دھرم سنسد سے مودی جی تک ؛ ہندو راشٹر کا اعلامیہ

ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)
جن لوگوں کوشکایت تھی کہ ہری دوار اور دہلی میں مسلمانوں کے خلاف کی گئی اشتعال انگیز باتوں پر مودی جی ن خاموش ہیں انہوں نے نہ تو کچھ کہا اور نہ ہی کسی کارروائی کا حکم دیا تو لیجئے مودی جی نے جواب دے دیا ہے ۔سکھوں کے ایک تہوار گروپورب کے جشن میں کچھ گجرات کے گرودوارا لکھپت صاحب کو آن لائن خطاب کرتے ہوئے مودی جی نے سکھ گروؤں اور مغل یا مسلم حکمرانوں کی ایک دوسرے کی مخالفت اور اس ضمن میں سکھ گروؤں کے اقوال اور ’قربانیوں ‘ کا خاص طور سے ذکر کیا ۔ انہوں نے گرو تیگ بہادر اور اورنگ زیب کاتذکرہ بالخصوص کیا۔ کہا کہ اورنگ زیب کے خلاف گرو تیگ بہادر کا پراکرم اور بلیدان ہمیں سکھاتا ہے کہ آتنک اور مذہبی کٹرتا سے کیسے لڑنا ہے ۔ اسی طرح انہوں نے نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں کے خلاف سکھوں کی قربانیوں کا بھی ذکر کیا ۔انہوں نے بار بار کہا کہ سکھ گروؤں نے مغل یا مسلم حکمرانوں کے خلاف یہ سب کچھ دیش کے لئے کیا ۔ اور آخر میں صرف ایک جملے میں ہری دوار کی دھرم سنسد اور دہلی میں ہوئے ہندو یووا واہنی کے پروگرام میں کہی گئی باتوں کی تائید کردی کہ ’ ہمارے گرو جن خطروں سے دیش کو آگاہ کرتے تھے وہ آج بھی ویسے ہی ہیں اس لئے ہمیں سترک (چوکنا)بھی رہنا ہے اور دیش کی رکشا بھی کرنی ہے۔‘اب کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو یہ نہ سمجھتا ہوکہ مودی جی نے کسے خطرہ کہا ہے ،کس کے خلاف سترک رہنے اور کس سے دیش کی رکشا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وارانسی میں مودی جی نے اورنگ زیب بمقابلہ شیواجی مہاراج کر کے ہندو بمقابلہ مسلمان کہا تھا اب انہوں نے گرو تیگ بہادر بمقابلہ اورنگ زیب کہہ کر سکھوں کو مسلمانوں کے مقابل لانے کی کوشش کی ہے ۔
ہری دوار کی دھرم سنسد ہو دہلی میں ہندو یووا واہنی کا پروگرام ہو یا گرودوارا لکھپت صاحب سے مودی جی کا خطاب سب ایک ہی ہیں اور یہ دراصل سنگھ کا ہندوتوا ایجنڈا ہے جس کی بنیاد مسلم مخالفت پر ہے ۔ ہندوتوا کے ایجنڈے کے نفاذ کے لئے سنگھ کو سیاسی طاقت کے حصول کی اشد ضرورت ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آزادی کے بعد بلکہ آزادی کے پہلے سے چلی آرہی اس تحریک کو نمایاں کامیابی ۲۰۱۴ یعنی سیاسی طاقت کے حصول کے بعد ہی ملی۔ آج دیش آئینی طور پر بھلے ہی سیکولر ہو لیکن عملی طور پر ہندو راشٹر بن چکا ہے ۔آئینی طور پر سیکولر ملک کا وزیر اعظم کسی ہندو راجا کی طرح ہندو ہذہبی عمارتوں اور پروجیکٹس کا ہندو رسم ورواج اور پوجا پاٹ کے ذریعہ افتتاح کرتا ہے سیکولر ملک کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی ہندو مذہب اور تہذیب کو ہائی لائٹ کرتا ہے بلکہ ملک میں چل رہے ترقیاتی پروجیکٹس کو بھی قدیم ہندو علوم سے جوڑتا ہے اور ساتھ ہی بات بات میں مسلم حکمرانوں کو باہری حملہ آور اور ان کے دور حکمرانی کو دور غلامی کہہ کر ہندو مذہب و تہذیب کی رونمائی کو مسلم مخالفت کا تڑکا بھی دیتا ہے ۔ اور اس آئینی طور پر سیکولر ہندو راشٹر میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے اس کا اندازہ کرنے کے لئے مذکورہ دھرم سنسد میں ہوئی مسلم مخالف اشتعال انگیزیوں کے خلاف درج کیا گیاکیس تازہ ترین مثال ہے ۔ یوپی میں ڈاکٹر کفیل کے خلاف اس الزام پر کیس درج کردیا گیا تھا کہ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران ’ بھڑکاؤ بھاشن ‘ کیا تھا، آناً فاناً انہیں گرفتار بھی کرلیا گیا تھا انہیں ضمانت ملی تو ان پر قومی سلامتی قانون جیسا سخت قانون لگا کر ان کی رہائی روک دی گئی تھی جبکہ مذکورہ دھرم سنسد کے معاملے میں اتراکھنڈ کے ڈی جی پی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ ان لوگوں کی تقاریر سے کوئی ہنسا یا قتل نہیں ہوا اس لئے ان پر سخت قوانین کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ، جبکہ ڈاکٹر کفیل کے معاملے میں ہائی کورٹ نے ان پر لگے بھڑکاؤ بھاشن کے الزام کی بھی یہ کہہ نفی کردی ہے کہ ’ ان کی تقریر میں نفرت اور تشدد کو فروغ دینے کی کوئی کوشش نہیں ہے ۔‘اور اس معاملے میں ابھی تک تادم تحریر کوئی گرفتاری بھی نہیں کی گئی ہے ۔ وجہ صاف ہے کہ بر سر اقتدار پارٹی ایسا نہیں چاہتی ۔ یوپی میں جہاں ڈاکٹر کفیل پر این ایس اے لگایا گیا تھا وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور اب اتراکھنڈ میں جہاں دھرم سنسد کے معاملہ میں کوئی سخت قانون نہیں لگایا گیا وہاں بھی بی جے پی ہی کی حکومت ہے ایک ہی پارٹی کی حکومت کی اس کارکردگی میں یہ دو رخا پن صرف اس لئے ہے کہ دونوں معاملات میں ہندو مسلمان کا فرق ہے۔حالات بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ اب اس طرح کی اشتعال انگیزیاں کب عملی اقدام کی صورت اختیار کرلیں گی کہا نہیں جا سکتا ۔ پولس کا رویہ اکثر ہمارے تئیں متعصب ہوتا ہے جیسا کہ ہر دفعہ فسادات کے بعد کہا جاتا ہے اور دھرم سنسد اور ڈاکٹر کفیل کے معاملے میں ہم اس کی تازہ ترین مثال دیکھ چکے ہیں ۔ گوکہ عدلیہ میں بھی اب آستھا کا احترام کیا جانے لگا ہے لیکن اس کے باوجود عدلیہ کسی حد تک قانون کی پاسداری کرتی ہیں جیسا کہ ڈاکٹر کفیل خان کے معاملے میں ہائی کورٹ نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف این ایس اے کے اطلاق کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اجتماعی معاملات میں ہمارا حال بڑا عجیب ہے کہ ہم عدالتوں میں اس وقت جاتے ہیں جب سیاسی لیڈران اور حکومتوں سے ہماری امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں ۔ ہمارے بڑے آج بھی دھرم سنسد کے معاملے میںپہلے پولس میںشکایت درج کروانے اور پولس کی شکایت لے کر کورٹ جانے کے بجائے وزیر اعظم اوروزیر داخلہ سے خط وکتابت میں مصروف اور اس کی اشاعت پر مسرور ہوئے جارہے ہیں۔اور شاید دہلی کے معاملے میں تو کوئی شکایت بھی درج نہیں کروائی گئی ہے ۔
اس طرح کی اشتعال انگیزیوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ الیکشن جیتنے کا سیاسی داؤ ہے ۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ بی جے پی نے مسلم مخالفت کو اپنی سیاست میں اتنی شدت سے برتا ہے کہ یہی ملک کا عام سیاسی رجحان اور ایجنڈا ہو چکا ہے ۔ جو سیاسی پارٹیاں بی جے کی مخالفت میں میدان میںہیں وہ بھی مسلمانوں کی رعایت میں’ نرم ہندوتوا ‘یاسیکولر ازم کے نام ’ سرد ہندوتوا ‘کے نام یہی سیاست کرتی ہیں۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ملک میں بڑھتے زمینی مسائل مہنگائی بے روزگاری قومی اثاثوں کی فروخت معاشی گراوٹ وغیرہ اگر حل نہیں ہوئے تو یہ ہندوتوا کی ریل کو پٹری سے اتار کر بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرسکتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ملک کا سیاسی مزاج یہ ہو گیا ہے کہ وہی شخص یا پارٹی بی جے پی اور مودی جی کا متبادل ہو سکتی ہے جو یا تو ان سے بھی سخت ہندوتوا کو اپنائے یا زمینی مسائل کے حل کی بات کرتے ہوئے کم از کم انہی کی طرح مسلم مخالفت کرتی رہے ۔اور ویسے بھی ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ ۲۰۱۴ کے بعد کتنے سخت ترین کانگریسی بی جے پی میں جا چکے ہیں ، اور بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے خود کانگریس بی جے پی سے بھی زیادہ متشدد ہندوتوا والی شیو سینا سے ہاتھ ملا چکی ہے ۔ یہ ہمارے لئے تشویش کا مقام ہونا چاہئے کہ اگر یوگی ان کے مٹھ میں اورمودی پہاڑوں میں واپس چلے جائیںتو بھی اقتدار نہ ہمیں ملے گا اور نہ ہی ہماری بات کرنے والوں کو سو اب ہمیں اسی ماحول میں دین و ایمان کے ساتھ کامیاب زندگی جینے کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔
Comments are closed.