عرفان یاسکون

سمیع اللہ ملک
جس ذات نے انسانی آنکھ کودیکھنے والابنایا،اسی نے انسان کے دیکھنے کیلئے ایک خوبصورت کائنات بنائی۔رنگارنگ جلوے پیدافرمائے اوران جلوں میں اپنی جلوہ گری کے کرشمے دکھائے۔فنکار،فن کے جلوں میں خودجلوہ گرہے۔آنکھ نہ ہوتی تو کسی رنگ اورکسی روشنی کی کوئی ضرورت وافادیت نہ تھی۔مشاہدہ،جہاں مشہودکی جلوہ گری کاکمال ہے،وہاں یہ شاہد کے اندازِنظرکاحسن بے مثال بھی ہے۔قدرت نے جس ذوقِ تخلیق کااظہاربے رنگ زمیں میں رنگ دارگل کاری کرکے کیاہے،اس کی دادبس چشمِ بیناہی دے سکتی ہے۔بس آنکھ والاہی ترے جوبن کاتماشا دیکھ سکتاہے۔دیدہ کورپھر دیدہ کورہی ہے۔
آنکھوں میں جلوے اورجلوؤں میں آنکھیں، خوشبومیں رنگ اوررنگ میں خوشبو،ہرچیزہردوسری شے کے خیال میں محو ،محوکرنے والا اورمحوہونے والاسب ایک ہی محویت کاحصہ ہیں میں وصول بھی کرتاہوں اورمیں ہی ارسال بھی کرتاہوں،چہرے بھی میرے ہیں اورآنکھیں بھی میری ہیں، میرے ہی خیال کی زدمیں ہیںسب فاصلے سب دوریاں پاس ہی رہتی ہیں بس اک نگاہ کی بات ہے۔ اتفاقاًہی اٹھ گئی تووقت بدل جائے گاانقلاب بپاہوجائے گاجونہیں ہے ہو جائے گااورجوہے وہ نہیں رہے گاحاضرغیب ہوجائے گا اور غیب حاضر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناممکنات کوممکنات بنانے والی آنکھ کسی وقت اٹھ سکتی ہے۔۔۔۔۔۔اورپھرحجابات اٹھ جائیں گے سکوت سے کلام کاپہلونکل آئے گا۔صدیاں سمٹناشروع ہوجائیں گی اورلمحے پھیلنے شروع ہوجائیں گے بطون سے ظہورکاسفربس اک نگاہ کاسفرہے ظلمات سے نورکاسفرایک نگاہ کاسفر ہے بیگانے کواپنابنانے کیلئے ایک نظرکافی ہیجان لینے کے ارادے سے آنے والا جانثاربن جاتاہے یہی اعجازنگاہ ہے اپنامقدربس وہی نگاہ ہے ورنہ دامن عمل توخالی ہے۔
یہ میں کیالکھ بیٹھاآج ۔چلئے آپ کوایک واقعہ سناتاہوں!
ٹوکیو(جاپان)کے نواح میں ایک چھوٹاساقصبہ ہے،اس کے اسٹیشن کے سامنے چوک میں ایک کتاتھا،اس کامعمول تھاکہ وہ اپنے مالک کوہرصبح ٹوکیوجانے والی ٹرین پرسوارکراتا تھا اورہرشام مقررہ وقت پراسے لینے کیلئے وہاں موجودہوتاتھا۔ایک دن اس کامالک ٹوکیومیں حادثے کاشکارہوکرچل بسااوراس شام مقررہ ٹرین سے وہ گھرنہ لوٹ سکا۔وفادارکتا اس شام بھی اسٹیشن پرآیااورپھرجواس کے انتظارمیں بیٹھاتومرتے دم تک اس نے وہ جگہ نہیں چھوڑی۔قصبے کے لوگ کتے سے واقف تھے،اس کے مالک کی موت سے آگاہ تھے، ان کی تمام کوششوں کے باوجودکتااپنی جگہ سے نہ ہلا،یہاں تک کہ وہیں مرگیا۔لوگوں نے اس کی یادمیں اس کامجسمہ چوک میں نصب کردیا۔غورکیجئے تویہاں اہمیت مجسمے کی نہیں اس مقصدکی ہے جس کی خاطرکتے نے جان دی،اہمیت اس کے جذبہ وفاداری کی ہے،اس کی محبت کامحورصرف اس کامالک تھا،اس کی زندگی صرف اسی کیلئے تھی،وہ مرگیاتوکتے نے بھی زندہ رہناگوارا نہ کیا۔
باباجی کہہ رہے تھے کہ میرااپناگھوڑاتھاموتی۔ میں نے شہ سواری موتی کی کمرپربیٹھ کرسیکھی۔کیامجال کہ موتی پرکوئی دوسراسوارہوجائے۔پاکستان بنا،موتی کومیں نے اپنے محلے کے ایک شخص کیلاش کے حوالے کردیااورپاکستان آگیا۔معلوم ہوا کہ موتی اس قدررویا کہ نابیناہوگیااورجان دے دی۔ موتی کی یادکیلئے اس کی تصویرمیرے پاس ہے مگرموتی نے مجھے جو درسِ محبت دیااوراذیت فراق کاجومفہوم سمجھایاوہ ناقابلِ فراموش ہے!
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ کل صبح ایک پرندہ بڑے دردوسوزسے بول رہاتھا،اس کی آواز سن کرمیرے ہوش جاتے رہے۔ صبر،برداشت اورہوش کادامن میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا ، میری یہ حالت دیکھ کرمیرے دوست نے کہا:میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک پرندے کی آوازسن کرتم اپنی سدھ بدھ کیوں کھوبیٹھے۔میں نے کہا’’مجھے یہ توبتاکہ یہ کہاں کی آدمیت ہے کہ پرندہ تو مسلسل اللہ کی حمدکرے اورمیں انسان ہوکرخاموش رہوں‘‘۔شیخ سعدی بصارت وبصیرت کی عظمتوں پرفائزتھے۔انسانیت ان کا کردارتھااورزندگی کاکوئی لمحہ انہوں نے بے فکری سے نہیں گزارا۔انہوں نے اس رازکوپالیاتھاکہ ہرذی روح کی حیات مستعارکاہرلمحہ اپنے اندرمعنویت رکھتاہے۔
ایک پرندہ چہچہایا توسعدی نے اس کی چہچہاہٹ کومقصدیت ومعنویت دے دی۔ ہم درختوں پر روزو شب پرندوں کوایساکرتے دیکھتے ہیں یاگزرجاتے ہیں یاغلیل سے شکار کرلیتے ہیں،اب توغلیل کااستعمال بھی بدل گیاہے۔یہ اندازِ فکرکافرق ہے۔ایک فکروہ ہے کہ ایک کتے کی وفاداری کوجاپان کے دیہاتیوں نے دوام دے دیااورہم ہیں کہ انسان کی وفاداریوں کامضحکہ اڑاتے ہیں۔
مجھے وہ رات یادہے جب میرے ملک میں ستمگرسیلاب نے قیامت خیزتباہی مچادی،اس قیامت صغریٰ پرہرآنکھ اشکبارتھی۔ کل جواپنے مال سے زکو کااہتمام کرتے تھے آج وہ صاحبِ نصاب نہیں رہے۔ایک ہی رات نے شاہ سے گدابنادیا۔سیلاب کی تباہ کاریوں کی خبریں دل پربڑی گراں گزرہی تھیں اورپھرمحبت کرنے والوں سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہو رہا تھاکہ اچانک باباجی کافون آگیا۔میرے سردلہجے سے میری پریشانی بھانپ گئے اورمیرے مغموم ہونے پروہ بھی اپنے حزن وملال پرقابونہ پاسکے اورانتہائی دل گرفتہ ہوکرایک کہانی سنادی جس نے مجھے تڑپاکررکھ دیا:
ایک بزرگ جوتلاشِ عرفان میں جنگل جنگل مارے مارے پھررہے تھے۔ایک دن گاؤں کے باہربچے ایک گڑھے کے گردجہاں کتیانے بچے دئیے تھے ،کھڑے تالیاں بجارہے تھے۔وہ بے حدکمزورتھی،گڑھے سے باہرآنے کی کوشش کرتی توکمزوری کے باعث واپس لڑھک جاتی۔بچے اس منظرکالطف لیکر خوش ہورہے ہیں۔بزرگ یہ دیکھ کرگاؤں کے نان بائی کے پاس آئے،روٹی خریدی،دودھ فروش سے مٹی کے پیالے میں دودھ لیا،دودھ میں روٹی بھگوکرگڑھے میں اترے اوربرتن کوکتیا کے آگے رکھ دیا۔وہ جانے کب سے بھوکی تھی،جلدی جلدی پیٹ بھرااورمنہ اٹھاکرآسمان کی جانب دیکھنے لگی۔بزرگ فرماتے ہیں:مجھے ٹھیک اسی وقت وہ چیزمل گئی جس کامیں برسوں سے متلاشی تھااورجنگل جنگل مارا مارا پھررہاتھا۔یہ حصولِ عرفانِ ذات کاآزمودہ طریقہ ہے۔ لفظ’’عرفان‘‘شایدآپ کونہیں بھایا۔اس کی جگہ لفظ’’سکون‘‘استعمال کرلیتے ہیں۔آج کے ہرانسان کواس کی تلاش ہے،میرے خیال میں آج کل کے تمام امراض کی اصل’’عدل سکون‘‘ہی ہے۔
سکون کے متلاشیوں کوچاہئے کہ’’طالب علم‘‘بن جائیں۔دولت،حسن،اقتداراورحیثیت ہی کونعمت عظمیٰ نہ سمجھ بیٹھیں۔ قدرت نے ایسی بے شماراشیاتخلیق کی ہیں جن کودیکھ کراور جن کوسمجھ کرہم حقیقت اوغیرحقیقت میں تمیزکرسکتے ہیں۔بے شمار کام ایسے ہیں جن کے انجام دینے سے گہری طمانیت حاصل ہوسکتی ہے۔یہ زندگی کے وہ حقائق ہیں جنہیں تاقیامت جھٹلایانہیں جاسکتا۔طالب علم بننے میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے کہ آدمی دیکھے،سیکھے ،سوچے اورراہِ راست اختیارکرتاچلاجائے۔ایسے ہی لوگ قلبِ مطمئن کے مالک ہوتے ہیں۔وہ اللہ سے راضی اوراللہ ان سے راضی ہوتاہے اورجان رکھئے کہ’’اصل توانائی روح کی بالیدگی ہے‘‘۔ہمارے چاروں طرف ایسی نشانیاں بکھری پڑی ہیں،بھوک وافلاس کے مناظرپکاررہے ہیں، جلدی کیجئے،کہیں ان کی’’عزت نفس‘‘کوٹھیس نہ پہنچے، اس سوہنے خالق کی مخلوق تک پہنچنے کی کوشش کیجئے!

Comments are closed.