حجاز مقدس اوراندیشوں کے بادل

حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی دامت برکاتہم
ناظر عام ندوۃ العلماء، لکھنؤ انڈیا
خلیفہ و مجاز بیعت
شیخ المشائخ عارف باللہ مرشدالامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم العالیہ
حجاز مقدس جو ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن ہے، جہاں سے دین وایمان ملا اور جس سے ہر ایمان والے کو وہ جذباتی وابستگی ہے جو عین ایمان ہے، جس کی پاسبانی ہر صاحب ایمان کی ذمہ داری ہے، آج سے سو سال پہلے وہاں نظام میں کچھ ایسی ابتری تھی کہ امن مفقود تھا، جہالت وناخواندگی عام ہوگئی تھی، عقائد تک محفوظ نہ تھے اور دور جاہلیت کی بعض رسمیں رواج پاگئی تھیں، اقتصادی حالت اور خراب تھی، طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا، یہ زمانہ شریف مکہ کا تھا اور یہ حکومت خاص طور پر شریف حسین کے دور میں برطانوی اثرات کے تابع ہوگئی تھی، اللہ کا فیصلہ ہوا اور اس نے آل سعود کو اصلاح حال کے لیے کھڑا کیا، سلطان عبد العزیزبن سعود نے ۱۹۲۵ء میں پورے علاقہ پر کنٹرول کیا، امن وامان قائم کیا، اصلاح حال کا کام کیا، ظلم کا ہاتھ روک دیا، حدود شرعیہ کو نافذ کیا اور سادگی اور مساوات کی ایک مثال قائم کی، اس کے ساتھ اقتصادی پریشانیوں کا بھی خاتمہ ہوا، زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی گئی۔
ملک عبد العزیز کے بعد ان کے جانشینوں نے بھی ان کوششوں کوجاری رکھا، اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہے، لیکن کسی نہ کسی طرح گاڑی چلتی رہی، البتہ تیل کی فراوانی نے اسباب عیش پیدا کردیے اور جفا کش قوم کو جب اس سے سابقہ پڑا تو وہ اس کے سیل رواں میں بہنے لگی، پھر امریکہ ویورپ کے روابط نے اس کی رفتار اور تیز کردی اور لوگوں کا سنبھالنا مشکل ہوگیا۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے پہلا سفر ۱۹۴۷ء میں کیا تھا، دوسرے سفر میں جو ۱۹۵۰ء میں ہوا، اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبد العلی صاحب کو انہوں نے جو خط لکھا ہے اس سے اس کی عکاسی ہوتی ہے، مولانا کے قلم سے یہ جملے نکل گئے: "تین برسوں میں کھلا ہوا تغیر محسوس ہوتا ہے، بازار سے لے کر لوگوں کے دماغوں تک مغربی تمدن، تجارت ومعاشیات اور افکار وخیالات کے پنجے اور زیادہ گڑ چکے ہیں، جدہ اترتے ہی اس کا احساس ہوتا ہے اور جس قدر حالات سے واقفیت ہوتی ہے، اتنا ہی اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ خوبصورت عربی لباس میں کتنے دل اور دماغ خالص مغربی بن چکے ہیں۔” (مکتوبات: ۱/۵۴)
اس کے بعد حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا، لیکن حکومت کو شریعت کا ترجمان کسی نہ کسی حد تک سمجھا جاتا رہا اور اسی دوران ملک فیصل کو زمام اقتدار ملی، جن کو اتحاد کے علم بردار کے طور پر دیکھا گیا اور جو اپنی صحیح فکر کی وجہ سے امریکہ کی آنکھوں میں کانٹا بنے رہے، بالآخر ان کو شہید کردیا گیا۔
ملک کی ترقی اور عوام کو راحت پہنچانے کے نام پر جدید وسائل تمدن، آلات تفریح اور سعودی عرب کو پڑوسی ممالک کے نقش قدم پر چلانے اور مغربی تہذیب کو اپنانے کے بارے میں پہلے ہی سوچا جارہا تھا اور اس کی طرف قدم بڑھنے لگے تھے، ملک فیصل کے بعد اس میں اور تیزی آئی اور آہستہ آہستہ مملکت نے امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے، لیکن پھر بھی شریعت کا احترام باقی رہا اور کسی نہ کسی حد تک اس پر عمل بھی ہوتا رہا۔
عراق وکویت کی جنگ کے بعد جب امریکی فوجوں کا وہاں تسلط ہوا، اس کے بعد حالات اور بگڑے اور شکنجہ اور کستا گیا، ملک عبد اللہ کے آنے کے بعد کچھ تبدیلی کی امید تھی، لیکن ان کو بھی مجبور کردیا گیا اور حالات مزید ابتر ہونے لگے، ان کے انتقال کے بعد ملک سلمان جو دینی ذہن رکھتے تھے اور ان کے مزاج میں سادگی بھی تھی، ان سے توقعات وابستہ کرلی گئیں، لیکن بڑی آسانی کے ساتھ ان کو کنارے کردیا گیا اور ان کے فرزند محمد بن سلمان نے زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لی اور اس وقت وہی سیاہ وسفیدکے مالک ہیں، ان کی تعلیم امریکہ میں ہوئی اور غلط صحبتوں نے ان کو وہاں پہنچا دیا جس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی، انہوں نے بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں شروع کیں اور مملکت کو اس راستہ پر ڈال دیا جس سے ہر ہر مسلمان کا دل مجروح ہے۔
مسئلہ اب صرف آلات لہو ولعب کا نہیں رہ گیا، اب کھلے عام بے حیائی کے مناظر ہیں، حکومت ان کو آگے بڑھا رہی ہے، افسوس ہے کہ لوگ دیوانہ وار ان پر ٹوٹ رہے ہیں، دعوتی وفکری کاموں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں، مسجدوں کے منبر سے بجائے "انکار منکر” کے "انکار معروف” کا کام بھی ہونے لگا ہے، اسلامی شعائر کا بھی وہ احترام نہ رہا، غیر مسلموں کے لیے بھی اب حدود باقی نہیں رہے، وہ برسرعام ہر جگہ آجاسکتے ہیں۔
یہی وہ سعودی حکومت ہے جس نے جامعہ اسلامیہ قائم کیا، جس سے دنیا کے مسلمانوں نے فائدہ اٹھایا، رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد ڈالی، جس نے عالمی سطح پر مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی لی، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ دونوں اداروں میں بنیادی طور پر شریک تھے اور بعض میٹنگوں میں وہاں کی آراء کے خلاف حضرت مولانا نے رائے دی اور مولانا کی بات مانی گئی، اس دور میں وہ علماء وہاں موجود تھے جو صاف بات کہتے تھے، ان کا احترام تھا، ان کی بات چلتی تھی، لیکن آج وہ کچھ نہیں، نہ جامعہ اسلامیہ میں وہ بہار ہے، نہ رابطہ عالم اسلامی اپنے کاموں میں آزاد ہے اور نہ علماء کو بولنے کی آزادی ہے، نہ جانے کتنے علماء حق جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیے گئے ، سچی بات کا اظہار کرنا مشکل ہوگیا، وہ دینی وفکری کتابیں جنہوں نے دماغوں کو صحیح رخ دیا تھا، لوگوں میں صحیح فکر اور صحیح جذبات پیدا کرنے میں جن کا بڑا کردار تھا، آج ان پر پابندیاں لگا دی گئیں، تبلیغی جماعت جو خالص اصلاحی جماعت ہے، جس کا سیاست سے دور دور کا واسطہ نہیں، مسجد کے منبروں سے اس کو برا بھلا کہنے کے احکامات جاری کردیے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خالص توحید کا اعلان کرنے والی اور اس کی دعوت دینے والی مملکت آج فلم اسٹاروں کو بلا کر رقص وسرود کی برہنہ محفلوں کی پشت پناہی کرے اور آخری بات یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں کی یادگاریں محفوظ کی جائیں، پھر مدینہ منورہ سے صرف چند سو کلو میٹر کے فاصلہ پر وہ شہر آباد کیا جارہا ہے جس میں کوئی پابندی نہیں، آخر بات کہاں تک پہنچ گئی۔
موجودہ ولی عہد نے بر سرعام اعلان کیا کہ ہم مملکت کو یورپ کا حصہ بنا دیں گے اور ہم اس کے لیے پرعزم ہیں، لوگوں کو یورپ جانے کی ضرورت نہیں، وہ تفریح کے لیے سعودی عرب آئیں، وہ مکہ اور مدینہ اور مقامات مقدسہ جہاں حاضری ایمان تازہ کرنے کے لیے اور اللہ کی بندگی کے لیے ہوتی تھی، لوگ وہاں تفریح کے لیے جائیں، یقینا یہ زبان نبوت سے نکلے ہوئے کلمات ہیں جو پورے ہورہے ہیں، آپﷺنے فرمایا تھا: ایک زمانہ میں حال یہ ہوجائے گا کہ مالدار تفریح کے لیے آئیں گے، متوسط طبقہ تجارت کے لیے آئے گا اور غریب مانگنے کے لیے، یہ بات حقیقت بن کر سامنے آرہی ہے اور اس کے راستے ہموار کیے جارہے ہیں۔
یہ وہ صورت حال ہے جس نے عالم اسلام کو بے چین کردیا، ہر طرف سے صدائے احتجاج بلند کی گئی اور مختلف ملکوں کے مقتدر علماء نے اس صورت پر سخت تشویش ظاہر کی، ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ نے مفصل مکتوب سفارت خانہ کے واسطہ سے محمد بن سلمان کو ارسال کیا اور اس میں اپنے کرب کا اظہار کیا اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے حوالہ سے انہی کے اسلوب میں اپنی بات رکھی۔
امریکہ ویورپ سے یہ مرعوبیت اور وہاں کی وہ متعفن تہذیب جو اونچی اونچی عمارتوں اور سفید چمڑیوں میں بڑی دلکش معلوم ہوتی ہے، اس کی جاذبیت نے ذہن ودماغ کو ایسا مسموم کردیا ہے کہ آج وہی ترقی کا معیار ہے۔
وہ تہذیب جو حقیقت میں یورپ کا اگلا ہوا نوالہ ہے، مشرقی قومیں اس کو نگلنے کے لیے تیار ہیں اور وہ مقدس جگہ جہاں سے دنیا کو تہذیب وتمدن کی سوغات ملی، اخلاق ومعاشرت کا وہ قیمتی نظام ملاجس نے دنیا کو ایک نئی سمت بخشی اور انسانوں کی انسانیت کی حقیقت معلوم ہوئی، آج وہ سب کچھ بھلا کر دنیا کی ملمع سازی کا شکار ہورہی ہے، سچی بات یہ ہے کہ ع اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
پوری دنیا اس وقت جن سخت حالات سے گذر رہی ہے اور طبعی طور پر مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہیں، اس وقت ضرورت ہے بات کو پوری طرح سمجھنے کی اور حتی الامکان ہرطرح کے انتشار سے بچ کر اصلاح حال کی کوششوں کی اور اپنے دائرہ کار میں جو ہوسکتا ہو، ہر سطح سے اس میں آگے بڑھنے کی، ورنہ دائرے تنگ ہوتے جائیں گے، حالات بگڑتے جائیں گے، آج بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ خود ہمیں اپنی خامیوں کا بھی احساس نہیں، ہر میدان میں اور زندگی کے ہر گوشہ میں اگر کوششیں کی جائیں گی تو کسی نہ کسی صورت میں اس کے اثرات وسیع ہوں گے اور کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کی بدولت وہاں تبدیلی کی شکلیں پیدا فرمادے، جو اس وقت ہمارے اختیار سے باہر ہیں۔ {وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ}(اور جو بھی ہمارے لیے جان کھپائیں گے تو ہم ضرور ان کے لیے اپنے راستے کھول دیں گے اور یقینا اللہ بہتر کام کرنے والوں ہی کے ساتھ ہے)
(اداریہ ماہنامہ پیام عرفات، رائے بریلی)
Comments are closed.