کچھ پل بیٹھا کرو اپنے بزرگوں کے ساتھ.. 

 

محمد نظام الدین قاسمی

 

گھر اور خاندان میں ضعیف العمر لوگوں کا نانا دادا نانی دادی کی شکل میں ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہے، لیکن ان کا نعمت ہونا بھی ان ہی لوگوں کو سمجھ میں آتا ہے جن میں ان کی قدر کرنے کی توفیق ہوتی ہے، بسا اوقات کسی مشکل وقت میں جب اچھے خاصے لوگوں کی عقلیں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو ان بزرگوں کی رائے معاملہ کو آسانی سے حل کردیتی ہیں -بہت ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے دادا دادی نانا نانی کا پیار پایا ہے ، ان کے پاس ماضی کی خوبصورت یادیں ہوتی ہیں، زمانہ کچھ بھی کہے اور کتناہی ماڈرن کیوں نہ ہوجائے دادا دادی نانا نانی کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوسکتی، ان کے پاس ہر وقت آپ کو بتانے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے، ان میں بچوں کے ساتھ بچہ اور بڑوں کے ساتھ بڑا بننے کی بھر پور صلاحیت ہوتی ہے، جو بچے بزرگوں کے ساتھ رہتے ہیں ان کے خیالات عام بچوں سے الگ ہوتے ہیں، وہ دوسروں کے جزبات کے تئیں حساس ہوتے ہیں، ایسے بچے با اخلاق، ہوش مند، دوسروں کے بارے میں نرم اور ملنسار ہوتے ہیں ، ایسے بچوں کو اپنے خاندان کی تاریخ کا علم ہوتا ہے ان کو معلوم ہوتا ہے کہ انکے خاندان میں کیسے کیسے لوگ گزرے ہیں اور انہوں نے ملت کیلئے اور خاندان کے لوگوں کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں اورکتنی تگ و دو کے بعد ان کا خاندان اس مقام تک پہنچا ہے، ان کے اندر تکلیف برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی، ایسے بچے رشتوں کو بخوبی نباہ نا جانتے ہیں اور ہمیشہ ان کو اپنے رشتہ داروں کی تلاش ہوتی ہے جنہیں پاکر وہ اپنائیت محسوس کرتے ہیں، ان میں محبت، احترام، اور انسانی ہمدردی کے جزبات بھر پور ہوتے ہیں، ان میں حالات کے موافق جینے کی خوبی ہوتی ہے ایسے بچے ذہین بھی ہوتے ہیں-وہ دور کتنا بابرکت تھا جب شام ڈھلتے ہی بچے نانی دادی کی آنچلوں میں آکر بیٹھ جایا کرتے تھے اور دادی نانی بچوں کو کہانی سنایا کرتی تھیں جنہیں بچے سن کر کبھی تو کھلکھلا اٹھتے تو کبھی بزرگوں کے باہوں سے چمٹ جاتے یہ وہ دور تھا جب ہر کسی کے دل میں الفت و محبت کے دیے جلا کر تے تھے، بچے اپنے بزرگوں کا احترام ان کی خدمت ثواب اور اللہ کا حکم سمجھ کر کیا کرتے تھے-آج معاشرے کی تباہی کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ بچے اپنے بزرگوں سے دور ہوتے چلے گئے ان کے اکثر اوقات دوستوں کے ساتھ لہو و لعب اور باقی موبائل بینی میں گزرجاتے ہیں ، ان کو رشتوں کی اہمیت کا اندازہ اور نہ بزرگوں کی قدر کرنے کی توفیق ہوتی ہے، اور یہ وہ چیز ہے جو انہیں اپنے والدین سے ہی ملتی ہیں اگر والدین اپنے والدین کی قدر کرتے ہیں اپنے بچوں کو دادا دادی نانا نانی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کرتے ہیں تو بچے بھی ان سے کچھ سیکھ لیتے ہیں لیکن اگر والدین خود ہی اپنے والدین کے تئیں بےفکر ہوں تو پھر بچے بھی اسی روش پر عمل کرتے ہیں اس وقت پھر والدین کو احساس ہوتا ہے کہ مجھے جو آج پچھتاوا ہورہا ہے یہ سب دراصل اپنے ماں باپ کے ساتھ کیے ہوئے کا پھل ہے – آج زمانہ فاسٹ ہوچکا ہے ہر چیز ایک رسم بن کر رہ گئی ہے ، جنہیں پورے پورے دن ماں باپ دادا دادی نانا نانی کے پاس بیٹھ کر کچھ میٹھی باتیں کرنے کی فرصت نہیں ہوتی انہوں نے بھی سال میں ایک مرتبہ نیشنل گرینڈ پیرنٹس ڈے مناکر اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے کا بڑھیا ہنر جان لیا ہے، اب تو سال کے بیشتر حصے ڈیز منانے میں ہی گزرجاتے ہیں کبھی مدر ڈے تو کبھی ٹیچر ڈے، کبھی وومن ڈے تو کبھی برتھ ڈے، بڑے بڑے خوشنما پروگرام منعقد ہوتے ہیں جن میں ماں باپ سے متعلق ای موشنل گانے گائے جاتے ہیں بظاہر سامعین کی آنکھوں سے آنسوؤں کے سیلاب بھی رواں ہوتے ہیں لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے اکثر وہ ہوتے ہیں جن کے ماں باپ اولڈ ہوم میں اپنی موت کے دن گن رہے ہوتے ہیں یاپھر گھر میں ہونے کے باوجود بھی انہیں کوڑے کے ڈھیر سے زیادہ حیثیت نہیں دیجاتی، حالانکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اولاد والدین کی خدمت کرکے اپنی عاقبت سنوار سکتی ہے, جس پر قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جنت کی بشارت دی گئی ہے-بزرگوں کے گھروں میں ہونے سے یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کیلئے لوگوں کو ڈاکٹروں کی دہلیز پر دستک دینا نہیں پڑتا کیونکہ نانی دادی کے پاس چھوٹی موٹی بیماریوں کے علاج کا خزانہ ہوتا ہے ایک سے ایک ٹوٹکے ہوتے ہیں جنہیں استعمال کرکے وہ لوگوں کی تکلیف کو دور کرنے کا ہنر جانتی ہیں- انہی ہنر مند اور پاک طینت خاتون میں خود میری مرحومہ نانی بھی تھیں جو ابھی چند ہی روز قبل اپنے مالک حقیقی سے جا ملی ہے ( انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین) مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ مجھے چیچک ہوگیا تھا نانی بالکل صبح صبح محلے کی دو تین خاتون کے ساتھ مجھے ایک جنگل میں لے گئی جہاں کسی جڑی کو توڑ کر بڑے سلیقے سے کسی جنگلی لتی میں ہی پرو کر مجھے پہنادی جیسے جیسے وہ جڑی سوکھتی گئ میرا زخم بھی جاتا رہا مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جڑی تھی کیونکہ اس وقت مشکل سے میری عمر دس سے بارہ سال رہی ہوگی – نانی جان بڑی نیک طبیعت کی مالک نماز روزہ کی پابند، قرآن کی تلاوت کرنے والی اور دعاؤں میں مشغول رہنے والی خاتون تھیں، ادھر تقریباً ڈیڑھ دو سال سے بہت زیادہ نقاہت کی وجہ سے نماز پڑھنے سے معذور تھیں, ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دوسروں پر بوجھ بننا بالکل پسند نہیں کرتی تھیں، چونکہ نانی کی اولاد میں والدہ اکیلی تھیں بارہا والدہ کے اصرار کے باوجود وہ بیٹی کے یہاں آنا گوارا نہیں کرتی تھیں کہ لوگ کہیں گے کہ بیٹی کے دہلیز پر جابیٹھی ہے، اسی وجہ سے بڑے بھائی جان کو کچھ دنوں اپنی فیملی کے ساتھ نانی کے یہاں رہنا پڑا لیکن وہاں کے ماحول سے میل نہ کھانے کی وجہ سے پھر اپنے گھر آگئے, ادھر جب بہت کمزور ہوگئی آنکھ کی روشنی بھی کم ہوگئی تھی تو والدہ نے اپنے یہاں رکھ لیا تھا لیکن اس میں بھی وہ اکتاہٹ محسوس کرتی رہتی تھیں اور بارہا کہا کرتی تھیں کہ اپنا آنگن اپنا چوکھٹ ہم کو یاد کر رہا ہوگا، ایک مہینہ قبل پھسل جانے کی وجہ سے نانی جان کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اپنی ضرورتیں خود سے پوری نہیں کرپاتی تھیں والدہ اور بھابھی لوگوں نے بڑی خدمت کی (اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے آمین) والدہ کی زبانی سننے کو ملا کہ وہ اس کو بڑی ناپسند کرتی تھیں کہ اپنی ضروریات بھی دوسروں سے پوری کروائے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اپنی رخصتی کی گہار لگاتی رہتیں، بقر عید کے موقع سے نانی سے دل لگی کرتے کرتے موبائل کے ذریعہ ہی ان کا انٹرویو کرنے لگا جب عمر پوچھا تو بولی نوے سال، جب میں نے درازی عمر کی دعا کی تو انکار کرنے لگی بولی اب نا – میرے علم کے مطابق نانی کا سب سے بڑا غم یہ تھا کہ ان کی زندگی کا اکثر حصہ اکیلا پن میں گزرا ہے لیکن کبھی بھی اس کا احساس ہم لوگوں کو نہیں ہونے دیا، بارہا نانی کو خبر دیے بغیر جب نانی گھر جانا ہوتا تو نماز پڑھتے ہوئےدعاؤں میں مشغول پاتا اور اپنے کانوں سے بارہا اپنے حق میں نانی سے میں نے دعائیں کرتے سنا، اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعاء کرتی( اللہ بوا کے حافظ قاری مولانا بنیہا روزی روٹی اور سمانگ کا بڑا کریہا) یہ تو دعاء کا معاملہ ہے نانی نے ہم بھائی بہنوں کیلئے جسمانی طور پر بھی بہت مشقت جھیلی یہاں تک کہ ہم لوگوں کیلئے انہیں مزدوری تک کرنی پڑی جو قرض مجھے نہیں معلوم زندگی بھر میں ادا کرسکوں گا-فطری طور پر مجھے بوڑھے اور ضعیف لوگوں سے ہمیشہ سے ایک الگ ہی قسم کی انسیت رہی ہے، بڑی جلد مجھے بزرگوں سے لگاؤ پیدا ہوجاتا ہے-

بڑی چاہ ہے مجھے بوڑھے چہروں سے

قید ہوتی ہیں ان میں اک زندگی ساری

جن بزرگوں سے میرا بڑا گہرا تعلق رہا ہے ان میں نانی مرحومہ کے علاوہ سرے فہرست دادی، مرحوم دادا جان ان کے چھوٹے بھائی مرحوم محمد شریف( داہو دادا ) اسی طرح میرے قریب کے ہی رشتہ دار میں ایک بزرگ تھے جو غالباً دادا کو ماموں لگتے تھے مرحوم فقیر محمد دادا ، میری چچی کے والد مرحوم محمد موسم نانا ، اور دادی کے بھائی مرحوم محمد الیاس نانا یہ وہ لوگ ہیں جن کی میں بھی بڑی عزت کرتا تھا اور وہ بھی مجھے بیحد عزیز رکھتے تھے اللہ تعالیٰ ان تمام کی مغفرت فرمائے اور ہمیں اپنے بزرگوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین-

کچھ پل بیٹھا کرو اپنے بزرگوں کے ساتھ

ہر چیز گوگل سےہی نہیں ملنے……. والی

محمد نظام الدین قاسمی

9007148729

Comments are closed.