تدبرّسے کام لے اے ناداں

سمیع اللہ ملک
ہرسال جنوری کامہینہ بہت سی خوشیاں اورکچھ بیتیغموں کی یادلیکرآتاہے کچھ تواپنی خوشیوں میں مگن اوربعض اپنی محرومیوں کویادکرکے اداس ہوجاتے ہیں۔نجانے کیوں ایک طویل عرصے کے بعدآج اندلس کی2جنوری1492ربیع الاول کی بھی2تاریخ اور897ھ کی سوموارکی وہ شام جو مسلمانوں کیلئے ذلت ورسوائی اورمسکینی بھراپیغام لائی تھی،بے حد یاد آ رہی ہے۔شائد میرے ارض وطن پرایسے ہی ذلت اوررسوائی کے مہیب سائے دن بدن بڑھ رہے ہیں جن سایوں کی وجہ سے یورپ کے قلب میں سقوط غرناطہ کاسانحہ پیش آیا۔ اس وقت کاغدارمسلمان بادشاہ ابوعبداللہ جس نے اپنے فوجی افسروں سے کہناشروع کر دیاتھاکہ یہ وقت لڑائی کانہیں ہے،ہمیں عیسائیوں سے صلح کرلینی چاہئے۔جنگ کرنے سے شہر غرناطہ میں خون خرابہ ہوگا۔اس ’’روشن خیال‘‘بادشاہ نے خفیہ طورپر(بیک ڈورڈپلومیسی چینل)اپنے وزیرکوفرنینڈس کے پاس صلح کی درخواست کیلئے بھیجا جسے فرڈی نینڈنے منظور کیا اور صلح نامہ تیارکیاگیاجس پردونوں فریقوں نے دستخط کئے۔غرناطہ کے غیرت مندمسلمانوں نے مقابلہ کیا۔وہ ہتھیارڈالنے کے حق میں بالکل نہیں تھے مگرغداربادشاہ ابوعبداللہ اور اس کے امیروں نے ان غیرت مندمسلمانوں کا ساتھ نہیں دیابلکہ عوام کواپنی روشن خیالی کے پردے کے پیچھے چھپی ہوئی ذلت آمیزصلح پررضامند کروایاجس کے نتیجے میں اٹھارہ شرائط پرمبنی یہ معاہدہ طے پایاکہ:
(1)مسلمان غریب ہوں یاامیر،ان کے جان ومال کوکوئی نقصان نہیں پہنچایاجائے گااورجہاں یہ رہناچاہیں گے اجازت ہوگی(2)ابو عبداللہ اپنے عہدیداروں اورشہریوں سمیت فرنینڈس اورازابیلاکی وفاداری کاحلف اٹھائے گا(3)مسلمانوں کے مذہبی امورمیں عیسائی قطعادخل نہیں دیں گے(4)تمام مسلمان قیدی رہاکئے جائیں گے(5)کوئی عیسائی مسجد میں داخل نہیں ہو گا(6)نومسلم اپنے آبائی مذہب کواختیارنہیں کریں گے(7)مساجداوراوقاف بدستورقائم رہیں گے اوران امورمیں عیسائی دخل اندازی نہیں کریں گے (۸)مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان مقدمات کی سماعت ایک مخلوط عدالت کرے گی(9)مسلمانوں کے معاملات میں شریعت کے قوانین کی پابندی کی جائے گی(10)اس جنگ میں جومسلمان گرفتارہوں گے انہیں فورارہاکیاجائے گا(11)اگرکوئی مسلمان افریقاجاناچاہے تواس کومکمل آزادی ہوگی(12)مسلمانوں کوعیسائی ہونے کی اجازت ہوگی (13) جومال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آیاہے وہ بدستوران کی ملکیت میں رہے گا(14)مسلمانوں کے گھروں میں کوئی عیسائی سپاہی متعین نہیں کئے جائیں گے(15) موجودہ ٹیکس کے علاوہ کوئی جدیدٹیکس نہیں لیاجائے گا(16)سلطان ابوعبداللہ کے سپردابشارا کی حکومت کردی جائے گی(17)ساٹھ دن تک معاہدے کی تمام شرائط کی تکمیل کردی جائے گی(18)60 دن کے اندرشہرغرناطہ،قلعہ الحمرااور تمام سامان جنگ جواس وقت قلعہ میں موجودہے،عیسائیوں کے قبضے میں دے دیاجائے گا۔
یہ وہ18شرائط تھیں جوابوعبداللہ اورفرنینڈس کے درمیان طے پائیں۔ان تمام شرائط میں بظاہرمسلمانوں کی عزت وآبروکی حفاظت کی ضمانت نظرآرہی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں یہودونصاریٰ کے بارے میں واضح احکامات ہیں کہ وہ کبھی بھی تمہارے خیرخواہ اورہمدردنہیں ہوسکتے اورتاریخ نے اس بات کوبہت جلدسچ کردکھایا۔کچھ عرصے میں ہی عیسائیوں نے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیرکررکھ دیںاورپھرمسلمانوں پرظلم وستم کی وہ عبرتناک داستان شروع ہوجاتی ہے جوآج بھی اسپین اوردنیاکی تاریخ میں موجودہے ۔ سب سے پہلے تبدیلی مذہب کاحکم نامہ جاری ہواجس کے تحت حکم دیاگیاکہ ہرمسلمان عیسائیت قبول کرلے ورنہ قتل کردیاجائے گا۔اس حکم کے ذریعے بے شمارمسلمان جبراعیسائی بنا دئے گئے۔نومسلم خاندان بھی داخلی زیادتیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے،ہزاروں لوگوں کوسولی پرلٹکادیاگیااورہزاروں کوقیدی بنا کرجبری مشقت کے کیمپوں میں پہنچادیاگیا جہاں موت کے بعدان کورہائی ملی۔
مدارس میں بچوں کوعیسائیت کی تعلیم دی جانے لگی۔ان کے کتب خانوں میں محفوط تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتاہے کہ صرف ایک دن میں تین ہزارسے زائد مسلمانوں کوعیسائی بنایا جاتاتھا۔کچھ عرصے بعدنہ صرف مسلمانوں کے لباس اورزبان پرپابندی لگائی گئی بلکہ انہیں اپنانام بھی تبدیل کرنے کاحکم جاری ہوگیا۔مساجدکوگھوڑوں اوردیگرجانوروں کے اصطبل میں تبدیل کردیا گیااورمسلمانوں کی عالیشان اورخوبصور ت مساجدکوگرجاگھروں میں تبدیل کردیاگیا۔ابشارا میں ابوعبداللہ اوراس کے سارے خاندان کوعبرتناک اندازمیں قتل کر دیا گیااوراس علاقے کونہ صرف مسلمانوں کامذبح خانہ بنادیاگیابلکہ مسلمانوں کوجانوروں کی طرح ذبح کرنے کاتماشہ دکھایاجاتاتھا۔
مسلمانوں کے زیرحکمرانی اندلس کئی صدیوں تک سچی تہذیب وشائستگی کامرکزاورعلوم فنون کاسرچشمہ بنارہا،جس کی ہمسری یورپ کی کوئی قوم نہیں کرسکی۔جومسلمان اپنادین بدلنے پرراضی نہیں ہوئے ان کوعیسائیوں نے دہشتگردکانام دیکرجلا وطن کرکے نام ونشان تک مٹادیا۔اس سرزمین پرخدائے بزرگ وبرترکانام لیواایک بھی متنفس نہیں بچاتھا۔آج اس سرزمین کی مسجد قرطبہ جس کودنیاکی خوبصور ت مسجدکہاجاتاہے جسے دیکھنے ہزاروں سیاح یہاں کارخ کرتے ہیں وہاں کسی مسلمان سیاح کونمازتک پڑھنے کی اب تک اجازت نہیں بلکہ قانونی جرم تک قراردے دیاگیاہے۔شائداب یہ مسجدآج اذان کی آوازسے محروم پھرکسی طارق بن زیاداورعبدالرحمن اوّل کاانتظارکررہی ہے۔
وہی اندلس جہاں پہلے داخل ہونے والے مسلما ن عبدالرحمان الداخل جیسی عظیم الشان شخصیت نے یورپ کے قلب میں پہلی اسلامی مملکت قائم کی۔یورپ کوتاریکیوں سے نکال کر جدیدسائنسی،سیاسی،ادبی اورفنی علوم سے روشناس کروایااورفن تعمیرات کے حوالے سے مسلمانوں نے ایسے نمونے پیش کئے کہ جن کودیکھ کردنیاآج بھی دنگ ہے،اس میں مسجد قرطبہ اورقصرالحمرا ء کے نام قابل ذکرہیں۔مسلمانوں نے یہاں اپنی آمدکے فورابعدہی تین لاکھ کتابوں پرمشتمل ایک مکتب غرناطہ شہرمیں قائم کروایا۔ اس کے بعداندلس نے ترقی کی ایسی منزلیں طے کیں کہ اس سرزمین کوقلب یورپ کادرجہ مل گیا۔صلیبی قوتوں نے آٹھ صدیوں تک اندلس کے علوم وفنون اورترقی سے پورافائدہ اٹھایالیکن مسلمانوں کواپنے دشمن کی حیثیت سے یادرکھا۔مسلمان امرااور حکومتی اداروں کے بااثرعہدیداروں سے خصوصی تعلقات کی بنا پراندلس کی حکومت میں ان کی مداخلت اس قدر بڑھ گئی کہ بادشاہ کے دربارمیں خصوصی مشیران کی تعیناتی ان کی سفارش سے ہونے لگی۔ان مشیران کی بدولت امورمملکت کے تمام حساس رازفرنینڈس اورازابیلاکے پاس باقاعدگی کے ساتھ پہنچنے لگے اوربالآخرسقوط غرناطہ کاسانحہ غدارمسلمانوں کے ہاتھوں اپنے انجام کوپہنچا۔
مسلمانوں نے800سال تک شاندارحکومت کی لیکن وہ کیااسباب تھے کہ آٹھ صدیوں تک حکومت کرنے والوں کواس ذلت و رسوائی کامنہ دیکھناپڑا۔تاریخ اٹھاکردیکھ لیں،آپ کوآج کے حالات سے حد درجہ مماثلت نظرآئے گی،مگرہے کوئی اس پرفکرو تدبرسے کام لے؟
Comments are closed.