نئے سال کا جشن منانا کیسا ہے؟

ایک اور اینٹ گر گئی،دیوار حیات سے
ناداں کہ رہے ہیں،نیا سال مبارک
مفتی محمد جمال الدین قاسمی
آل انڈیا ملی کونسل بہار،پھلواری شریف، پٹنہ
رابطہ نمبر:6201800479
سال نو کی آمد قریب ہے،مبارکبادی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے،سوشل نیٹ ورک،فیس بک،واٹس ایپ،انسٹاگرام،ٹیلی گرام،اور ٹویٹر وغیرہ پر مبارکباد ی کی بھر مار ہے،دور حاضر میں سال نو کے جشن نے ایک تیوہار کی حیثیت حاصل کرلی ہے،دنیا کے تمام مذاہب وادیان میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے رائج ہیں،ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پس منظر ہے،ہرتیوہار کوئی پیغام دیکر جاتا ہے،جس سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے،اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے،لیکن آج کی اس ترقی یافتہ دور میں جیسے جیسے دنیا ترقی کے منازل طے کرتی گئی،تو انسانوں نے کلچر وثقافت، اور آرٹ کے نام پرنئے نئے تیوہار جشن کادن متعین کرلیے،انہیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے،یہ مختلف طرح کے ڈیز اور اور جشن، جیسے کہ مدر س ڈے،فادرس ڈے،چلڈررینس ڈے،ٹیچرس ڈے،لیبرس ڈے،ویلینٹائن ڈے، اور ویمینس ڈے،کرسمس ڈے،وغیرہ یہ سب یہودو نصاریٰ کی ایجاد ہیں،کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے سال کا جشن منایا؟کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپس میں ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد ی دی؟کیا تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں اس رسم کو منایا گیا؟کیا دیگر مسلمان حکمرانوں نے اس کے جشن کی محفلوں میں شرکت کی؟حالانکہ اس وقت تک اسلام ایران، عراق،مصر،شام،اور مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک تک پھیل چکا تھا،یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہر عقلمند شخص نفی میں دے گا،پھر آج کیوں مسلمان اس فعل قبیح کو انجام دے رہے ہیں؟آخر یہ کس نے ایجا د کیا؟کونسی قوم نئے سال کا جشن مناتی ہے؟اور کیوں مناتی ہے؟اور اس وقت مسلمانوں کوکیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ آئیے:ان تمام خرافات کو مختصر طور پر سمجھتے ہیں,در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق 25/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے، اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور31/دسمبر کی رات میں 12/ بجنے کا انتظار کیا جاتاہے، اور 12/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں،اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے،حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم،اور شرمندہ نہیں ہوا، جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا،جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا،اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔(قیمۃ الزمن عند العلماء، ص:27)حسن بصری رح فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔(حوالہ بالا)یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے،وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔حضرت علی رضوی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ“۔ (ترمذی 2/58) ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔یہ مختلف طر ح کے جشن یہود و نصارٰی اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں؛ جیسے: مدرس ڈے، فادرس ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈررینس ڈے، اور ٹیچرس ڈے وغیرہ؛ اس لیے کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے، اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتاہے، اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا؛ اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں، جن میں ان تمام رشتوں کا دکھلاوا ہوسکے؛ مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے، اسلام نے سب کے حقوق مقرر کردیے ہیں، اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے؛ اس لیے نہ ہمیں ان دکھلاووں کی ضرورت ہے،اور نہ مختلف طرح کے ڈے منانے کی؛ بلکہ مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے؛تاکہ دوسری قوموں کی مشابہت سے بچا جاسکے؛ اس لیے کہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“۔ (ابوداؤد2/203) ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہوگا، نیز حضورﷺ نے ارشاد فرمایاجس نے ہمارے علاوہ کسی کی مشابہت اختیار کی وہ ہم میں سے نہیں، تم یہود ونصاری کی مشابہت اختیار مت کرو۔۔(ترمذی)اب سوال یہ ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کو کیا رویّہ اختیار کرنا چاہیے،جو قرآن و احادیث کی روشنی میں صحیح ہو؟نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو قرون اولی کا کو ئی اور عمل تو مل نہ سکا؛ البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نگاہوں سے گذری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا،تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تے تھے، ”اللّٰہُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَۃِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی6/221: 6241) ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام، اوراپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے:
(۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔
ماضی کا احتساب نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے، اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ، اور حقوق العباد،کی ادائے گی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں، اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔ (ترمذی4/247) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا مواخذہ، اور محاسبہ کرنا چاہیے، اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے۔ اسی کو اللہ جل شانہ نے اپنے کلام پاک میں ایک خاص انداز سے ارشاد فرمایا ہے: ”وَأنْفِقُوْا مِنْ مَا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ أنْ یَأتِیَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلاَ أخَّرْتَنِیْ إلیٰ أجَلٍ قَرِیْبٍ فَأصَّدَّقَ وَأکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ، وَلَنْ یُّوَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا إذَا جَاءَ أجَلُہَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ“۔(سورۂ منا فقون، آیت/ 10،11) ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں،اور نیک لوگوں میں سے ہوجاو?ں۔ اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے، پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالی اچھی طرح باخبر ہے،
آگے کا لائحہ عمل
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر،اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا،کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں، اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟انسان غلطی کا پتلا ہے،اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو، جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“۔ (مشکاۃ المصابیح2/441)
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:”وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ“۔ (سورۂ نجم)ترجمہ: اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے، جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے،اور برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے، کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے، اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک اہم امر کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے کہ مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں؛ بل کہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے،اور ہم میں سے اکثروں کو اس کا علم بھی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں، اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں؛ اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے؛ چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے؛ اس لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت علی المرتضی کے مشورے سے واقعہ ہجرت سے مقرر کیا،اسلام میں اجتماعی خوشی اور جشن منانے کی صرف دو موقعوں پر اجازت ہے: ایک عید الفطر اور دوسرے عید الاضحی،بس یہ سمجھ لیجیے کہ اس رات تہذیب وتمدن، وشائستگی، ادب واحترام کی ساری حدیں توڑنے، اور نئے سال کے استقبال کے لئے پوری دنیا میں کافی اہتمام کیاجاتاہے۔ امریکہ‘برطانیہ‘جرمنی‘ فرانس‘ آسٹریلیا وغیرہ جیسے ممالک میں رات 12بجے سے قبل روشنیاں گل کردی جاتی ہیں، شراب وکباب کی محفلیں جمی رہتی ہیں،اللھم احفظنا،اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بالکلیہ بچائیں،ماں باپ اپنے بچوں کی خصوصی نگرانی کریں،اللہ تعالیٰ پورے امت مسلمہ کو آقائے نامدار جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
Comments are closed.