صنف نازک

الطاف جمیل آفاقی
پیاری بہنو!
ایک بیٹی جو اپنے والدین کے لیے قیمتی سرمایہ افتخار ہوتی ہے جب اس کے قدموں میں لرزہ ہوتا ہے تو بابا یا امی دونوں اس کے ان نازک قدموں کو بوسہ لیتے ہیں انہیں چومتے ہیں، بیٹی کتنی بھی بڑی ہوجائے پر اپنے والدین کے لیے وہ اکثر گڑیا کی ہی مانند رہتی ہے، والدین کبھی مانتے ہی نہیں کہ ان کی بیٹی بڑی ہوگئی ہے، پر اس کے وہ لرزیدہ قدم جب تھوڑا سا چلنا شروع کر دیتے ہیں تو اچانک گر یہ بیٹی حیا کی دہلیز سے قدم باہر رکھ دیتی ہے تو ایک دم سے یہ اپنے والدین کا تمام پیار چھوڑ کر کسی اور دنیا کو اپنا سکوں سمجھتی ہے اور والدین اس کی اس حرکت پر خاموش رہ کر اندر ہی اندر کرب پال لیتے ہیں بیٹی ضد کرکے جب اپنے سکون کی جگہ چلی جاتی ہے تو اسے اس جہاں میں آکر اک اور جہاں کی سیر کرائی جاتی ہے، جس مرد کے سہارے وہ تمام زندگی کو حسین و دلکش بنائے رکھنے کے خواب بنتی رہتی ہے اسی مرد کے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس کا سامنا اس کی ماں جیسی ایک عورت اور بابا جیسے مرد سے ہوتا ہے کچھ پل اسے آنکھوں پر بٹھا کر اس کی خوشیاں آسمان چھونے لگتیں ہیں اور یہ نازک پری اپنوں کو بلا کر اس جہاں کو ہی اپنی جنت مان کر چہکنے لگتی ہے جوں جوں اس کی چہچہاہٹ بلند ہونے کو ہوتی ہے تو اس کی حسین دنیا کے شہزادے صاحب اپنی ضدی اور لالچی دنیا کو مزید وسعت دینے کے لئے آ کر اس کے حسین خوابوں کی دنیا کو چکنا چور کردیتا ہے اپنے والدین کے ساتھ اب اس سے فرمائشیں ہوتی ہیں جنہیں پورا کرتے کرتے اس ننھی پری کے والدین اپنے دنیا کو کھو کر آخری سفر پر چلے جاتے ہیں پھر وہ تماشہ شروع ہوتا ہے کہ اس کے خواب بکھرنے لگتے ہیں اس کی جنت میں غصہ، بھوک، مار، پیٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، گر اس کے بچے ہوں تو اس کی مصیبت دو بالا ہوجاتی ہے بس جینا نہیں چاہتی پر کہتی ہے بچوں سے مجھے خواہش نہیں زندگی کی، پر کیا کروں میرے بچو میں تمہارے لیے جی رہی ہوں جبکہ میرا حال ایسا ہے کہ پل پل مرتی ہی رہتی ہوں یہ زندگی تو عذاب ہے میرے لیے تو اے پیاری بہنو! جو تم اب سوچ رہی ہو بچوں کے لیے وہی اس سے پہلے تمہارے امی ابو سوچ رہے تھے جب تم ان بچوں کی طرح کی ایک ننھی سی جان ہوا کرتی تھی کاش تم نے ان قدموں کو یوں دوڑایا نہ ہوتا نہ تکلیف ہوتی نہ اذیت سہنا لازم بن جاتا یہ دنیا عقابوں کی ہے اور تم دنیا میں اڑتی حسین پریاں چلا کرو مگر بڑی ہوشیاری سے عقاب کی اڑان سے فریب کھاؤ گی تو نوالہ بن جاؤ گی۔
(آج ایک ایسی ہی بہن کو دیکھا بازار سے گزرتے ہوئے ایک آواز سماعت سے ٹکرائی محسوس ہوا آواز سے کہ کوئی آواز جانی پہچانی ہے جب مڑ کر دیکھا تو ایک ایسی بہن کو دیکھا جس سے میں واقف ہوں اور جانتا ہوں اس کے والدین اسے کس ناز سے اس کی پرورش کرتے تھے پر آج جو اس کا کرب سنا اس کی بے نور اور غم کی تھکاوٹ سے چور آنکھیں اس کی آنکھوں میں سرکتے آنسو اور یہ سن کر کہ بھائی میرے بھائی سے میری روداد کہیں وہ شاید میری مدد کرنے پر آمادہ ہوجائیں جس بھائی کو اس نے بے گناہی میں بھی کس قدر رسوا کیا مجھے یاد آیا تو آنکھ بھر آئی کاش یہ بہنیں ہوش و حواس میں رہ کر تھوڑی سی خوشیوں کے لیے اپنوں کو خون کے آنسو نہ رلاتی شاید انہیں بھی یہ غم کی گھڑیاں دیکھنے کو نہ ملتی اس بہن کی روداد جوں ہی فون پر اس کے بھائی کو سنائی تو وہاں سے ہچکیاں ہی ہچکیاں سنائی دیں امید ہے بھائی بہن کے غم کو خوشیوں میں بدلنے کے لیے بہن کا ہاتھ تھام چکا ہوگا اور اب بہن بھائی کے سامنے شرمندگی کے آنسوؤں کے ساتھ مسکرائی بھی ہوگی پر اس کے والدین تو آہیں بھرتے بھرتے کب کے دنیا سے جا چکے ہیں)
Comments are closed.