلی آیتا جو آپ پر نازل ہوئیں سورہ علق کی ابتدائی آیات ہیں، ان کے بعد سورہ مدثر کی آیتیں نازل ہوئیں، لیکن اس سلسلے میں تین اقوال اور بھی ہیں جن پر یہاں ایک سرسری نظر ڈال لینا مناسب ہوگا:
۱- صحیح بخاری کتاب التفسیر میں حضرت جابر کی ایک روایت کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ آپﷺ پر سب سے پہلے سورہ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، اس بناء پر بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ نزول کے اعتبار سے سورہ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، اس بنا پر بعض علماء نے یہ کہہ دیاکہ نزول کے اعتبار سے سورہ مدثر سورہ علق سے مقدم ہے ، لیکن حافظ ابن حجر نے اس مغالطہ کی حقیقت واضح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ درحقیقت بخاری کی کتاب التفسیر میں حضرت جابر کی روایت مختصر ہے اور اس میں دو جملے نقل نہیں کئے گئے ، یہی روایت امام زہری کی سند سے بخاری ہی نے باب بدء الوحی میں نقل کی ہے، اس میں حضرت جابر نے سورہ مدثر کے نزول کا واقعہ بتاتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے یہ الفاظ صراحۃً نقل فرمائے ہیں کہ :
فَاِذَ الْمَلَکُ الَّذِیْ جَآءَ نِیْ بِحِراءٍ جَالِسٌ عَلَی الْکُرْسِیِّ
’’ پس اچانک (میں نے دیکھا کہ ) جو فرشتہ میرے پاس غارِ حرا میں آیا تھا وہ کرسی پر بیٹھا ہوا ہے ۔‘‘
اس سے صاف واضح ہے کہ غارِ حرا میں سورہ اقراء کی آیتیں پہلے نازل ہوچکی تھیں، سورہ مدثر بعد میں نازل ہوئی، البتہ یہ کہنا درست ہے کہ ’’ فرّت وحی‘‘ کےبعد سب سے پہلے نازل ہونے والی آیات سورہ مدثر کی ہیں، لہٰذا جن روایات میں حضرت جابر سے یہ منقول ہے کہ پہلی نازل ہونے والی وحی يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُہے ، اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’ فرّت‘‘ کے زمانہ کے بعد پہلی وحی یہ تھی، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی سورت جو مکمل نازل ہوئی وہ سورہ مدثر تھی، کیونکہ سورہ اقراء پوری ایک مربہ نازل نہیں ہوئی۔
۲- امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حضرت بن حبیل سے ایک مرسل روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نزولِ وحی سے پہلے حضرت خدیجہ سے فرمایا کرتے تھے کہ میں جب بھی خلوت میں جاتا ہوں تو کوئی مجھے یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ کہہ کر پکارتا ہے ، یہاں تک کہ ایک دن جب میں خلوت میں پہنچا تو اس نے کہا یَا مُحَمَّدْ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الخ یہاں کہ پوری سورہ فاتحہ پڑھ دی۔
اس روایت کی بناء پر علامہ زمحشری نے لکھا ہے کہ سب سے پہلی نازل ہونے والی سورت سورہ فاتحہ ہے ، بلکہ اسی کو انھوں نے اکثر مفسرین کا قول قرار دیا ہے ، لیکن حافظ ابن حجر نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ زمحشری کا یہ کہنا درست نہیں، سورہ فاتحہ کو پہلی وحی قرار دینے والے بہت کم ہیں، اکثر مفسرین کا قول یہی ہے کہ سورہ اقراء سب سے پہلے نازل ہوئی۔
جہاں تک بیہقی کی مذکورہ روایت کا تعلق ہے اس کے بارے میں خود امام بیہقی نے یہ لکھا ہے کہ اگر یہ روایت درست ہو تو یہ ممکن ہے کہ یہ واقعہ سورہ اقراء اور سورہ مدثر کے نزول کے بعد کا ہو، اور حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری نے یہ خیال بھی فرمایا ہے کہ ہوسکتا ہے سورحہ فاتحہ بعض دوسری آیات کی طرح دو مرتبہ نازل ہوئی ہو، ایک مرتبہ سورہ اقراء کے نزول سے پہلے اور دوسری بات اس کےبعد، اس صورت میں یہ کہنا پڑے گاکہ سورہ فاتحہ کا نزول پہلی بار قرآنیت کی صفت کے ساتھ نہیں ہوا تھا، بلکہ ایک فرشتہ نے آپ ﷺ کو یہ سورت سنا دی تھی، بعد میں اپنے وقت پر باقاعدہ قرآن کے جزء کی حیثیت میں نازل ہوئی۔
بہرکیف! ان تین روایتوں کو چھوڑ کر باقی اکثر روایات اس بات پر متفق ہیں کہ سورہ اقراء کی ابتدائی آیات سب سے پہلے نازل ہوئی تھیں، علامہ سیوطی نے اس کی تائید میں بہت سی روایتیں نقل کی ہیں۔
(زیرتصنیف کتاب ’’قرآن آپ سے کیاکہتاہے؟‘‘سے ماخوذ)
Comments are closed.