وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان

مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ علیہ

عبدالرحیم ندوی، استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

وہ غیر معمولی انسان جسے وقت کے جلیل القدر عالم نے’’ رجل موهوب‘‘ کا خطاب دیا تھا! یقینا وہ اس کا مصداق تھا، اس کو قدرت نے بیسویں صدی کی فکری راہنمائی وقیادت کے لیے برپا کیا تھا، وہ تقریبا پوری ایک صدی ملت کی رہنمائی کرتا رہا، آج 21 سال کا عرصہ ہوا وہ تکیہ کے’’روضہ‘‘میں میٹھی نیند سورہا ہے!جس کی وفات پر نہ جانے کتنے مضامین شائع ہوۓ، کتنے رسالوں اور جریدوں نے خصوصی نمبرات نکالے، اور تحقیقی مقالات لکھے گئے، درجنوں کتابیں شائع کی گئیں، پی یچ ڈی کے مقالے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں ، اور لکھے جاتے رہیں گے ،یہ سب اس کی مقبولیت کی دلیل اور عظمت کی نشانی ہے۔

یقیناً پیدا تو وہ ہوا ایک چھوٹے سے گاؤں میں( تکلیہ رائے بریلی) جہاں شاید اس وقت بجلی تو کیا؟ لال ٹین بھی ٹھیک سے میسر نہ ہوتی ہوگی! لیکن علم کی شمع ضرور روشن تھی، چنانچہ جب اس نے علم کے نور سے اپنے سینہ کومنور کیا اور کتاب وسنت کی ضیاپاش کرنوں سے اپنے افکار وخیالات کوروشنی بخشی تو پھر نہ صرف وہ بقعہ زمین چمک اٹھا بلکہ وہ آسمان رشد و ہدایت پر ایسا چمکا کہ عرب وعجم سبھی اس کی کرنوں سے کسب فیض کرنے لگے، اس کی لگائی ہوئی سلسبیل سے اپنی پیاس بجھانے لگے، اس کی متوازن فکری بنیادوں پر اپنی زندگی کی عمارت تعمیر کرنے لگے، بڑے بڑے سلاطین اور امراء ووزاء اس کی در کی جبہ سائی کرنے لگے۔

وہ مردمومن ریشم کی طرح نرم اور فولاد کی طرح سخت تھا، حق و باطل کے معرکہ میں ہمیشہ سینہ سپر رہا، ملت اسلامیہ کی ہر مشکل میں رہنمائی کی ، اس نے زندگی میں جس سے متعلق جو فیصلہ کیا اس پر تادم حیات قائم رہا، اس لیے نہیں کہ وہ ضدی اور ہٹ دھرم تھا، بلکہ اس لیے کہ اس کی راۓ صائب اور فکر متوازن تھی ، اگر بادی النظر میں کبھی لوگوں کو اس کی راۓ غلط معلوم ہوتی تھی تو بعد کے واقعات اس کی تصدیق کرتے تھے، اس لئے کہ وہ نہ صرف قوموں کی تاریخ سے واقف تھا بلکہ فلسفہ تاریخ کا ماہر تھا، سخت سے سخت حالات میں اس کے پایہثبات میں بھی ڈگمگا ہٹ نہیں آتی تھی، امت مسلمہ کی ہر نازک موقع پر اس نے دستگیری کی ، وہ صرف اپنی قوم کا بہی خواہ نہ تھا بلکہ پوری انسانیت کا ہمدرد وبہی خواہ تھا وہ پوری انسا نیت کو خدا کا کنبہ تصور کرتا تھا۔

خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر کا مصداق تھا، سارے جہاں کا درداس کے سینہ میں پنہاں تھا، ہندوستان یا بیرون ہند پیش آنے والے فسادات یا جانی مالی نقصانات کے واقعات پر اس کی بے چینی اور کرب اس پر شاہد عدل اور ’’تحریک پیام انسانیت‘‘ اس کا زندہ ثبوت ہے، وہ اپنی جگہ میں بیٹھ کر صرف بے چین نہ ہوا بلکہ اس سے جو بن پڑا اپنی تقریر وتحریر اور اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کر کے متاثرین کو نجات دلائی اور اس آگ کو بجھایا، یقینا وہ ملت کے لیے ’’یدبیضاء‘‘ تھا۔

اس کی آواز ہندوستان کے گوشے میں گونجتی تھی تو پورے عالم میں اس کی آواز باز گشت سنائی دیتی تھی،کسی نے کہا تھا کہ پورپ میں جو کام اکاڈمیاں کرتی ہیں وہ ہمارے یہاں ایک آدمی کرتا ہے۔ یہ بات اس فرد پر پوری طرح صادق آتی تھی، اس نے چھوٹی بڑی سیکڑوں کتابیں لکھیں، ہزاروں اسفار کئے نہ جانے کتنی تنظیموں اور اداروں کی رکنیت وصدارت قبول کی ، دن کو ہزاروں اسٹیجوں پر گرجا، راتوں کو رویا ان سب کے پیچھے ایک ہی محرک تھا ایک ہی داعیہ تھاایک ہی اسپرٹ تھی ، اور وہ تھی خدمت دیناور دعوت اسلام وہ دراصل اسلام کا مخلص داعی تھا ۔

اس کا کارنامہ حیات پوری ایک صدی پر محیط ہے وہ بیسویں صدی کا مفکر، رہنما، داعی اور دین کا سچا سپاہی تھا، اس کی شخصیت اتنی ہمہ گیر، ہشت پہل تھی کہ علم وعمل کے جس کوچہ میں قدم رکھئے ۔اس کے نقش پا آپ کو نظر آئیں گے کیا قرآن و حدیث، کیا تاریخ وأدب، کیا سیرت وسوانح کیا اقوام و ملل، کیا ادب وإنشاء پردازی، کیا خطابت وکتابت کیا تزکیہ وسلوک، غرض ہر وادی میں اس نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، لیکن اس کی گونا گوں سرگرمیاں اور متنوع کاوشیں سب ایک نقطہ میں سمٹ جاتی ہیں وہ نقطہ ہے’’دین حق کی دعوت ‘‘۔

اس کی کوششوں کا محور صرف دین کی خدمت اور اسلام کی دعوت تھا، اسنے اپنی زندگی میں جو بھی قدم اٹھایا وہ اسلام کی دعوت اور دین کی حفاظت کے لیے اٹھایا اپنی ذات کو نمایا کرنے یا شہرت وعزت، عہدہ ومنصب، مال ومتاع حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا،. کیوں؟

لیے کہ وہ اس سے بلند تھا اس کی نگاہ کسی اور دنیا کو دیکھ رہی تھی۔اس کے اخلاق کی بلندی، تواضع وبےنفسی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ذات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے قریب کرنے کی پوری کوشش کی ہے ، کہ وہ دوسروں کی عیب جوئی سے دور، اس کی خیر خواہی وخیر طلبی مشہور، اپنے مخالف کے لیے اس کا عفوو درگزرعام، اور اپنی ذات کے لیے انتقام اس کے یہاں حرام تھا،حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب ندوی جنہوں نے نہ صرف اس کو قریب سے دیکھا ہے، بلکہ شب وروز ا اس کے ساتھ رہے ہیں ،خلوت و جلوت کے راز دار ہیں ۔ اور لوگوں کے ساتھ ان کے برتاؤ سے خوب واقف ہیں۔ ان کی بات سند کا درجہ رکھتی ہے وہ فرماتے ہیں:مولانا کی دونمایاں صفتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں ، ایک تو ممکنہ حد تک وسعت قلبی کہ ہر مکتب فکر کے لیے آپ کے یہاں گنجائش تھی ، بشرطیکہ شریعت کے مسلمہ اصول سے ہٹ کر اس کا عمل نہ ہو۔

دوسری صفت دوسروں کی دل آزاری سے پر ہیز، دوسروں کا برا چاہنا یا انتقام لینا مولانا کے یہاں بالکل نہ تھا، وہ دوسروں کی عیب جوئی سے دور رہتے تھے جن کو برا سمجھتے تھے ان کو بھی بلاضرورت برا نہ کہتے تھے حتی کہ خدام کو بعض مرتبہ دھو کہ ہو جاتا تھا کہ مولا نا اپنے فلاں مخالف سے ناواقف ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا وہ باخبر ہوتے تھے لیکن ظاہر نہیں کرتے ۔ آسایش دو گیتی تفسیر این دوحرف است با دوستان تلطف. ، بادشمنان. مدارا

وہ مرد آزاد جس کو انداز خسروانہ عطاء کیا گیا تھا، استغناء کی بلند چوٹی پر فائز تھا، جس کی نظیر اس دور میں ملنی مشکل ہے، وہ جب امراء وسلاطین، ارباب اقتدار اور حکمرانوں سے ملتا تو پوری جرات کے ساتھ بات کرتا، اس کے لب ولہجہ میں کسی طرح کی ممنونیت نہ ہوتی تھی بلکہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی شخص ہے جو پہاڑ کی بلندی سے لوگوں پر نظر ڈال رہا ہے، ان کے ملک اور حکومت میں اگر کوئی نقص اور قابل اصلاح بات محسوس کرتا تو بلا خوف وتردد اس طرف متوجہ کرتا، جس طبقہ سے بھی ہم کلام ہوتا اس کی ذمہ داری اس کو یاد دلاتا، اس کے امراض کی تشخیص اور دوا کی تجویز کرتا، جیسے ماہر نباض کرتا ہے، لیکن یہ سب کچھ حکمت اور مصلحت کے ساتھ کرتا، "كلموالناس على قدر عقولهم“ اور “أنزلو الناس على منازلهم” کا پورا پورا لحاظ رکھتا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ اس کی بات موثر ہوتی، اس کی جرات رندانہ کو ہر کوئی نہ صرف برداشت کرتا بلکہ اس کو تسلیم کرتا اور ممنون بھی ہوتا تھا، اور ان سب کے پیچھے جو چیز کارفرماتھی، جس نے اس کے اندر یہ جرات پیدا کی تھی وہ تھی استغناء کی صفت، وہ دنیا اور دنیا والوں سے بے نیاز تھا، اس نے جاہ وحشم، عہدہ ومنصب اور مال ومتاع کو نگاہ اٹھا کر نہ دیکھا، اس کے نزدیک یہ سب چیزیں انسان کے تابع تھیں نہ کہ انسان ان کے تابع، یہی وجہ تھی کہ دنیا اس کے قدموں پر گری پڑتی تھی اور وہ ٹھوکریں مارتا تھا ۔ چنانچہ بھاری بھاری رقمیں ایوارڈ کی شکل میں ملیں، تو ہاتھ بھی نہ لگایا بلکہ مختلف رفاہی اداروں اور تنظیموں کوتقسیم کرادیا، شاید اس کی سب سے بڑی صفت جو اس دور میں مفقود ہوتی جارہی ہے، وہ زہد واستغناء کی صفت تھی، اس نے کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کیا، نہ اپنے لیے، نہ اپنے متعلقین کے لیے، اور نہ اپنے ادارہ کے لیے، ایسا نہ تھا کہ اس کو ضرورت نہ تھی،یقینا وہ بھی انسان تھا اس کی بھی ضروریات تھیں، زندگی کے تقاضے تھے، لیکن وہ جانتا تھا کہ دنیا اس سے متاثر ہوتی ہے جو بے غرض ہوکر بات کرتا ہے جو ان دنیاداروں کے سامنے ایسی چیز پیش کرتا ہے جس سے انکا دامن خالی ہے۔

حسن بصری رح سے کسی نے پوچھا آج علماء کیوں بے وزن ہو تے جاتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا’’آج علماء دنیاداروں کی دنیا کی طرف للچائی ہوئی نگاہ ڈالنے لگے ہیں، پہلے کے علماء اس سے بےنیاز تھے تو دنیا والے انکے محتاج تھے آج وہ خود انکی چیزوں کے محتاج بن گیے ہیں‘‘ شاید اس مرد زاہد نے یہ صفت اسی لیے اپنا لی تھی ، اور دنیا نے دیکھا اس کی آواز میں کیسا آہنگ اور اس کی بات میں کیسی تاثیر پیدا ہوگئی کہ شاہ وگدا، امیر وغریب ،تاجر ومزدور بنی آدم کا ہر طبقہ یکساں متاثر تھا، یہی استغناء کی صفت تھی کہ جب ندوہ میں پچاسی سال جشن ہوا اور عرب کی ممتاز ترین شخصیات اور امراء ندوہ آئے تو اس مرد درویش نےاپنی تقریر میں بڑی جرات سے کہا تھا کہ ’’ نعم الأمير على باب الفقير وبئس الفقير علي باب الامير‘‘ یہ سب دعوت دین کے لیے تھا تاکہ جرآت سے اپنی بات کہ سکے، اگر دست سوال دراز کرتا تو یہ جرات ہرگز پیدا نہ ہوتی۔

ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب نے مولانا علی میاں صاحب کی وفات حسرت آیات پر اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا :’’ مجھے یاد کہ جب انہوں نے تیس سال قبل قطر کا سفر کیا اور ندوہ کی مالی وسائل کی کمی سے پریشان تھے انکے بعض دوستوں نے اہم شیوخ اور تاجروں سے ملاقات کی راۓ دی، انہوں نے فرمایا ہم ہرگز نہیں کر سکتے، ہم نے پوچھا کیوں؟ فرمایایہ لوگ مریض ہیں، ان کا مرض دنیا کی محبت ہے ہم ان کے معالج ہیں : آخر معالج اپنے مریض کے سامنے ہاتھ پھیلا کر ان کا علاج کیسے کر سکتا ہے؟ ہم نے عرض کیا، اپنے لیے تو آپ مانگ نہیں رہے ہیں،فرمایا: یہ لوگ اس کا فرق نہیں کرتے، وہ ہمیشہ آپ ہی کو دست سوال دراز کرنے والا سمجھتے رہیں گے ۔

افسوس کہ یہ استغناء کی صفت آج علماء کے اندر سے مفقود ہوتی جا رہی ہے، بلکہ دنیا داروں سے زیادہ حریص نظر آتے ہیں الا ماشاء اللہ، اسی کا اثر ہے کہ علماء کی قدر لوگوں کی نگاہ میں کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے، ان کی باتوں کا کوئی اثر باقی نہیں رہ گیا ہے، اصحاب ثروت کی ہاں میں ہاں ملانے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں، تملق وچاپلوسی سے بھی نہیں چوکتے۔اسوقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ علماء اپنے اندر استغناء پیدا کریں، لا تمدن عینیک الی مامتعنابه ازواجا منهم زهرة الحياة الدنيا پر عمل پیرا ہوں،من مد يده لم يمد رجله کا شیوہ اپنائیں، انکو بڑا سے بڑا عہدہ، بڑی سے بڑی رقم خرید نہ سکے، حق بات کہنے کی جرأت اور سلیقہ رکھتے ہوں،اگر یہ صفت ہمارے اندر پیدا ہوجائے تو آج بھی دنیا قدم بوسی کے تیار ہے۔

Comments are closed.