پیوندلگے تھے،آبرومیں

سمیع اللہ ملک
ضروری ہے کیابات کرنا!مگرسوائے باتوں کے ہم نے اب تک کیاہی کیاہے!باتیں کرتے رہتے ہیں اورباتیں سنتے رہتے ہیں۔کیابات کریں!کیامنی بجٹ پربات کریں کہ مالیاتی آقاکاحکم ہے کہ ان کے احکام کی تعمیل کی جائے۔انصاف کیعلم برداروں کی سفاکی پر بات کریں،پنجاب حکومت نے کابینہ میں توسیع کاعندیہ دیاہیتوکیاوزراکی فوج پربات کریں،ان کی بلٹ پروف گاڑیوں پربات کریں ،شاہی دعوتوں پربات کریں،فاقہ زدہ خاک بسرلوگوں پربات کریں!کیاہم جبہ ودستارپربات کریں،جاگیرداروں کی ان اراضی پربات کریں،میڈیاکے چٹخاروں پربات کریں یاحقوق انسانی کے پرچم برداروں کے نما ئشی مظاہروں پربات کریں،کتوں کے آگے ڈال دی جانے والی بچیوں پربات کریں، کارو کاری،ونی اورسواراپربات کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟کیا بات کریں بتا ئیے؟سینیٹ میں تنی ہوئی گردن کے ساتھ کھڑے ہوکریہ اعلان کرکے ہمیں خاموش کردیاجاتاہے کہ خبرداریہ ہماری بلوچ روایات ہیں۔کیاہم سب کچھ بربادہوتاہوادیکھتے رہیں،کانوں اورآنکھوں کوبندکرکے بس باتیں کرتے رہیں،پریس کانفرنسیں،سیمنیاراورخالی خولی مظاہرے سجا تے رہیں .۔۔۔۔۔۔۔۔بس باتیں ہی باتیں اورکچھ نہیں۔آخرہم اپنے بچوں کیلئے ورثہ میں بزدلی،ناکامیوں اورمایوسیوں سے بھری تاریخی چھوڑکررخصت ہوجائیں؟
روتاہوں میں چاک ِپیرہن کو
نکلاتھاہوائے تندخومیں
اندازسے خسروی تھی ظاہر
پیوندلگے تھے،آبرومیں
چھوڑیے میں پھرکہیں اورنکل جاؤں گا۔اسے پڑھیے۔ آج ہم’’فرانزکانکا‘‘کاافسانہ’’دستاویز‘‘کی بات کرلیتے ہیں شائداس کاکلائمیکس ہمارامستقبل سنواردے اورہم اپنے ہاتھوں سے کھودے ہوئے مزیدتباہی کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ ہونے کی کوئی سبیل نکال لیں:
’’محسوس ہوتاہے کہ ہماری بستی کے دفاعی انتظامات میں ابتداسے کچھ کمزوری رہ گئی تھی جس کے باعث آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑاہے ہم اپنے روزمرہ کاموں میں اتنے مشغول رہے کہ اس طرف توجہ ہی نہ دے پائے لیکن گزشتہ کئی دنوں سے جوکچھ ہورہاہے اس نے ہمیں مضطرب کردیاہے۔میں شہرکے چوک پرجوتے بنانے کاکام کرتاہوں۔ایک صبح جوں ہی میں نے اپنی دکان کادروازہ کھولاتودیکھاکہ چوک سے منسلک ہرسڑک پرسپاہیوں کاپہرہ ہے۔اجنبی شکلوں والے ان سپاہیوں کاہماری فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ شمال کی وحشی نسلوں کاہراول دستہ ہے۔مجھے سمجھ میں نہیں آتاکہ دوردرازوادیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمارے دارالخلافہ کے چوک تک کیسے آگئے جبکہ ہماراشہراپنے ملک کی سرحدوں کے بہت اندرواقع ہے۔بہرحال وحشی یہاں تک پہنچ چکے ہیں اورہرروزان کی تعدادمیں اضافہ ہورہاہے ۔
وہ اپنی فطرت کے مطا بق کھلے آسمان تلے قیام کرتے ہیں،سرپرچھتوں کی موجودگی سے انہیں وحشت ہوتی ہے،صبح سے شام تک وہ اپنی تلواروں کوچمکانے،نیزوں کی نوکیں تیز کرنے اورشہ سواری کی مشق میں مصروف رہتے ہیں۔شہرکاخوبصورت اورپر سکون چوک ان کی آمدکے بعدسے اصطبل نماجگہ میں تبدیل ہوگیاہے۔ابتدامیں ہم لوگ موقع ملتے ہی چوک صاف کرنے کیلئے اپنی دکانوں سے نکل آتے تھے اورتندہی سے کام کرتے تھے لیکن اب ہم ایساکرنے سے قاصرہیں۔ایک طرف تووحشیوں کی تعدادزیادہ ہونے سے گندگی میں اضافہ ہمارے بس سے باہرہوگیاہے اورپھریہ بھی کہ اب وہ کام کے دوران ہمیں مارتے ہیں اوربعض اوقات گھوڑوں کے سموں تلے روندنے کی کو شش کرتے ہیں ۔
وحشیوں سے گفتگوناممکن ہے،انہیں ہماری زبان کاایک لفظ بھی سمجھ نہیں آتا،اوران کی اپنی کوئی زبان نہیں ہے،وہ آپس میں پہاڑی کووں کی طرح باتیں کرتے ہیں اوران کی دلخراش آوازوں سے ہماری سماعتیں متاثرہورہی ہیں انہیں ہماری اخلاقیات یا معاشرقی قدروں سے کوئی غرض نہیں ہے۔وہ ہمارے تہذیبی اداروں پرقہقہے لگاتے ہیں،ہماری اشاروں کی زبان بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے،بس ہنستے رہتے ہیں شورمچاتے ہیں اورکووں کی طرح چیختے رہتے ہیں۔ہم انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ ہمارے جبڑے دکھ جاتے ہیں اورہم ہاتھ ہلاہلاکرنڈھال ہوجاتے ہیں لیکن وہ کچھ نہیں سمجھتے۔وہ کچھ سمجھناہی نہیں چاہتے۔اکثروہ اپنے چہرے بگاڑلیتے ہیں۔کبھی کبھی ان کامنہ اتنابگڑجاتا ہے کہ ان کی آنکھوں کی پتلیاں اوپرچڑھ جاتی ہیں اورنچلا سفیدحصہ سامنے آجاتاہے۔اس موقع پران کے منہ سے جھاگ بھی نکلتی ہے لیکن اس حرکت سے وہ کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتے یہ دھمکی بھی نہیں ہوتی بس اس طرح کرکے مخاطب پرخوف طاری کرناان کامقصودہوتاہے ۔
جوچیزبھی انہیں پسندآئے،لے جاتے ہیں،اس کیلئے انہیں طاقت بھی استعمال نہیں کرنی پڑتی۔وہ اپنی مطلوبہ چیزکی طرف بڑھتے ہیں اورہمیں ان کاراستہ چھوڑکراپنی رضامندی کااظہارکرناہوتاہے۔میرے ذخیرے سے بھی انہوں نے کئی چیزیں اٹھالی ہیں لیکن جب میں دیکھتاہوں کہ وہ قصائی کے ساتھ کیاسلوک کررہے ہیں تومیری شکایت دم توڑدیتی ہے۔وہ قصائی کاساراگوشت کھاجاتے ہیں،ان کے گھوڑے بھی گوشت خورہیں۔اس سے پہلے ہماری بستی میں کبھی کسی نے گوشت کھانے والاگھوڑانہیں دیکھاتھا۔اکثرایساہوتا ہے کہ وحشی اوراس کاگھوڑاایک ہی گوشت کے لوتھڑے کومخالف سمتوں سے کھاناشروع کردیتے ہیں۔قصائی تمام دن اپنی دکان میں بیٹھا کانپتارہتاہے۔وحشیوں کوروکناکسی کے بس میں نہیں ہے۔ہم چندہ کرکے قصائی کانقصان کسی حدتک پوراکردیتے ہیں،اگرہم ایسانہ کریں توقصائی دوسرے دن گوشت نہیں لاسکے گااوراگروحشیوں کوگوشت نہ ملاتونجانے وہ کیاکریں،یوں تووہ گوشت ملنے کے بعدبھی اپنے ظلم کی کوئی نشانی ضرورچھوڑجاتے ہیں۔
ذبح کرنے کی زحمت سے بچنے کیلئے قصائی ایک زندہ بیل لے آیاتھاآئندہ وہ ایساکبھی نہیں کرے گا۔میں اپنی دکان کے تہہ خانے میں چمڑے کے ٹکڑوں میں چھپ کرلیٹ گیاتھا مگر اس کے باوجودایک گھنٹے تک بیل کی چیخیں میرے کانوں میں گو نجتی رہی تھیں۔ وحشیوں نے دائرہ وارکھڑے ہوکرزندہ بیل پردانت گاڑدیے تھے اوراسے ہرسمت سے ادھیڑنا شروع کردیاتھا۔شام کومیں ڈرتے ڈرتے باہرنکلاتودیکھاکہ بیل کے ڈھانچے کے گردوحشی یوں بدمست پڑے ہیں جیسے جشن کے اختتام پرمے نوش شراب کے بڑے برتن کے آس پاس لیٹے نظرآتے ہیں۔یہی وہ موقع تھاجب میں نے بادشاہ کومحل کی کھڑکی سے جھانکتے دیکھاتھا۔عام طورپروہ محل کے اندرونی کمروں تک محدودرہتاتھالیکن اس دن وہ بیرونی راہداری کے جھروکے سے سرلگاکرجھانک رہاتھا۔چوک پرہونے والے واقعات کامشاہدہ کررہاتھا۔اب کیاہوگا؟ہم سب کے ذہنوں میں یہی سوال گونجتاہے بادشاہ کے محل کی کشش وحشیوں کویہاں تک کھینچ لائی ہے اورہم میں سے کوئی بھی انہیں واپس دھکیلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔محل کے آہنی دروازے بندرہتے ہیں۔وحشیوں کی آمد سے قبل جو شاہی دربان ان دروازوں کے باہرکھڑے پہرہ دیتے تھے،اب وہ سلا خوں کے اندرٹہلتے نظرآتے ہیں۔ہم کب تک وحشیوں کاعذاب سہیں گے؟بس افسانے کاایک حصہ تمام ہوا اب اس افسانے کی روشنی میں حقیقت کی دنیامیں آپ کولیکرچلتاہوں:
نئے پاکستان اورمدینہ ریاست بنانے والے اب تک ملک کی تقدیربدلنے کیلئے کئی وزیرخزانہ اوردرجنوں سیکرٹری آزماکرتبدیل کر چکے لیکن ابھی تک کامیابی کوچھوناتوکجا،دن بدن گراف تیزی سے روبہ زوال ہوتاچلاگیاجس کانتیجہ اپنے ہی مضبوط صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعدساری جماعت کے اکابرین کوتبدیل کردیاگیا،اورجماعت کے تمام رہنمائوں نے بیک زبان اپنی شکست فاش کوموجودہ مہنگائی کے پیچھے چھپنے میں عافیت جانی۔اقتدارسنبھالنے سے قبل قوم کوجوخواب دکھائے گئے،اب وہی گلے کی ہڈی بن کر کچوکے لگارہے ہیں۔دوماہ قبل عالمی مالیاتی اداروں کی منت سماجت کیلئے پوری ٹیم امریکاروانہ کی جہاں شرفِ ملاقات کیلئے کڑی شرائط کی تکمیل تھالیکن اس کے باوجودجب بات
نہ بن سکی تومدینہ ریاست کے ولی عہدسے چارفیصدسودپرتین ارب ڈالراس شرط پرمستعارلئے گئے کہ یہ رقم کہیں بھی خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ ملکی خزانہ میں دیوالیہ سے بچنے کیلئے رکھی جائے گی کیونکہ بڑے حسین دعوؤں کے ساتھ ملکی خزانے کی بیمارحالت کوٹھیک کرنے کیلئے ایف بی آرکی سربراہی سید شبر زیدی کے حوالے کی گئی تھی جوچندماہ بعدہی اس بھاری پتھرکوچوم کرچھوڑکرچلے گئے اوراب پچھلے دنوں ببانگ دہل انہوں نے پاکستانی عوام کوبتایاہے کہ پاکستان عملاًدیوالیہ ہوچکاہے بس اس کااعلان باقی ہے۔دیوالیہ ہونے کے بعدکے خوفناک مناظرکانقشہ کھینچتے ہوئے جس تباہی کاذکرکیااب اس کے اثرات واضح ہونے شروع ہوگئے ہیں اوریوں محسوس ہوتاہے کہ افسانے میں جن وحشیوں کازندہ بیل کے جسم میں دانت گاڑکرخون پینے کانقشہ کھینچاگیاہے،اس پرعملدرآمدجاری ہوگیاہے۔
آپ نے اقتدارسنبھالنے سے قبل قوم کویقین دلایاتھاکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے پاس ہرگزنہیں جائیں گے لیکن اب خوداعلان کرنے پرمجبورہوگئے ہیں کہ حکومت کی جانب سے منی بجٹ کاپیش کرناآئی ایم ایف کے مطالبات کاایک حصہ ہے جنہیں پوراکرکے ایک ارب ڈالرکی قسط وصول ہوگی۔آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی اگلی قسط کیلئے پاکستان کا کچھ پیشگی اقدامات اٹھانالازمی ہے جن میں ایک سٹیٹ بینک آف پاکستان کاخودمختاری کابل بھی ہے اوراس کے ساتھ 400/ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھاکرناہے۔ایف بی آرکے سربراہ کے مطابق حکومت نے وفاقی بجٹ میں5800ارب روپے کاٹیکس اکٹھاکرنے کاٹارگٹ رکھاتھاتاہم آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیاہے اس سال ملک میں ٹیکس آمدنی6200/ارب روپے ہو۔اب400/ارب اضافی منی بجٹ میں سیلزٹیکس کی چھوٹ ختم کرکے اوراس کی شرح میں اضافہ کرکے اکٹھاکیاجائے گا۔اسی طرح 400 /ارب اضافی اکٹھاکرنے کیلئے پٹرولیم ڈویلمپنٹ لیوی میں بھی فوری اضافہ کیاجارہاہے۔خودایف بی آرکے سربراہ نے اعتراف کیاہے کہ اگرچہ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبے پر مالیاتی خسارہ دورکرنے کیلئے یہ اقدامات کررہی ہے تاہم اس سے ملک کابڑھتاہوامالیاتی خسارہ ختم ہوتامشکل نظرآرہاہے۔اگرآپ کی غلط پالیسیوں کی بنا پریہ خسارہ ختم نہیں ہوگاتویقیناآئی ایم ایف کادباؤآپ کی خودمختاری سلب کرنے کیلئے ایٹمی نیو کلیرسے دستبرداری کاسفرکیسے روک سکیں گے جوبہرحال ایک عرصے سے امریکاومغرب کاٹارگٹ ہے۔
یہی وجہ ہے ملک میں ایک مرتبہ پھرعالمی سودخوراداروں کے حکم پرمنی بجٹ لانے کے ساتھ ساتھ کڑی شرائط کے بل بھی پاس کروالئے گئے ہیں اورجس عجلت سے اسمبلی کے اسپیکران تمام بلوں کومنظورکروارہے تھے اس سے یوں معلوم ہورہاتھاکہ ملک کے مستقبل کو بے رحمی سے نہ صرف ذبح کیاجارہاہے بلکہ ہوشربانئے ٹیکسزکی منظوری کے بعدعوام کی تکابوٹی
کرکے سود خورمہاجنوں کی سیرشکمی کیلئے پیش کردی گئی ہیں۔150/آئٹموں پربراہ رات ٹیکس عائدکرکے نومنتخب سینیٹراوروزیرخزانہ شوکت ترین کاعجیب بے نیازمندانہ بیان کہ چند سوارب ٹیکسزبڑھادینے سے قوم کوکوئی فرق نہیں پڑتااورعجیب ڈھٹائی کاعالم تویہ ہے کہ دعویٰ کیاجارہا ہے کہ پاکستان میں اب بھی دوسرے ملکوں کی نسبت مہنگائی بہت کم ہے۔
صنعت کارہرملک کی ریڑھ کی ہڈی تسلیم کئے جاتے ہیں،اس منی بجٹ پروہ بھی چیخ اٹھے ہیں۔کاروباری طبقے کے مطابق خام مال پر سیلزٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے اوراس کی شرح 17 فیصد کرنے سے معیشت اورپیداواری عمل پرتباہ کن منفی اثرات مرتب ہوں گے اورخام مال کے مہنگاہونے سے پیداواری عمل سست روی کاشکارہوجائے گا۔یادرکھیں کہ خام مال کے مہنگاہونے سے جب مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تویہ سمگلنگ میں اضافے کاباعث بنتی ہیں۔ملک میں خوردنی تیل کی زیادہ قیمت کی وجہ سے ایران سے سمگل شدہ خوردنی تیل اب زیادہ مارکیٹ میں آرہاہے جس کااثر خوردنی تیل کی صنعت پرپڑرہاہے۔پھریہ صورتحال روزگارکے مواقع کوکم کرنے کاباعث بنے گی۔آپ نے توقوم کوایک کروڑ نوکریاں دینے کاوعدہ کیاتھالیکن یہاں تومعاملہ الٹاہوگیا۔
اس صورتحال میں خام مال پرسیلزٹیکس صنعتی شعبے کی کاروباری لاگت کوبڑھائے گااوراس کے دونتیجے نکل سکتے ہیں،ایک توزیادہ لاگت کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی جو غریب آدمی کو متاثر کریں گی دوسراپیداواری عمل میں کمی آئے گی اوراس کی وجہ سے کم پیداوارہوگی توکم ملازمتوں کے مواقع پیداہوں گے اورموجودہ صنعت کارپہلے سے موجودہ ملازمین میں چھانٹی کرکے اپنے خسارہ کوکم کرنے کی کوشش کریں گے،اس طرح دے دونوں صورتوں میں اس کااثرغریب آدمی پرپڑے گا۔
ان حالات میں یوں لگتاہے بستی کے دفاع کافریضہ عالمی کاریگروں اورہنرمندوں کوسونپ دیاگیاہے اورہم نے اپنی غلط پالیسیوں کی بناپریہ ثابت کردیاہے کہ ہم یہ فرض انجام دینے کے قابل نہیں ہیں۔پچھلے تین سالوں سے مسلسل دہائی دے رہاہوں کہ ایف اے ٹی اے ایف کے ذریعے مشکیں کس کرآپ کومعاشی طورپردیوالیہ کیاجائے گااوراس کے بعد جس طرح ساہوکارقرض نہ ملنے کی صورت میں گھرکے سارے مال کی قرقی کاسمن لیکر دروازے پرپہنچ جاتاہے اورحکم دیاجاتاہے کہ کسی چیزکوہاتھ لگائے بغیرگھر کوخالی کرکے نکل جائیں ۔اب یہ فیصلہ کون کرے گاکہ ہم سب کس کی غلطی سے بربادہو رہے ہیں؟؟
ہرسفرکے بعدویساہی سفررکھاگیا
اورپھرمقسوم میرادربدررکھاگیا
ہم کہاں سینے کی تہہ میں یہ سمندرتھامتے
ایک اِس خاطرتجھے،اے چشم تررکھاگیا

Comments are closed.